أخبرنا عمرو بن يحيى بن الحارث قال حدثنا محبوب - يعني ابن موسى - قال أنبأنا أبو إسحاق - هو الفزاري - عن سفيان عن قيس بن مسلم قال سألت الحسن بن محمد عن قوله عز وجل { واعلموا أنما غنمتم من شىء فأن لله خمسه } قال هذا مفاتح كلام الله الدنيا والآخرة لله قال اختلفوا في هذين السهمين بعد وفاة رسول الله صلى الله عليه وسلم سهم الرسول وسهم ذي القربى فقال قائل سهم الرسول صلى الله عليه وسلم للخليفة من بعده وقال قائل سهم ذي القربى لقرابة الرسول صلى الله عليه وسلم وقال قائل سهم ذي القربى لقرابة الخليفة فاجتمع رأيهم على أن جعلوا هذين السهمين في الخيل والعدة في سبيل الله فكانا في ذلك خلافة أبي بكر وعمر .
قیس بن مسلم کہتے ہیں کہ میں نے حسن بن محمد سے آیت کریمہ: «واعلموا أنما غنمتم من شىء فأن لله خمسه» کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا: یہ تو اللہ سے کلام کی ابتداء ہے جیسے کہا جاتا ہے ”دنیا اور آخرت اللہ کے لیے ہے“، انہوں نے کہا: ان دونوں حصوں ”یعنی رسول اور ذی القربی کے حصہ“ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی موت کے بعد لوگوں میں اختلاف ہوا، تو کہنے والوں میں سے کسی نے کہا کہ رسول کا حصہ ان کے بعد خلیفہ کا ہو گا، ایک جماعت نے کہا کہ ذی القربی کا حصہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے رشتہ داروں کا ہو گا، دوسروں نے کہا: ذی القربی کا حصہ خلیفہ کے رشتہ داروں کا ہو گا۔ بالآخر ان کی رائیں اس پر متفق ہو گئیں کہ ان لوگوں نے ان دونوں حصوں کو گھوڑوں اور جہاد کی تیاری کے لیے طے کر دیا، یہ دونوں حصے ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما کی خلافت کے زمانہ میں اسی کام کے لیے رہے۔ [سنن نسائي/كتاب قسم الفىء/حدیث: 4148]
أخبرنا عمرو بن يحيى بن الحارث قال حدثنا محبوب قال أنبأنا أبو إسحاق عن موسى بن أبي عائشة قال سألت يحيى بن الجزار عن هذه الآية { واعلموا أنما غنمتم من شىء فأن لله خمسه وللرسول } قال قلت كم كان للنبي صلى الله عليه وسلم من الخمس قال خمس الخمس .
موسیٰ بن ابی عائشہ کہتے ہیں کہ میں نے یحییٰ بن جزار سے اس آیت: «واعلموا أنما غنمتم من شىء فأن لله خمسه وللرسول» کے بارے میں پوچھا، میں نے کہا: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا خمس میں سے کتنا حصہ ہوتا تھا: انہوں نے کہا: خمس کا خمس ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب قسم الفىء/حدیث: 4149]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: 19531) (صحیح الإسناد مرسل) (سند صحیح ہے، لیکن رسول اکرم صلی للہ علیہ وسلم سے روایت کرنے والے صحابی کا تذکرہ سند میں نہیں ہے)»
مطرف کہتے ہیں کہ عامر شعبی سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حصے اور آپ کے صفی کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا حصہ ایک مسلمان شخص کے حصے کی طرح ہوتا تھا۔ رہا «صفی»۱؎ کے حصے کا معاملہ تو آپ کو اختیار ہوتا کہ غلام، لونڈی اور گھوڑے وغیرہ میں سے جسے چاہیں لے لیں۔ [سنن نسائي/كتاب قسم الفىء/حدیث: 4150]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «سنن ابی داود/الخراج21(2991)، تحفة الأشراف: 18868) (صحیح الإسناد مرسل) (سند صحیح ہے، لیکن رسول اکرم صلی للہ علیہ وسلم سے روایت کرنے والے صحابی کا تذکرہ سند میں نہیں ہے)»
یزید بن شخیر کہتے ہیں کہ میں مطرف کے ساتھ کھلیان میں تھا کہ اچانک ایک آدمی چمڑے کا ایک ٹکڑا لے کر آیا اور بولا: میرے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ لکھا ہے، تو کیا تم میں سے کوئی اسے پڑھ سکتا ہے؟ انہوں نے کہا: میں پڑھوں گا، تو دیکھا کہ اس تحریر میں یہ تھا: ”اللہ کے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے بنی زہیر بن اقیش کے لیے: اگر یہ لوگ «لا إله إلا اللہ وأن محمدا رسول اللہ»”اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور محمد اللہ کے رسول ہیں“ کی گواہی دیں اور کفار و مشرکین کا ساتھ چھوڑ دیں اور اپنے مال غنیمت میں سے خمس، نبی کے حصے اور ان کے «صفی» کا اقرار کریں تو وہ اللہ اور اس کے رسول کی امان میں رہیں گے“۔ [سنن نسائي/كتاب قسم الفىء/حدیث: 4151]
مجاہد کہتے ہیں کہ(قرآن میں) جو خمس اللہ اور رسول کے لیے آیا ہے، وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے رشتہ داروں کے لیے تھا، وہ لوگ صدقہ و زکاۃ کے مال سے نہیں کھاتے تھے، چنانچہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے خمس کا خمس تھا اور رشتہ داروں کے خمس کا خمس اور اتنا ہی یتیموں کے لیے، اتنا ہی فقراء و مساکین کے لیے اور اتنا ہی مسافروں کے لیے۔ ابوعبدالرحمٰن (امام نسائی) کہتے ہیں: اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ”اور جان لو کہ جو کچھ تمہیں مال غنیمت سے ملے تو: اللہ کے لیے، رسول کے لیے، رشتہ داروں، یتیموں، مسکینوں اور مسافروں کے لیے اس کا خمس ہے، اللہ کے اس فرمان «واعلموا أنما غنمتم من شىء فأن لله خمسه وللرسول ولذي القربى واليتامى والمساكين وابن السبيل» میں اللہ کا قول «لِلَّهِ»”یعنی اللہ کے لیے ہے“ ابتدائے کلام کے طور پر ہے کیونکہ تمام چیزیں اللہ ہی کی ہیں اور مال فیٔ اور خمس کے سلسلے میں بات کی ابتداء بھی اس ”اپنے ذکر“ سے شاید اس لیے کی ہے کہ وہ سب سے اعلیٰ درجے کی کمائی (روزی) ہے، اور صدقے کی اپنی طرف نسبت نہیں کی، اس لیے کہ وہ لوگوں کا میل (کچیل) ہے۔ واللہ اعلم۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ غنیمت کا کچھ مال لے کر کعبے میں لگایا جائے گا اور یہی اللہ تعالیٰ کا حصہ ہے اور نبی کا حصہ امام کے لیے ہو گا جو اس سے گھوڑے اور ہتھیار خریدے گا، اور اسی میں سے وہ ایسے لوگوں کو دے گا جن کو وہ مسلمانوں کے لیے مفید سمجھے گا جیسے اہل حدیث، اہل علم، اہل فقہ، اور اہل قرآن کے لیے، اور ذی القربی کا حصہ بنو ہاشم اور بنو مطلب کا ہے، ان میں غنی (مالدار) اور فقیر سب برابر ہیں، ایک قول کے مطابق ان میں بھی غنی کے بجائے صرف فقیر کے لیے ہے جیسے یتیم، مسافر وغیرہ، دونوں اقوال میں مجھے یہی زیادہ صواب سے قریب معلوم ہوتا ہے، واللہ اعلم۔ اسی طرح چھوٹا، بڑا، مرد، عورت سب برابر ہوں گے، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ ان سب کے لیے رکھا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے انہی سب میں تقسیم کیا ہے، اور حدیث میں کہیں ایسا نہیں ہے کہ آپ نے ان میں سے ایک کو دوسرے پر ترجیح دی ہو، ہمیں اس سلسلے میں علماء کے درمیان کسی اختلاف کا بھی علم نہیں ہے کہ ایک شخص اگر کسی کی اولاد کے لیے ایک تہائی کی وصیت کرے تو وہ ان سب میں تقسیم ہو گا اور مرد و عورت اس سلسلے میں سب برابر ہوں گے جب وہ شمار کئے جائیں گے، اسی طرح سے ہر وہ چیز جو کسی کی اولاد کے لیے دی گئی ہو تو وہ ان میں برابر ہو گی، سوائے اس کے کہ اس چیز کا حکم کرنے والا اس کی وضاحت کر دے۔ «واللہ ولی التوفیق» ۔ اور ایک حصہ مسلم یتیموں کے لیے اور ایک حصہ مسلم مساکین کے لیے اور ایک حصہ مسلم مسافروں کے لیے ہے۔ ان میں سے کسی کو مسکین کا حصہ اور مسافر کا حصہ نہیں دیا جائے گا، اور اس سے کہا جائے گا کہ ان (دو) میں سے جو چاہے لے لے اور بقیہ چار خمس کو امام ان بالغ مسلمانوں میں تقسیم کرے گا جو جنگ میں شریک ہوئے۔ [سنن نسائي/كتاب قسم الفىء/حدیث: 4152]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: 19261) (ضعیف الإسناد مرسل) (خصیف اور شریک حافظے کے ضعیف راوی ہیں، نیز مجاہد نے نبی اکرم ﷺ سے روایت میں صحابی کا ذکر نہیں کیا)»
مالک بن اوس بن حدثان کہتے ہیں کہ عباس اور علی رضی اللہ عنہما جھگڑتے ہوئے عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آئے، عباس رضی اللہ عنہ نے کہا: میرے اور ان کے درمیان فیصلہ کیجئیے، لوگوں نے کہا: ان دونوں کے درمیان فیصلہ فرما دیجئیے، تو عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: میں ان کے درمیان فیصلہ نہیں کر سکتا، انہیں معلوم ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ”ہمارا ترکہ کسی کو نہیں ملتا، جو کچھ ہم چھوڑیں وہ صدقہ ہے“۔ راوی کہتے ہیں: زہری ۱؎ نے (آگے روایت کرتے ہوئے اس طرح) کہا: (عمر رضی اللہ عنہ نے کہا:) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (جب) اس مال کے ولی و نگراں رہے تو اس میں اپنے گھر والوں کے خرچ کے لیے لیتے اور باقی سارا اللہ کی راہ میں خرچ کرتے، پھر آپ کے بعد ابوبکر رضی اللہ عنہ متولی ہوئے اور ان کے بعد میں متولی ہوا، تو میں نے بھی اس میں وہی کیا جو ابوبکر رضی اللہ عنہ کرتے تھے، پھر یہ دونوں میرے پاس آئے اور مجھ سے مطالبہ کیا کہ اسے میں ان کے حوالے کر دوں کہ وہ اس میں اس طرح عمل کریں گے جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کرتے تھے اور جیسے ابوبکر رضی اللہ عنہ کرتے تھے اور جیسے تم کرتے ہو، چنانچہ میں نے اسے ان دونوں کو دے دیا اور اس پر ان سے اقرار لے لیا، پھر اب یہ میرے پاس آئے ہیں، یہ کہتے ہیں: میرے بھتیجے کی طرف سے میرا حصہ مجھے دلائیے ۲؎ اور وہ کہتے ہیں: مجھے میرا حصہ بیوی کی طرف سے دلائیے ۳؎، اگر انہیں منظور ہو کہ میں وہ مال ان کے سپرد کر دوں اس شرط پر کہ یہ دونوں اس میں اسی طرح عمل کریں گے جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا اور جیسے میں نے کیا تو میں ان کے حوالے کرتا ہوں، اور اگر انہیں (یہ شرط) منظور نہ ہو تو وہ گھر میں بیٹھیں ۴؎، پھر عمر رضی اللہ عنہ نے یہ آیات پڑھیں: «واعلموا أنما غنمتم من شىء فأن لله خمسه وللرسول ولذي القربى واليتامى والمساكين وابن السبيل»”جان لو جو کچھ تمہیں غنیمت میں ملے تو اس کا خمس اللہ کے لیے ہے، رسول کے لیے، ذی القربی، یتیموں، مسکینوں اور مسافروں کے لیے ہے“(الانفال: ۴۱)۔ اور یہ ان لوگوں کے لیے ہے «إنما الصدقات للفقراء والمساكين والعاملين عليها والمؤلفة قلوبهم وفي الرقاب والغارمين وفي سبيل اللہ»”صدقات فقراء، مساکین، زکاۃ کا کام کرنے والے لوگوں، مؤلفۃ القلوب، غلاموں، قرض داروں اور مسافروں کے لیے ہیں“(التوبہ: ۶۰)۔ اور یہ ان لوگوں کے لیے ہے ” «وما أفاء اللہ على رسوله منهم فما أوجفتم عليه من خيل ولا ركاب»”اور ان کی طرف سے جو اللہ اپنے رسول کو لوٹائے تو جس پر تم نے گھوڑے دوڑائے اور زین کسے“(الحشر: ۶)۔ زہری کہتے ہیں کہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے خاص ہے اور وہ عربیہ کے چند گاؤں ہیں جیسے فدک وغیرہ۔ اور اسی طرح «ما أفاء اللہ على رسوله من أهل القرى فلله وللرسول ولذي القربى واليتامى والمساكين وابن السبيل، و، للفقراء المهاجرين الذين أخرجوا من ديارهم وأموالهم، والذين تبوءوا الدار والإيمان من قبلهم، والذين جاءوا من بعدهم»”جو اللہ گاؤں والوں کی طرف سے اپنے رسول پر لوٹائے تو وہ اللہ کے لیے رسول کے لیے اور ذی القربی، یتیموں، مسکینوں، مسافروں اور ان فقراء مہاجرین لوگوں کے لیے ہے جو اپنے گھروں اور اپنے اموال سے نکال دیے گئے اور جنہوں نے الدار (مدینہ) کو اپنا جائے قیام بنایا اور ایمان لائے اس سے پہلے اور اس کے بعد“(الحشر: ۷-۱۰)، اس آیت میں سبھی لوگ آ گئے ہیں، اور کوئی مسلمان ایسا نہیں جس کا اس مال میں حق نہ ہو، یا یہ کہا: حصہ نہ ہو، سوائے چند لوگوں کے جنہیں تم اپنا غلام بناتے ہو اور اگر میں زندہ رہا تو ان شاءاللہ ہر ایک کو اس کا حق۔ یا کہا: اس کا نصیب مل کر رہے گا۔ [سنن نسائي/كتاب قسم الفىء/حدیث: 4153]