عمرو بن حارث رضی الله عنہ کہتے ہیں(رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انتقال فرما گئے) اور انتقال کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سوائے اپنے سفید خچر کے جس پر سوار ہوا کرتے تھے اور اپنے ہتھیار کے اور زمین کے جسے اللہ کے راستہ میں دے دیا تھا کچھ نہ چھوڑا تھا نہ دینار نہ درہم نہ غلام نہ لونڈی، (مصنف) کہتے ہیں (میرے استاذ) قتیبہ نے دوسری بار یہ بتایا کہ زمین کو صدقہ کر دیا تھا۔ [سنن نسائي/كتاب الاحباس/حدیث: 3624]
عمرو بن حارث کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سوائے اپنے سفید خچر، ہتھیار اور زمین کے جسے آپ صدقہ کر گئے تھے کچھ چھوڑ کر نہ گئے تھے۔ [سنن نسائي/كتاب الاحباس/حدیث: 3625]
عمرو بن حارث رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا (آپ نے اپنے انتقال کے موقع پر) اپنے «شہباء» خچر، ہتھیار اور اپنی زمین کے علاوہ جسے آپ صدقہ کر گئے تھے کچھ نہ چھوڑ کر گئے۔ [سنن نسائي/كتاب الاحباس/حدیث: 3626]
عمر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ مجھے خیبر میں (حصہ میں) ایک زمین ملی، میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور آپ سے کہا: مجھے بہت اچھی زمین ملی ہے، مجھے اس سے زیادہ محبوب و پسندیدہ مال (کبھی) نہ ملا تھا، آپ نے فرمایا: ”اگر چاہو تو صدقہ کر سکتے ہو تو انہوں نے اسے بایں طور صدقہ کر دیا کہ وہ زمین نہ تو بیچی جائے گی اور نہ ہی کسی کو ہبہ کی جائے گی اور اس کی پیداوار فقیروں، محتاجوں اور قرابت داروں میں، گردن چھڑانے (یعنی غلام آزاد کرانے میں)، مہمانوں کو کھلانے پلانے اور مسافروں کی مدد و امداد میں صرف کی جائے گی اور کچھ حرج نہیں اگر اس کا ولی، نگراں، محافظ و مہتمم اس میں سے کھائے مگر شرط یہ ہے کہ وہ معروف طریقے (انصاف و اعتدال) سے کھائے (کھانے کے نام پر لے کر) مالدار بننے کا خواہشمند نہ ہو اور دوسروں (دوستوں) کو کھلائے“۔ [سنن نسائي/كتاب الاحباس/حدیث: 3627]
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت کرتے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ عمر رضی اللہ عنہ کو خیبر میں (بعد فتح خیبر تقسیم غنیمت میں) ایک زمین ملی تو وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہا کہ مجھے ایسی زمین ملی ہے جس سے بہتر مال میرے نزدیک مجھے کبھی نہیں ملا، تو آپ ہمیں بتائیں میں اسے کیا کروں، آپ نے فرمایا: ”اگر تم چاہو تو اصل زمین کو اپنے پاس رکھو اور اس سے حاصل پیداوار کو تقسیم (خیرات) کر دو، تو انہوں نے اس زمین کو بایں طور صدقہ کر دیا کہ وہ نہ بیچی جائے گی نہ وہ بخشش میں دی جائے گی اور نہ وہ ورثہ میں دی جائے گی، اس کی آمدنی تقسیم ہو گی فقراء میں، جملہ رشتہ ناطہٰ والوں میں، غلام آزاد کرنے میں، اللہ کی راہ (جہاد) میں، مہمان نوازی میں، مسافروں کی امداد میں، اس زمین کے متولی (نگران و مہتمم) کے اس کی آمدنی میں سے معروف طریقے سے کھانے پینے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے اور نہ ہی دوست واحباب کو کھلانے میں کوئی حرج ہے لیکن (اس اجازت سے فائدہ اٹھا کر) مالدار بننے کی کوشش نہ کرے۔ [سنن نسائي/كتاب الاحباس/حدیث: 3629]
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ عمر کو خیبر میں ایک زمین ملی تو وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اس کے بارے میں صلاح و مشورہ کرنے کے لیے آئے اور کہا: مجھے ایک ایسی بڑی زمین ملی ہے جس سے میری نظروں میں زیادہ قیمتی مال مجھے کبھی نہیں ملا تو آپ مجھے اس زمین کے بارے میں کیا حکم و مشورہ دیتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر چاہو تو اصل زمین کو روک کر وقف کر دو اور اس کی آمدنی کو صدقہ کر دو“۔ تو انہوں نے اس طرح صدقہ کر دیا کہ وہ بیچی نہ جا سکے گی اور نہ ھبہ کی جا سکے گی اور اس کی پیداوار اور آمدنی کو صدقہ کر دیا فقراء، قرابت داروں، غلاموں کو آزاد کرنے، اللہ کی راہ، مسافروں (کی امداد) میں اور مہمانوں (کے تواضع) میں۔ اور اس کے ولی (نگراں و مہتمم) کے اس میں سے کھانے اور اپنے دوست کو کھلانے میں کوئی حرج و مضائقہ نہیں ہے لیکن (اس کے ذریعہ سے) مالدار بننے کی کوشش نہ ہو، حدیث کے الفاظ راوی حدیث اسماعیل مسعود کے ہیں۔ [سنن نسائي/كتاب الاحباس/حدیث: 3630]
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے، (وہ کہتے ہیں:) کہ عمر رضی اللہ عنہ کو خیبر میں ایک زمین ملی تو وہ اس زمین کے بارے میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس مشورہ کرنے آئے، آپ نے فرمایا: ”اگر چاہو تو اصل کو روک کر وقف کر دو اور اس کی پیداوار کو صدقہ کر دو“۔ تو انہوں نے اس کی اصل کو اس طرح روک کر وقف کیا کہ یہ زمین نہ تو بیچی جا سکے گی اور نہ ہی کسی کو ہبہ کی جا سکے گی اور نہ ہی کسی کو وراثت میں دی جا سکے گی۔ اور اس کو صدقہ کیا اس طرح کہ اس سے فقراء، قرابت دار فائدہ اٹھائیں گے، اس کی آمدنی سے غلاموں کو آزاد کرانے میں مدد دی جائے گی اور مساکین پر خرچ کی جائے گی، مسافر کی مدد اور مہمان کی تواضع کی جائے گی اور جو اس زمین کا ولی (سر پرست و نگراں) ہو گا وہ بھی اس کی آمدنی سے معروف طریقے سے کھا سکے گا اور اپنے دوست کو کھلا سکے گا، لیکن (اپنے کھانے پینے کے نام پہ اس میں سے لے کر) مالدار اور سیٹھ نہ بن سکے گا۔ [سنن نسائي/كتاب الاحباس/حدیث: 3631]
انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ جب آیت «لن تنالوا البر حتى تنفقوا مما تحبون»”تم «بِر»(بھلائی) کو حاصل نہیں کر سکتے جب تک کہ تم اس میں سے خرچ نہ کرو جسے تم پسند کرتے ہو“(آل عمران: ۹۲) نازل ہوئی تو ابوطلحہ نے کہا: اللہ تعالیٰ ہم سے ہمارے اچھے مال میں سے مانگتا ہے، تو اللہ کے رسول! میں آپ کو گواہ بنا کر کہتا ہوں کہ میں نے اپنی زمین اللہ کی راہ میں وقف کی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس وقف کو اپنے قرابت داروں: حسان بن ثابت اور ابی بن کعب کے لیے کر دو“(کہ وہ لوگ اس زمین کو اپنے تصرف میں لائیں اور فائدہ اٹھائیں)۔ [سنن نسائي/كتاب الاحباس/حدیث: 3632]
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ عمر رضی اللہ عنہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: میرے پاس خیبر میں جو سو حصے ہیں اس سے زیادہ بہتر اور پسندیدہ مال مجھے کبھی بھی نہیں ملا، میں نے اسے صدقہ کر دینے کا ارادہ کیا ہے۔ آپ نے فرمایا: ”اصل روک لو اور اس کا پھل (پیداوار) تقسیم کر دو“۔ [سنن نسائي/كتاب الاحباس/حدیث: 3633]