انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ہم جب دوپہر میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز پڑھتے تو گرمی سے بچنے کے لیے اپنے کپڑوں پر سجدہ کرتے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں جابر بن عبداللہ اور ابن عباس رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔ [سنن ترمذي/أبواب السفر/حدیث: 584]
انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے نماز فجر جماعت سے پڑھی پھر بیٹھ کر اللہ کا ذکر کرتا رہا یہاں تک کہ سورج نکل گیا، پھر اس نے دو رکعتیں پڑھیں، تو اسے ایک حج اور ایک عمرے کا ثواب ملے گا“۔ وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پورا، پورا، پورا، یعنی حج و عمرے کا پورا ثواب“۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن غریب ہے، ۲- میں نے محمد بن اسماعیل بخاری سے (سند میں موجود راوی) ابوظلال کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا: وہ مقارب الحدیث ہیں، محمد بن اسماعیل بخاری کہتے ہیں کہ ان کا نام ہلال ہے۔ [سنن ترمذي/أبواب السفر/حدیث: 586]
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں (گردن موڑے بغیر) ترچھی نظر سے دائیں اور بائیں دیکھتے تھے اور اپنی گردن اپنی پیٹھ کے پیچھے نہیں پھیرتے تھے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث غریب ہے، ۲- وکیع نے اپنی روایت میں فضل بن موسیٰ کی مخالفت کی ہے ۱؎۔ [سنن ترمذي/أبواب السفر/حدیث: 587]
انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ مجھ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے میرے بیٹے! نماز میں ادھر ادھر (گردن موڑ کر) دیکھنے سے بچو، نماز میں گردن موڑ کر ادھر ادھر دیکھنا ہلاکت ہے، اگر دیکھنا ضروری ہی ٹھہرے تو نفل نماز میں دیکھو، نہ کہ فرض میں“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے۔ [سنن ترمذي/أبواب السفر/حدیث: 589]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 865) (ضعیف) (سند میں علی بن زید بن جدعان ضعیف راوی ہے)»
قال الشيخ الألباني: ضعيف التعليقات الجياد، التعليق الرغيب (1 / 191) ، المشكاة (997)
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نماز میں ادھر ادھر (گردن موڑ کر) دیکھنے کے بارے میں پوچھا تو آپ نے کہا: ”یہ تو اچک لینا ہے، شیطان آدمی کی نماز اچک لیتا ہے“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے۔ [سنن ترمذي/أبواب السفر/حدیث: 590]
علی اور معاذ بن جبل رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم میں سے کوئی نماز پڑھنے آئے اور امام جس حالت میں ہو تو وہ وہی کرے جو امام کر رہا ہو“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث غریب ہے، ہم کسی کو نہیں جانتے جس نے اسے مسند کیا ہو سوائے اس کے جو اس طریق سے مروی ہے، ۲- اسی پر اہل علم کا عمل ہے، یہ لوگ کہتے ہیں کہ جب آدمی آئے اور امام سجدے میں ہو تو وہ بھی سجدہ کرے، لیکن جب امام کے ساتھ اس کا رکوع چھوٹ گیا ہو تو اس کی رکعت کافی نہ ہو گی۔ عبداللہ بن مبارک نے بھی اسی کو پسند کیا ہے کہ امام کے ساتھ سجدہ کرے، اور بعض لوگوں سے نقل کیا کہ شاید وہ اس سجدے سے اپنا سر اٹھاتا نہیں کہ بخش دیا جاتا ہے۔ [سنن ترمذي/أبواب السفر/حدیث: 591]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 10306، 11345) (صحیح) (سند میں حجاج بن ارطاة کثیر الخطأ راوی ہیں، لیکن شواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح ہے)»
قال الشيخ الألباني: صحيح، صحيح أبي داود (522) ، الصحيحة (1188)
ابوقتادہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب نماز کی اقامت کہہ دی جائے تو تم اس وقت تک نہ کھڑے ہو جب تک کہ مجھے نکل کر آتے نہ دیکھ لو“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابوقتادہ رضی الله عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں انس رضی الله عنہ سے بھی روایت ہے، لیکن ان کی حدیث غیر محفوظ ہے، ۳- صحابہ کرام وغیرہم میں سے اہل علم کی ایک جماعت نے لوگوں کے کھڑے ہو کر امام کا انتظار کرنے کو مکروہ کہا ہے، ۴- بعض کہتے ہیں کہ جب امام مسجد میں ہو اور نماز کھڑی کر دی جائے تو وہ لوگ اس وقت کھڑے ہوں جب مؤذن «قد قامت الصلاة قد قامت الصلاة» کہے، ابن مبارک کا یہی قول ہے۔ [سنن ترمذي/أبواب السفر/حدیث: 592]
عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نماز پڑھ رہا تھا، اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم موجود تھے، ابوبکر اور عمر رضی الله عنہما (بھی) آپ کے ساتھ تھے، جب میں (قعدہ اخیرہ میں) بیٹھا تو پہلے میں نے اللہ کی تعریف کی پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجا، پھر اپنے لیے دعا کی، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مانگو، تمہیں دیا جائے گا، مانگ تمہیں دیا جائے گا“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں فضالہ بن عبید رضی الله عنہ سے روایت ہے، ۳- یہ حدیث احمد بن حنبل نے یحییٰ بن آدم سے مختصراً روایت کی ہے۔ [سنن ترمذي/أبواب السفر/حدیث: 593]