انس بن مالک رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے انہیں یہ لکھ کر دیا کہ صدقہ (زکاۃ) کے یہ وہ فرائض ہیں جنہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں پر فرض ٹھہرائے ہیں جس کا اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو حکم دیا ہے، تو جس مسلمان سے اس کے مطابق زکاۃ طلب کی جائے تو وہ اسے دے، اور جس سے اس سے زیادہ مانگا جائے تو وہ اسے نہ دے۔ پچیس اونٹوں سے کم میں ہر پانچ اونٹ میں ایک بکری ہے۔ اور جب پچیس اونٹ ہو جائیں تو اس میں پنتیس اونٹوں تک ایک برس کی اونٹنی ہے، اگر ایک برس کی اونٹنی نہ ہو تو دو برس کا اونٹ (نر) ہے۔ اور جب چھتیس اونٹ ہو جائیں تو چھتیس سے پینتالیس تک دو برس کی اونٹنی ہے۔ اور جب چھیالیس اونٹ ہو جائیں تو اس میں ساٹھ اونٹ تک تین برس کی اونٹنی ہے، جو نر کودانے کے لائق ہو گئی ہو، اور جب اکسٹھ اونٹ ہو جائیں تو اس میں پچہتر اونٹ تک چار برس کی اونٹنی ہے، اور جب چھہتر اونٹ ہو جائیں تو اس میں نوے تک میں دو دو برس کی دو اونٹنیاں ہیں، اور جب اکیانوے ہو جائیں تو ایک سو بیس تک میں تین تین برس کی دو اونٹنیاں ہیں جو نر کودانے کے قابل ہو گئی ہوں، اور جب ایک سو بیس سے زیادہ ہو گئی ہوں تو ہر چالیس میں دو برس کی ایک اونٹنی ہے، اور ہر پچاس میں تین برس کی ایک اونٹنی ہے۔ اگر اونٹوں کی عمروں میں اختلاف ہو ۱؎(مثلاً) جس شخص پر چار برس کی اونٹنی کی زکاۃ ہو اور اس کے پاس چار برس کی اونٹنی نہ ہو تین برس کی اونٹنی ہو تو اس سے تین برس کی اونٹنی ہی قبول کر لی جائے گی، اور وہ اس کے ساتھ میں دو بکریاں بھی دیدے۔ اگر وہ اسے میسر ہوں ورنہ بیس درہم دے۔ اور جسے زکاۃ میں تین برس کی اونٹنی دینی ہو۔ اور اس کے پاس چار برس کی اونٹنی ہو تو اس سے وہی قبول کر لی جائے گی، اور عامل صدقہ اسے بیس درہم دے یا دو بکریاں واپس دیدے، اور جسے تین برس کی اونٹنی دینی ہو اور یہ اس کے پاس نہ ہو اور اس کے پاس دو برس کی اونٹنی ہو تو وہی اس سے قبول کر لی جائے اور اس کے ساتھ دو بکریاں دے اگر میسر ہوں یا بیس درہم دے، اور جسے زکاۃ میں دو سال کی اونٹنی دینی ہو اور اس کے پاس صرف تین سال کی اونٹنی ہو تو وہی اس سے قبول کر لی جائے گی اور عامل زکاۃ اسے بیس درہم یا دو بکریاں واپس دے، اور جسے دو برس کی اونٹنی دینی ہو، اور اس کے پاس دو برس کی اونٹنی نہ ہو صرف ایک برس کی اونٹنی ہو تو وہی اس سے قبول کر لی جائے اور دو بکریاں دے اگر بکریاں اسے میسر ہوں بیس درہم دے۔ اور جسے ایک برس کی اونٹنی دینی ہو اور اس کے پاس ایک برس کی اونٹنی نہ ہو۔ دو برس کا (نر) کا اونٹ ہو، تو وہی اس سے قبول کر لیا جائے۔ اس کے ساتھ کوئی اور چیز لی نہ جائے، اور جس کے پاس صرف چار اونٹ ہوں تو ان میں زکاۃ نہیں ہے الا یہ کہ ان کا مالک اپنی خوشی سے کچھ دینا چاہے تو دے سکتا ہے، اور جنگل میں چرنے والی بکریوں میں جب چالیس ہوں تو ایک سو بیس تک میں ایک بکری زکاۃ ہے، اور ایک سو بیس سے جو ایک بکری بھی بڑھ جائے تو دو سو بکریوں تک میں دو بکریاں ہیں۔ اور دو سو سے ایک بکری بھی بڑھ جائے تو دو سو سے تین سو تک میں تین بکریاں ہیں، اور جب تین سو سے بھی بڑھ جائیں تو پھر ہر سو میں ایک بکری زکاۃ ہے۔ زکاۃ میں بوڑھے کانے اور عیب دار جانور نہیں لیے جائیں گے، اور نہ نر جانور لیا جائے گا الا یہ کہ صدقہ وصول کرنے والا کسی ضرورت و مصلحت سے لینا چاہے۔ زکاۃ کے ڈر سے دو جدا مال یکجا نہ کئے جائیں، اور نہ یکجا مال کو جدا جدا کیا جائے۔ اور جب آدمی کی جنگل میں چرنے والی بکریاں چالیس سے ایک بھی کم ہوں تو ان میں کوئی زکاۃ نہیں ہے، ہاں ان کا مالک اپنی خوشی سے کچھ دینا چاہے تو دے سکتا ہے، چاندی میں چالیسواں حصہ زکاۃ ہے اور اگر مال ایک سو نوے درہم ہی ہو تو ان میں کوئی زکاۃ نہیں ہے۔ ہاں مالک اپنی خوشی سے کچھ دینا چاہے تو دے سکتا ہے۔ [سنن نسائي/كتاب الزكاة/حدیث: 2457]
ابوذر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص اونٹ گائے اور بکریاں رکھتا ہو اور ان کی زکاۃ نہ دے تو وہ دنیا میں جیسے تھے اس سے بڑے اور موٹے تازے ہو کر آئیں گے، اور وہ اسے اپنی سینگوں سے ماریں گے، اور اپنی کھروں سے روندیں گے، جب آخری جانور مار چکے گا تو پھر پہلا جانور لوٹا دیا جائے گا، اور یہ سلسلہ جاری رہے گا یہاں تک کہ لوگوں کے درمیان فیصلہ کر دیا جائے“۔ [سنن نسائي/كتاب الزكاة/حدیث: 2458]
12. باب: الگ الگ مال کو ملانے اور ملے ہوئے مال کو الگ الگ کرنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 2459
أخبرنا هناد بن السري عن هشيم عن هلال بن خباب عن ميسرة أبي صالح عن سويد بن غفلة قال: أتانا مصدق النبي صلى الله عليه وسلم فأتيته فجلست إليه فسمعته يقول إن في عهدي أن لا نأخذ راضع لبن ولا نجمع بين متفرق ولا نفرق بين مجتمع فأتاه رجل بناقة كوماء فقال خذها فأبى.
سوید بن غفلہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا محصل (زکاۃ) ہمارے پاس آیا، میں آ کر اس کے پاس بیٹھا تو میں نے اسے کہتے ہوئے سنا کہ میرے عہد و قرار میں یہ بات شامل ہے کہ ہم دودھ پلانے والے جانور نہ لیں۔ اور نہ الگ الگ مال کو یکجا کریں، اور نہ یکجا مال کو الگ الگ کریں۔ پھر ان کے پاس ایک آدمی اونچی کوہان کی ایک اونٹنی لے کر آیا، اور کہنے لگا: اسے لے لو، تو اس نے انکار کیا ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب الزكاة/حدیث: 2459]
وائل بن حجر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو زکاۃ کی وصولی پر بھیجا، وہ ایک شخص کے پاس آیا، اس نے اسے اونٹ کا ایک دبلا بچہ دیا۔ تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہم نے اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے محصل زکاۃ (صدقہ وصول کرنے والے) کو بھیجا، فلاں شخص نے اسے ایک دبلا کمزور، دودھ چھوڑا ہوا بچہ دیا۔ اے اللہ! تو اس میں اور اس کے اونٹوں میں برکت نہ دے“، یہ بات اس آدمی کو معلوم ہوئی تو وہ ایک اچھی اونٹنی لے کر آیا، اور کہنے لگا: میں اللہ عزوجل سے توبہ کرتا ہوں اور اللہ کے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اپنی اطاعت کا اظہار کرتا ہوں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے اللہ! تو اس میں اور اس کے اونٹوں میں برکت فرما“۔ [سنن نسائي/كتاب الزكاة/حدیث: 2460]
عبداللہ بن ابی اوفی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جب کوئی قوم اپنا صدقہ لے کر آتی تو آپ فرماتے: ”اے اللہ! فلاں کے آل (اولاد) پر رحمت بھیج“(چنانچہ) جب میرے والد اپنا صدقہ لے کر آپ کے پاس آئے تو آپ نے فرمایا: ”اے اللہ! آل ابی اوفی پر رحمت بھیج“۔ [سنن نسائي/كتاب الزكاة/حدیث: 2461]
جریر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کچھ دیہات کے لوگ آئے، اور انہوں آپ سے عرض کیا: آپ کے بھیجے ہوئے کچھ محصل زکاۃ ہمارے پاس آتے ہیں جو ہم پر ظلم کرتے ہیں، تو آپ نے فرمایا: ”اپنے زکاۃ وصول کرنے والوں کو راضی و مطمئن کرو“، انہوں نے عرض کیا: اگرچہ وہ ظلم کریں۔ آپ نے فرمایا: ”اپنے زکاۃ وصول کرنے والوں کو راضی کرو“، انہوں نے پھر عرض کیا: اگرچہ وہ ظلم کریں؟ آپ نے فرمایا: ”اپنے زکاۃ وصول کرنے والوں کو راضی کرو“۔ جریر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: جب سے میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بات سنی اسی وقت سے کوئی محصل زکاۃ میرے پاس سے راضی ہوئے بغیر نہیں گیا۔ [سنن نسائي/كتاب الزكاة/حدیث: 2462]
جریر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب صدقہ وصول کرنے والا تمہارے پاس آئے تو وہ اس حال میں لوٹے کہ وہ تم سے راضی ہو“۔ [سنن نسائي/كتاب الزكاة/حدیث: 2463]
مسلم بن ثفنہ کہتے ہیں کہ ابن علقمہ نے میرے والد کو اپنی قوم کی عرافت (نگرانی) پر مقرر کیا، اور انہیں اس بات کا حکم بھی دیا کہ وہ ان سے زکاۃ وصول کر کے لائیں۔ تو میرے والد نے مجھے ان کے کچھ لوگوں کے پاس بھیجا کہ میں ان سے زکاۃ لے کر آ جاؤں۔ تو میں (گھر سے) نکلا یہاں تک کہ ایک بوڑھے بزرگ کے پاس پہنچا انہیں «سعر» کہا جاتا تھا۔ تو میں نے ان سے کہا کہ میرے والد نے مجھے آپ کے پاس آپ کی بکریوں کی زکاۃ لانے کے لیے بھیجا ہے۔ انہوں نے کہا: بھتیجے! تم کس طرح کی زکاۃ لیتے ہو؟ میں نے کہا: ہم چنتے اور چھانٹتے ہیں یہاں تک کہ ہم بکریوں کے تھنوں کو ناپتے و ٹٹولتے ہیں (یعنی عمدہ مال ڈھونڈ کر لیتے ہیں)۔ انہوں نے کہا: بھتیجے! میں تمہیں ایک حدیث سناتا ہوں۔ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں انہیں گھاٹیوں میں سے کسی ایک گھاٹی میں اپنی بکریوں کے ساتھ تھا، میرے پاس ایک اونٹ پر سوار دو شخص آئے، اور انہوں نے کہا کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرستادہ ہیں۔ ہم آپ کے پاس آئے ہیں کہ آپ ہمیں اپنی بکریوں کی زکاۃ ادا کریں۔ میں نے پوچھا: میرے اوپر ان بکریوں میں کتنی زکاۃ ہے؟ تو ان دونوں نے کہا: ایک بکری، میں نے دودھ اور چربی سے بھری ایک ایک موٹی تازی بکری کا قصد کیا جس کی جگہ مجھے معلوم تھی۔ میں اسے (ریوڑ میں سے) نکال کر ان کے پاس لایا تو انہوں نے کہا: «شافع» ہے ( «شافع» گابھن بکری کو کہتے ہیں) اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں گابھن جانور لینے سے روکا ہے۔ پھر میں نے ایک اور بکری لا کر پیش کرنے کا ارادہ کیا جو اس سے کمتر تھی جس نے ابھی کوئی بچہ نہیں جنا تھا لیکن حمل کے قابل ہو گئی تھی۔ میں نے اسے (گلّے سے) نکال کر ان دونوں کو پیش کیا، انہوں نے کہا: ہاں یہ ہمیں قبول ہے۔ پھر ہم نے اسے اٹھا کر انہیں پکڑا دیا۔ انہوں نے اسے اپنے ساتھ اونٹ پر لاد لیا، پھر لے کر چلے گئے۔ [سنن نسائي/كتاب الزكاة/حدیث: 2464]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «سنن ابی داود/الزکاة4 (1582)، (تحفة الأشراف: 15579)، مسند احمد (3/414، 415) (ضعیف) (اس کے راوی ’’مسلم بن ثفنہ، یا شعبہ‘‘ لین الحدیث ہیں)»
مسلم بن ثفنہ کا بیان ہے کہ ابن علقمہ نے ان کے والد کو اپنی قوم سے زکاۃ وصول کرنے کے کام پر لگایا، اور پوری حدیث بیان کی۔ [سنن نسائي/كتاب الزكاة/حدیث: 2465]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «انظر ما قبلہ (ضعیف) (دیکھئے پچھلی روایت پر کلام)»
ابوہریرہ رضی الله عنہ بیان کرتے ہیں کہ عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زکاۃ کا حکم کیا۔ تو آپ سے کہا گیا: ابن جمیل، خالد بن ولید، اور عباس بن عبدالمطلب (رضی اللہ عنہم) نے (زکاۃ) نہیں دی ہے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ابن جمیل زکاۃ کا انکار اس وجہ سے کرتا ہے کہ وہ محتاج تھا تو اللہ تعالیٰ نے اسے مالدار بنا دیا۔ اور رہے خالد بن ولید تو تم لوگ خالد پر زیادتی کر رہے ہو، انہوں نے اپنی زرہیں اور اسباب اللہ کی راہ میں وقف کر دی ہیں، اور رہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا عباس بن عبدالمطلب، تو یہ زکاۃ تو ان پر ہے ہی۔ مزید اتنا اور بھی دیں گے“۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب الزكاة/حدیث: 2466]