الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    


سنن ترمذي کل احادیث (3964)
حدیث نمبر سے تلاش:

سنن ترمذي
كتاب الصيام عن رسول الله صلى الله عليه وسلم
کتاب: روزوں کے احکام و مسائل
1. باب مَا جَاءَ فِي فَضْلِ شَهْرِ رَمَضَانَ
1. باب: ماہ رمضان کی فضیلت کا بیان۔
حدیث نمبر: 682
حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ بْنِ كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِذَا كَانَ أَوَّلُ لَيْلَةٍ مِنْ شَهْرِ رَمَضَانَ، صُفِّدَتِ الشَّيَاطِينُ وَمَرَدَةُ الْجِنِّ، وَغُلِّقَتْ أَبْوَابُ النَّارِ فَلَمْ يُفْتَحْ مِنْهَا بَاب، وَفُتِّحَتْ أَبْوَابُ الْجَنَّةِ فَلَمْ يُغْلَقْ مِنْهَا بَاب، وَيُنَادِي مُنَادٍ يَا بَاغِيَ الْخَيْرِ أَقْبِلْ، وَيَا بَاغِيَ الشَّرِّ أَقْصِرْ، وَلِلَّهِ عُتَقَاءُ مِنَ النَّارِ وَذَلكَ كُلُّ لَيْلَةٍ ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ، وَابْنِ مَسْعُودٍ، وَسَلْمَانَ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب ماہ رمضان کی پہلی رات آتی ہے، تو شیطان اور سرکش جن ۱؎ جکڑ دیئے جاتے ہیں، جہنم کے دروازے بند کر دیئے جاتے ہیں، ان میں سے کوئی بھی دروازہ کھولا نہیں جاتا۔ اور جنت کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں، ان میں سے کوئی بھی دروازہ بند نہیں کیا جاتا، پکارنے والا پکارتا ہے: خیر کے طلب گار! آگے بڑھ، اور شر کے طلب گار! رک جا ۲؎ اور آگ سے اللہ کے بہت سے آزاد کئے ہوئے بندے ہیں (تو ہو سکتا ہے کہ تو بھی انہیں میں سے ہو) اور ایسا (رمضان کی) ہر رات کو ہوتا ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
اس باب میں عبدالرحمٰن بن عوف، ابن مسعود اور سلمان رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔ [سنن ترمذي/كتاب الصيام عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 682]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «سنن ابن ماجہ/الصوم 2 (1642)، (تحفة الأشراف: 1249) (صحیح) وأخرج الشق الأول کل من: صحیح البخاری/الصوم 5 (1898، 1899)، وبدء الخلق 11 (3277)، وصحیح مسلم/الصوم 1 (1079)، وسنن النسائی/الصوم 3 (2099، 2100)، و4 (2101، 2102، 2103، 2104)، و5 (2106، 2107)، وط/الصوم 22 (59)، و مسند احمد (2/281، 357، 378، 401)، وسنن الدارمی/الصوم 53 (1816)، من غیر ہذا الطریق عنہ۔»

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (1642)

حدیث نمبر: 683
حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا عَبْدَةُ، وَالْمُحَارِبِيُّ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ صَامَ رَمَضَانَ وَقَامَهُ إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ، وَمَنْ قَامَ لَيْلَةَ الْقَدْرِ إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ ". هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ الَّذِي رَوَاهُ أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ حَدِيثٌ غَرِيبٌ، لَا نَعْرِفُهُ مِثْلَ رِوَايَةِ أَبِي بَكْرِ بْنِ عَيَّاشٍ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ أَبِي بَكْرٍ قَالَ: وَسَأَلْتُ مُحَمَّدَ بْنَ إِسْمَاعِيل عَنْ هَذَا الْحَدِيثِ، فَقَالَ: حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ الرَّبِيعِ، حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ مُجَاهِدٍ قَوْلَهُ: إِذَا كَانَ أَوَّلُ لَيْلَةٍ مِنْ شَهْرِ رَمَضَانَ فَذَكَرَ الْحَدِيثَ. قَالَ مُحَمَّدٌ: وَهَذَا أَصَحُّ عِنْدِي مِنْ حَدِيثِ أَبِي بَكْرِ بْنِ عَيَّاشٍ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے ایمان کے ساتھ اور ثواب کی نیت سے رمضان کے روزے رکھے اور اس کی راتوں میں قیام کیا تو اس کے سابقہ گناہ ۱؎ بخش دئیے جائیں گے۔ اور جس نے ایمان کے ساتھ اور ثواب کی نیت سے شب قدر میں قیام کیا تو اس کے بھی سابقہ گناہ بخش دئیے جائیں گے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- ابوہریرہ کی (پچھلی) حدیث، جسے ابوبکر بن عیاش نے روایت کی ہے غریب ہے، اسے ہم ابوبکر بن عیاش کی روایت کی طرح جسے انہوں نے بطریق: «الأعمش عن أبي صالح عن أبي هريرة» روایت کی ہے۔ ابوبکر ہی کی روایت سے جانتے ہیں،
۲- میں نے محمد بن اسماعیل بخاری سے اس حدیث کے متعلق پوچھا تو انہوں نے بسند «حسن بن ربیع عن أبی الأحوص عن الأعمش» مجاہد کا قول نقل کیا کہ جب ماہ رمضان کی پہلی رات ہوتی ہے … پھر آگے انہوں نے پوری حدیث بیان کی،
۳- محمد بن اسماعیل بخاری کہتے ہیں: یہ حدیث میرے نزدیک ابوبکر بن عیاش کی حدیث سے زیادہ صحیح ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب الصيام عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 683]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 15038 و15051) (صحیح) وأخرجہ کل من: صحیح البخاری/الإیمان 27 (37)، و28 (38)، والصوم 6 (1901)، والتراویح 1 (2008، 2009)، صحیح مسلم/المسافرین 25 (759)، سنن ابی داود/ الصلاة 318 (1371)، سنن النسائی/قیام اللیل 3 (1603)، والصوم 39 (2193)، والإیمان 21 (5027-5029)، و22 (5030)، سنن ابن ماجہ/الإقامة 173 (1326)، موطا امام مالک/ رمضان 1 (2)، مسند احمد (2/232، 241، 385، 473، 503)، سنن الدارمی/الصوم 54 (1817)، من غیر ہذا الطریق عنہ وبتصرف بسیر فی السیاق وانظر ما یأتی عند المؤلف برقم: 808۔»

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (1326)

2. باب مَا جَاءَ لاَ تَقَدَّمُوا الشَّهْرَ بِصَوْمٍ
2. باب: رمضان کے استقبال کی نیت سے ایک دو روز پہلے روزہ رکھنے کی ممانعت کا بیان۔
حدیث نمبر: 684
حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا عَبْدَةُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا تَقَدَّمُوا الشَّهْرَ بِيَوْمٍ وَلَا بِيَوْمَيْنِ إِلَّا أَنْ يُوَافِقَ ذَلِكَ صَوْمًا كَانَ يَصُومُهُ أَحَدُكُمْ، صُومُوا لِرُؤْيَتِهِ وَأَفْطِرُوا لِرُؤْيَتِهِ، فَإِنْ غُمَّ عَلَيْكُمْ فَعُدُّوا ثَلَاثِينَ ثُمَّ أَفْطِرُوا ". رَوَى مَنْصُورُ بْنُ الْمُعْتَمِرِ، عَنْ رِبْعِيِّ بْنِ حِرَاشٍ، عَنْ بَعْضِ أَصْحَابِ الَّنَبِيِّ صَلى الله عليه وسَلم بِنَحْوِ هَذَا، قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ بَعْضِ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ كَرِهُوا أَنْ يَتَعَجَّلَ الرَّجُلُ بِصِيَامٍ قَبْلَ دُخُولِ شَهْرِ رَمَضَانَ لِمَعْنَى رَمَضَانَ، وَإِنْ كَانَ رَجُلٌ يَصُومُ صَوْمًا فَوَافَقَ صِيَامُهُ ذَلِكَ فَلَا بَأْسَ بِهِ عِنْدَهُمْ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس ماہ (رمضان) سے ایک یا دو دن پہلے (رمضان کے استقبال کی نیت سے) روزے نہ رکھو ۱؎، سوائے اس کے کہ اس دن ایسا روزہ آ پڑے جسے تم پہلے سے رکھتے آ رہے ہو ۲؎ اور (رمضان کا) چاند دیکھ کر روزہ رکھو اور (شوال کا) چاند دیکھ کر ہی روزہ رکھنا بند کرو۔ اگر آسمان ابر آلود ہو جائے تو مہینے کے تیس دن شمار کر لو، پھر روزہ رکھنا بند کرو۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- ابوہریرہ رضی الله عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں بعض صحابہ کرام سے بھی احادیث آئی ہیں،
۳- اہل علم کے نزدیک اسی پر عمل ہے۔ وہ اس بات کو مکروہ سمجھتے ہیں کہ آدمی ماہ رمضان کے آنے سے پہلے رمضان کے استقبال میں روزے رکھے، اور اگر کسی آدمی کا (کسی خاص دن میں) روزہ رکھنے کا معمول ہو اور وہ دن رمضان سے پہلے آ پڑے تو ان کے نزدیک اس دن روزہ رکھنے میں کوئی حرج نہیں۔ [سنن ترمذي/كتاب الصيام عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 684]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 15057) (صحیح) وأخرجہ کل من: صحیح البخاری/الصوم 14 (1914)، صحیح مسلم/الصیام 3 (1082)، سنن ابی داود/ الصیام 11 (2335)، سنن النسائی/الصیام 31 (2174)، و38 (2189)، سنن ابن ماجہ/الصیام 5 (160)، مسند احمد (2/234، 347، 408، 438، 477، 497، 513)، سنن الدارمی/الصوم 4 (1731)، من غیر ہذا الطریق۔»

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (1650 و 1655)

حدیث نمبر: 685
حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ الْمُبَارَكِ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا تَقَدَّمُوا شَهْرَ رَمَضَانَ بِصِيَامٍ قَبْلَهُ بِيَوْمٍ أَوْ يَوْمَيْنِ، إِلَّا أَنْ يَكُونَ رَجُلٌ كَانَ يَصُومُ صَوْمًا فَلْيَصُمْهُ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: رمضان سے ایک یا دو دن پہلے (رمضان کے استقبال میں) روزہ نہ رکھو سوائے اس کے کہ آدمی اس دن روزہ رکھتا آ رہا ہو تو اسے رکھے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب الصيام عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 685]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «انظر ما قبلہ (تحفة الأشراف: 15406) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (1650)

3. باب مَا جَاءَ فِي كَرَاهِيَةِ صَوْمِ يَوْمِ الشَّكِّ
3. باب: شک کے دن روزہ رکھنے کی کراہت کا بیان۔
حدیث نمبر: 686
حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ الْأَشَجُّ، حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الْأَحْمَرُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ قَيْسٍ الْمُلَائِيِّ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ صِلَةَ بْنِ زُفَرَ، قَالَ: كُنَّا عِنْدَ عَمَّارِ بْنِ يَاسِرٍ فَأُتِيَ بِشَاةٍ مَصْلِيَّةٍ، فَقَالَ: كُلُوا، فَتَنَحَّى بَعْضُ الْقَوْمِ، فَقَالَ: إِنِّي صَائِمٌ، فَقَالَ عَمَّارٌ:" مَنْ صَامَ الْيَوْمَ الَّذِي يَشُكُّ فِيهِ النَّاسُ، فَقَدْ عَصَى أَبَا الْقَاسِمِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، وَأَنَسٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عَمَّارٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَكْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَنْ بَعْدَهُمْ مِنَ التَّابِعِينَ، وَبِهِ يَقُولُ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ، وَمَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، وَالشَّافِعِيُّ، وَأَحْمَدُ، وَإِسْحَاق: كَرِهُوا أَنْ يَصُومَ الرَّجُلُ الْيَوْمَ الَّذِي يُشَكُّ فِيهِ، وَرَأَى أَكْثَرُهُمْ إِنْ صَامَهُ فَكَانَ مِنْ شَهْرِ رَمَضَانَ أَنْ يَقْضِيَ يَوْمًا مَكَانَهُ.
صلہ بن زفر کہتے ہیں کہ ہم عمار بن یاسر رضی الله عنہ کے پاس تھے کہ ایک بھنی ہوئی بکری لائی گئی تو انہوں نے کہا: کھاؤ۔ یہ سن کر ایک صاحب الگ گوشے میں ہو گئے اور کہا: میں روزے سے ہوں، اس پر عمار رضی الله عنہ نے کہا: جس نے کسی ایسے دن روزہ رکھا جس میں لوگوں کو شبہ ہو ۱؎ (کہ رمضان کا چاند ہوا ہے یا نہیں) اس نے ابوالقاسم صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کی۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- عمار رضی الله عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں ابوہریرہ اور انس رضی الله عنہما سے بھی احادیث آئی ہے،
۳- صحابہ کرام اور ان کے بعد تابعین میں سے اکثر اہل علم کا اسی پر عمل ہے، یہی سفیان ثوری، مالک بن انس، عبداللہ بن مبارک، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا قول ہے۔ ان لوگوں نے اس دن روزہ رکھنے کو مکروہ قرار دیا ہے جس میں شبہ ہو، (کہ رمضان کا چاند ہوا ہے یا نہیں) اور ان میں سے اکثر کا خیال ہے کہ اگر وہ اس دن روزہ رکھے اور وہ ماہ رمضان کا دن ہو تو وہ اس کے بدلے ایک دن کی قضاء کرے۔ [سنن ترمذي/كتاب الصيام عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 686]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «صحیح البخاری/الصیام 37 (2190)، سنن ابن ماجہ/الصیام 3 (1645)، (تحفة الأشراف: 10354)، سنن الدارمی/الصوم 1 (1724) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (1645)

4. باب مَا جَاءَ فِي إِحْصَاءِ هِلاَلِ شَعْبَانَ لِرَمَضَانَ
4. باب: رمضان کے لیے شعبان کے چاند کی گنتی کرنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 687
حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ حَجَّاجٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ: " أَحْصُوا هِلَالَ شَعْبَانَ لِرَمَضَانَ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُهُ مِثْلَ هَذَا إِلَّا مِنْ حَدِيثِ أَبِي مُعَاوِيَةَ، وَالصَّحِيحُ مَا رُوِيَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " لَا تَقَدَّمُوا شَهْرَ رَمَضَانَ بِيَوْمٍ وَلَا يَوْمَيْنِ ". وَهَكَذَا رُوِيَ عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، نَحْوَ حَدِيثِ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو اللَّيْثِيِّ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: رمضان کے لیے شعبان کے چاند کی گنتی کرو۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- ابوہریرہ رضی الله عنہ کی حدیث غریب ہے،
۲- ہم اسے اس طرح ابومعاویہ ہی کی روایت سے جانتے ہیں اور صحیح وہ روایت ہے جو (عبدہ بن سلیمان نے) بطریق «محمد بن عمرو عن أبي سلمة عن أبي هريرة عن النبي صلى الله عليه وسلم» روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا: رمضان کے استقبال میں ایک یا دو دن پہلے روزہ شروع نہ کر دو، اسی طرح بطریق: «يحيى بن أبي كثير عن أبي سلمة عن أبي هريرة عن النبي صلى الله عليه وسلم» مروی ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب الصيام عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 687]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 15123) (حسن)»

قال الشيخ الألباني: حسن، الصحيحة (565)

5. باب مَا جَاءَ أَنَّ الصَّوْمَ لِرُؤْيَةِ الْهِلاَلِ وَالإِفْطَارَ لَهُ
5. باب: چاند دیکھ کر روزہ رکھنے اور دیکھ کر روزہ بند کرنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 688
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ، عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا تَصُومُوا قَبْلَ رَمَضَانَ، صُومُوا لِرُؤْيَتِهِ، وَأَفْطِرُوا لِرُؤْيَتِهِ، فَإِنْ حَالَتْ دُونَهُ غَيَايَةٌ فَأَكْمِلُوا ثَلَاثِينَ يَوْمًا ". وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، وَأَبِي بَكْرَةَ، وَابْنِ عُمَرَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ عَبَّاسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رُوِيَ عَنْهُ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ.
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: رمضان سے پہلے ۱؎ روزہ نہ رکھو، چاند دیکھ کر روزہ رکھو، اور دیکھ کر ہی بند کرو، اور اگر بادل آڑے آ جائے تو مہینے کے تیس دن پورے کرو ۲؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- ابن عباس رضی الله عنہما کی حدیث حسن صحیح ہے اور کئی سندوں سے یہ حدیث روایت کی گئی ہے۔
۲- اس باب میں ابوہریرہ، ابوبکرہ اور ابن عمر رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔ [سنن ترمذي/كتاب الصيام عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 688]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «سنن ابی داود/ الصیام 7 (2327)، سنن النسائی/الصیام 12 (2126)، (تحفة الأشراف: 6105)، وأخرجہ موطا امام مالک/الصیام 1 (3)، و مسند احمد (1/221)، وسنن الدارمی/الصوم1 (1725) من غیر ہذا الطریق عنہ (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، صحيح أبي داود (2016)

6. باب مَا جَاءَ أَنَّ الشَّهْرَ يَكُونُ تِسْعًا وَعِشْرِينَ
6. باب: مہینہ ۲۹ دن کا بھی ہوتا ہے۔
حدیث نمبر: 689
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ زَكَرِيَّا بْنِ أَبِي زَائِدَةَ، أَخْبَرَنِي عِيسَى بْنُ دِينَارٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَمْرِو بْنِ الْحَارِثِ بْنِ أَبِي ضِرَارٍ، عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ، قَالَ: " مَا صُمْتُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تِسْعًا وَعِشْرِينَ أَكْثَرُ مِمَّا صُمْنَا ثَلَاثِينَ ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عُمَرَ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ، وَعَائِشَةَ، وَسَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ، وَابْنِ عَبَّاسٍ، وَابْنِ عُمَرَ، وَأَنَسٍ، وَجَابِرٍ، وَأُمِّ سَلَمَةَ، وَأَبِي بَكْرَةَ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " الشَّهْرُ يَكُونُ تِسْعًا وَعِشْرِينَ ".
عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تیس دن کے روزے رکھنے سے زیادہ ۲۹ دن کے روزے رکھے ہیں۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
اس باب میں عمر، ابوہریرہ، عائشہ، سعد بن ابی وقاص، ابن عباس، ابن عمر، انس، جابر، ام سلمہ اور ابوبکرہ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مہینہ ۲۹ دن کا (بھی) ہوتا ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب الصيام عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 689]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «سنن ابی داود/ الصوم 4 (2322)، (تحفة الأشراف: 9478)، مسند احمد (1/441) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (1658)

حدیث نمبر: 690
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ جَعْفَرٍ، عَنْ حُمَيْدٍ، عَنْ أَنَسٍ، أَنَّهُ قَالَ: آلَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ نِسَائِهِ شَهْرًا، فَأَقَامَ فِي مَشْرُبَةٍ تِسْعًا وَعِشْرِينَ يَوْمًا، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّكَ آلَيْتَ شَهْرًا، فَقَالَ: " الشَّهْرُ تِسْعٌ وَعِشْرُونَ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیویوں سے ایک ماہ کے لیے ایلاء کیا (یعنی اپنی بیویوں سے نہ ملنے کی قسم کھائی) پھر آپ نے اپنے بالاخانے میں ۲۹ دن قیام کیا (پھر آپ اپنی بیویوں کے پاس آئے) تو لوگوں نے کہا: اللہ کے رسول! آپ نے تو ایک مہینے کا ایلاء کیا تھا؟ آپ نے فرمایا: مہینہ ۲۹ دن کا (بھی) ہوتا ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب الصيام عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 690]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 583) (صحیح) وأخرجہ کل من: صحیح البخاری/الصلاة 18 (378)، والصوم 11 (1911)، والمظالم 25 (2469)، والنکاح 91 (5201)، والأیمان والنذور20 (6684)، سنن النسائی/الطلاق 32 (3486)، مسند احمد (3/200) من غیر ہذا الطریق عنہ»

قال الشيخ الألباني: صحيح

7. باب مَا جَاءَ فِي الصَّوْمِ بِالشَّهَادَةِ
7. باب: چاند دیکھنے کی گواہی پر روزہ رکھنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 691
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيل، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ أَبِي ثَوْرٍ، عَنْ سِمَاكٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: جَاءَ أَعْرَابِيٌّ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: إِنِّي رَأَيْتُ الْهِلَالَ، قَالَ: " أَتَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، أَتَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ " قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: يَا بِلَالُ " أَذِّنْ فِي النَّاسِ أَنْ يَصُومُوا غَدًا ". حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا حُسَيْنٌ الْجُعْفِيُّ، عَنْ زَائِدَةَ، عَنْ سِمَاكٍ نَحْوَهُ بِهَذَا الْإِسْنَادِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ عَبَّاسٍ فِيهِ اخْتِلَافٌ، وَرَوَى سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ وَغَيْرُهُ، عَنْ سِمَاكٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُرْسَلًا، وَأَكْثَرُ أَصْحَابِ سِمَاكٍ رَوَوْا عَنْ سِمَاكٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُرْسَلًا، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا الْحَدِيثِ عِنْدَ أَكْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ، قَالُوا: تُقْبَلُ شَهَادَةُ رَجُلٍ وَاحِدٍ فِي الصِّيَامِ، وَبِهِ يَقُولُ: ابْنُ الْمُبَارَكِ، وَالشَّافِعِيُّ، وَأَحْمَدُ، وَأَهْلُ الْكُوفَةِ، قَالَ إِسْحَاق: لَا يُصَامُ إِلَّا بِشَهَادَةِ رَجُلَيْنِ وَلَمْ يَخْتَلِفْ أَهْلُ الْعِلْمِ فِي الْإِفْطَارِ، أَنَّهُ لَا يُقْبَلُ فِيهِ إِلَّا شَهَادَةُ رَجُلَيْنِ.
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ ایک اعرابی نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر کہا: میں نے چاند دیکھا ہے، آپ نے فرمایا: کیا تم گواہی دیتے ہو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور کیا گواہی دیتے ہو کہ محمد اللہ کے رسول ہیں؟ اس نے کہا: ہاں دیتا ہوں، آپ نے فرمایا: بلال! لوگوں میں اعلان کر دو کہ وہ کل روزہ رکھیں۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- ابن عباس کی حدیث میں اختلاف ہے۔ سفیان ثوری وغیرہ نے بطریق: «سماك عن عكرمة عن النبي صلى الله عليه وسلم» مرسلاً روایت کی ہے۔ اور سماک کے اکثر شاگردوں نے بھی بطریق: «سماك عن عكرمة عن النبي صلى الله عليه وسلم» مرسلاً ہی روایت کی ہے،
۲- اکثر اہل علم کا عمل اسی حدیث پر ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ماہ رمضان کے روزوں کے سلسلے میں ایک آدمی کی گواہی قبول کی جائے گی۔ اور ابن مبارک، شافعی، احمد اور اہل کوفہ بھی اسی کے قائل ہیں،
۳- اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں کہ روزہ بغیر دو آدمیوں کی گواہی کے نہ رکھا جائے گا۔ لیکن روزہ بند کرنے کے سلسلے میں اہل علم میں کوئی اختلاف نہیں کہ اس میں دو آدمی کی گواہی قبول ہو گی۔ [سنن ترمذي/كتاب الصيام عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 691]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «سنن ابی داود/ الصیام 14 (2340)، سنن النسائی/الصوم 8 (2115)، سنن ابن ماجہ/الصیام 6 (1652)، سنن الدارمی/الصوم 6 (1724)، (تحفة الأشراف: 6104) (ضعیف) (عکرمہ سے سماک میں روایت میں بڑا اضطراب پایا جاتا ہے، نیز سماک کے اکثر تلامذہ نے اسے ”عن عکرمہ عن النبی صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ …مرسلا روایت کیا ہے)»

قال الشيخ الألباني: ضعيف، ابن ماجة (1652) // ضعيف سنن ابن ماجة برقم (364) ، الإرواء (907) ، ضعيف سنن النسائي (121 / 2112) ، ضعيف أبي داود (507 / 2340 و 508 / 2341) //


1    2    3    4    5    Next