عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ کے نزدیک انصاف کرنے والے لوگ رحمان (اللہ) کے دائیں نور کے منبر پر ہوں گے“۱؎، یعنی وہ لوگ جو اپنے فیصلوں میں اپنے گھر والوں کے ساتھ اور ان لوگوں کے ساتھ جو ان کے تابع ہیں انصاف کرتے ہیں۔ مدد بن آدم کی روایت میں ہے: ”اللہ کے دونوں ہاتھ داہنے ہیں“۔ [سنن نسائي/كتاب آداب القضاة/حدیث: 5381]
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سات لوگ ہیں اللہ تعالیٰ انہیں قیامت کے دن (عرش کے) سائے میں رکھے گا، جس دن کہ اس کے سوا کسی کا سایہ نہ ہو گا: انصاف کرنے والا حاکم، وہ نوجوان جو اللہ تعالیٰ کی عبادت میں بڑھتا جائے، وہ شخص جس نے تنہائی میں اللہ تعالیٰ کو یاد کیا تو اس کی آنکھیں آنسوؤں سے بھر آئیں، وہ شخص جس کا دل مسجد میں لگا رہتا ہے، دو ایسے لوگ جو اللہ تعالیٰ کے لیے آپس میں دوست ہوں، ایسا شخص جسے رتبے والی خوبصورت عورت (اپنے ساتھ غلط کام کرنے کے لیے) بلائے تو وہ کہہ دے: مجھے اللہ تعالیٰ کا ڈر لگ رہا ہے، ایک ایسا شخص جو صدقہ کرے تو اس طرح چھپا کر کہ اس کے بائیں ہاتھ کو خبر نہ ہو کہ اس کے دائیں ہاتھ نے کیا کیا ہے؟“۔ [سنن نسائي/كتاب آداب القضاة/حدیث: 5382]
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب حاکم فیصلہ (کا ارادہ) کرے اور اجتہاد سے کام لے پھر وہ صحیح فیصلہ تک پہنچ جائے تو اس کے لیے دو اجر ہیں، اور اگر اجتہاد کرنے میں غلطی کر بیٹھے تو اس کے لیے ایک اجر ہے۔ [سنن نسائي/كتاب آداب القضاة/حدیث: 5383]
ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میرے پاس قبیلہ اشعر کے کچھ لوگوں نے آ کر کہا: ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے چلئے، ہمیں کچھ کام ہے، چنانچہ میں انہیں لے کر گیا، ان لوگوں نے کہا: اللہ کے رسول! ہم سے اپنا کوئی کام لیجئیے ۱؎ میں نے آپ سے ان کی اس بات کی معذرت چاہی اور بتایا کہ مجھے نہیں معلوم کہ ان کی غرض کیا تھی، چنانچہ آپ نے میری بات کا یقین کیا اور معذرت قبول فرما لی اور فرمایا: ہم اپنے کام (عہدے) میں ایسے لوگوں کو نہیں لگاتے جو ہم سے اس کا مطالبہ کرتے ہیں ۲؎۔ [سنن نسائي/كتاب آداب القضاة/حدیث: 5384]
اسید بن حضیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انصار کے ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر کہا: کیا آپ مجھے کام نہیں دیں گے جیسے فلاں کو دیا ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میرے بعد تم پاؤ گے کہ ترجیحات ۱؎ ہوں گی ایسے حالات میں تم صبر سے کام لینا یہاں تک کہ حوض پر تم مجھ سے ملو“۔ [سنن نسائي/كتاب آداب القضاة/حدیث: 5385]
عبدالرحمٰن بن سمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”منصب طلب مت کرو، اس لیے کہ اگر مانگے سے وہ تمہیں ملا تو تم اسی کے سپرد کر دئیے جاؤ گے ۱؎ اور اگر وہ تمہیں بن مانگے مل گیا تو تمہاری اس میں مدد ہو گی“۔ [سنن نسائي/كتاب آداب القضاة/حدیث: 5386]
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عنقریب تم لوگ منصب کی خواہش کرو گے، لیکن وہ باعث ندامت و حسرت ہو گی پس دودھ پلانے والی کتنی اچھی ہوتی ہے، اور دودھ چھڑانے والی کتنی بری ہوتی ہے، (اس لیے کہ ملتے وقت وہ بھلی لگتی ہے اور جاتے وقت بری لگتی ہے“)۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب آداب القضاة/حدیث: 5387]
عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ بنو تمیم کے کچھ سوار نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: قعقاع بن معبد کو سردار بنائیے، اور عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: اقرع بن حابس کو سردار بنائیے، پھر دونوں میں بحث و تکرار ہو گئی، یہاں تک کہ ان کی آواز بلند ہو گئی، تو اس سلسلے میں یہ حکم نازل ہوا ”اے لوگو! جو ایمان لائے ہو! اللہ اور اس کے رسول کے سامنے آگے مت بڑھو“(یعنی ان سے پہلے اپنی رائے مت پیش کرو) یہاں تک کہ یہ آیت اس مضمون پر ختم ہو گئی: ”اگر وہ لوگ تمہارے باہر نکلنے تک صبر کرتے تو ان کے حق میں بہتر ہوتا“۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب آداب القضاة/حدیث: 5388]
ہانی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور آپ نے لوگوں کو سنا کہ وہ ہانی کو ابوالحکم کی کنیت سے پکارتے تھے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بلایا اور ان سے فرمایا: ”حکم تو اللہ ہے اور حکم کرنا بھی اسی کا کام ہے“، وہ بولے: میری قوم کے لوگوں کا جب کسی چیز میں اختلاف ہوتا ہے تو وہ میرے پاس چلے آتے ہیں، میں ان کے درمیان فیصلے کرتا ہوں اور دونوں فریق رضامند ہو جاتے ہیں۔ آپ نے فرمایا: ”اس سے بہتر کیا ہو سکتا ہے، تمہارے کتنے لڑکے ہیں؟“ وہ بولے: شریح، عبداللہ اور مسلم، آپ نے فرمایا: ”ان میں بڑا کون ہے؟“ وہ بولے: شریح، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تو تم اب سے ابوشریح ہو“، پھر آپ نے ان کے لیے اور ان کے بیٹے کے لیے دعا کی۔ [سنن نسائي/كتاب آداب القضاة/حدیث: 5389]
ابوبکرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے ایک چیز کی وجہ سے روکے رکھا ۱؎ جو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی، جب کسریٰ ہلاک ہوا تو آپ نے فرمایا: ”انہوں نے کسے جانشین بنایا؟“ لوگوں نے کہا: اس کی بیٹی کو، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ قوم کبھی کامیاب نہیں ہو سکتی جس نے کسی عورت کو حکومت کے اختیارات دے دیے“۔ [سنن نسائي/كتاب آداب القضاة/حدیث: 5390]