ابو سعید خدری رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پانچ وسق سے کم غلے میں زکاۃ نہیں ہے، اور پانچ اونٹ سے کم میں زکاۃ نہیں ہے اور پانچ اوقیہ سے کم چاندی میں زکاۃ نہیں ہے۔ [سنن نسائي/كتاب الزكاة/حدیث: 2447]
ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پانچ اونٹ سے کم میں زکاۃ نہیں ہے، اور پانچ اوقیہ سے کم چاندی میں زکاۃ نہیں ہے، اور پانچ وسق سے کم غلے میں زکاۃ نہیں ہے“۔ [سنن نسائي/كتاب الزكاة/حدیث: 2448]
انس بن مالک رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے انہیں (عاملین صدقہ کو) یہ لکھا کہ یہ صدقہ کے وہ فرائض ہیں جنہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں پر فرض ٹھہرائے ہیں، جن کا اللہ عزوجل نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا ہے، تو جس مسلمان سے اس کے مطابق زکاۃ طلب کی جائے تو وہ دے، اور جس سے اس سے زیادہ مانگا جائے تو وہ نہ دے: پچیس اونٹوں سے کم میں ہر پانچ اونٹ میں ایک بکری ہے، اور جب پچیس اونٹ ہو جائیں تو اس میں پینتیس اونٹوں تک ایک برس کی اونٹنی ہے، اگر ایک برس کی اونٹنی نہ ہو تو دو برس کا اونٹ (نر) ہے، اور جب چھتیس اونٹ ہو جائیں تو چھتیس سے پینتالیس تک دو برس کی اونٹنی ہے، اور جب چھیالیس اونٹ ہو جائیں تو چھیالیس سے ساٹھ اونٹ تک میں تین برس کی اونٹنی (یعنی جو ان اونٹنی جو نر کودانے کے لائق ہو گئی ہو) ہے، اور جب اکسٹھ اونٹ ہو جائیں تو اکسٹھ سے پچہتر اونٹوں تک میں چار برس کی اونٹنی ہے، اور جب چھہتر اونٹ ہو جائیں تو چھہتر سے نوے اونٹوں تک میں دو دو برس کی دو اونٹنیاں ہیں، اور جب اکیانوے ہو جائیں تو ایک سو بیس اونٹوں تک میں تین تین برس کی دو اونٹنیاں ہیں جو نر کے کودانے کے قابل ہو گئی ہوں۔ اور جب ایک سو بیس سے زیادہ ہو گئی ہوں تو ہر چالیس اونٹ میں دو برس کی ایک اونٹنی۔ اور ہر پچاس اونٹ میں تین برس کی ایک اونٹنی ہے، اگر اونٹوں کی عمروں میں اختلاف ہو (یعنی زکاۃ کے لائق اونٹ نہ ہو، اس سے بڑا یا چھوٹا ہو) مثلاً جس شخص پر چار برس کی اونٹنی لازم ہو اور اس کے پاس چار برس کی اونٹنی نہ ہو، تین برس کی اونٹنی ہو۔ تو تین برس کی اونٹنی ہی اس سے قبول کر لی جائے گی اور وہ ساتھ میں دو بکریاں بھی دے۔ اگر اسے بکریاں دینے میں آسانی و سہولت ہو، اور اگر دو بکریاں نہ دے سکتا ہو تو بیس درہم دے۔ اور جس شخص کو تین برس کی اونٹنی دینی پڑ رہی ہو، اور اس کے پاس تین برس کی اونٹنی نہ ہو، چار برس کی اونٹنی ہو تو چار برس کی اونٹنی ہی قبول کر لی جائے گی۔ اور عامل صدقہ (یعنی زکاۃ وصول کرنے والا) اسے بیس درہم واپس کرے گا۔ یا اسے بکریاں دینے میں آسانی ہو تو دو بکریاں دے۔ اور جس کو تین برس کی اونٹنی دینی ہو اور تین برس کی اونٹنی اس کے پاس نہ ہو اس کے پاس دو برس کی اونٹنی ہو تو وہ اس سے قبول کر لی جائے، اور وہ اس کے ساتھ دو بکریاں اور دے، اگر یہ اس کے لیے آسان ہو، یا بیس درہم دے، اور جس کو دو برس کی اونٹنی دینی ہو اور وہ اس کے پاس نہ ہو تین برس کی اونٹنی ہو تو وہ اس سے قبول کر لی جائے، اور عامل صدقہ اسے بیس درہم یا دو بکریاں واپس دے، اور جسے دو سال کی اونٹنی زکاۃ میں دینی ہو، اور دو سال کی اونٹنی اس کے پاس نہ ہو ایک سال کی اونٹنی ہو تو وہی اس سے قبول کر لی جائے، اور اس کے ساتھ وہ دو بکریاں دے اگر یہ اس کے لیے آسان ہو، یا بیس درہم دے، اور جس کے اوپر ایک برس کی اونٹنی دینی لازم ہو، اور اس کے پاس ایک برس کی اونٹنی نہ ہو۔ دو برس کا (نر) اونٹ ہو، تو دو برس کا اونٹ قبول کر لیا جائے۔ (اس کے ساتھ کچھ مزید لینا دینا نہیں ہو گا) اور جس کے پاس صرف چار اونٹ ہوں تو ان میں کوئی زکاۃ نہیں ہے سوائے اس کے کہ ان کا مالک اپنی خوشی سے کچھ دینا چاہے تو دے سکتا ہے، اور جنگل میں چرائی جانے والی بکریاں جب چالیس ہوں تو ان میں ایک سو بیس بکریوں تک میں ایک بکری زکاۃ ہے، اور ایک سو بیس سے جو ایک بکری بھی بڑھ جائے تو دو سو بکریوں تک میں دو بکریاں ہیں۔ اور دو سو سے ایک بکری بھی بڑھ جائے تو دو سو سے تین سو تک میں تین بکریاں ہیں اور جب تین سو سے بھی بڑھ جائیں تو پھر ہر ایک سو میں ایک بکری زکاۃ ہے۔ زکاۃ میں کوئی بوڑھا، کانا اور عیب دار جانور نہیں لیا جائے گا، اور نہ بکریوں کا نر جانور لیا جائے گا مگر یہ کہ صدقہ وصول کرنے والا کوئی ضرورت و مصلحت سے مجھے تو لے سکتا ہے، زکاۃ کے ڈر سے دو جدا مالوں کو یکجا نہیں کیا جا سکتا ۱؎ اور نہ یکجا مال کو جدا جدا ۲؎ اور جب آدمی کی چرائی جانے والی بکریاں چالیس سے ایک بھی کم ہوں تو ان میں کوئی زکاۃ نہیں ہے۔ ہاں ان کا مالک اپنی خوشی سے کچھ دینا چاہے تودے سکتا ہے، اور چاندی میں چالیسواں حصہ زکاۃ ہے، اور اگر ایک سو نوے درہم ہو تو اس میں کوئی زکاۃ نہیں۔ ہاں مالک اپنی خوشی سے کچھ دینا چاہے تو دے سکتا ہے۔ [سنن نسائي/كتاب الزكاة/حدیث: 2449]
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اونٹ اپنے مالک کے پاس جب اس نے ان میں ان کا حق نہ دیا ہو گا اس سے بہتر حالت میں آئیں گے جس میں وہ (دنیا میں) تھے، وہ اسے اپنے کھروں سے روندیں گے، اور بکریاں اپنے مالک کے پاس جب اس نے ان میں ان کا حق نہ دیا ہو گا، اس سے بہتر حالت میں آئیں گی جس حالت میں وہ (دنیا میں) تھیں۔ وہ اسے اپنی کھروں سے روندیں گی، اور اپنی سینگوں سے ماریں گی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ان کا حق یہ بھی ہے کہ انہیں اسی جگہ دوہا جائے جہاں انہیں پانی پلانے کا نظم ہو ۱؎، سن لو، قیامت کے دن تم میں کا کوئی اپنے اونٹ کو اپنی گردن پر لادے ہوئے نہ لائے وہ بلبلا رہا ہو، پھر وہ کہے: اے محمد! (بچائیے مجھ کو اس عذاب سے) کہ میں کہوں: میں تیرے لیے کچھ نہیں کر سکتا، میں تو تجھے بتا چکا تھا، سن لو! قیامت کے دن کوئی اپنی گردن پر بکری کو لادے ہوئے نہ آئے کہ وہ ممیا رہی ہو، پھر وہ کہے: اے محمد! (مجھے اس عذاب سے بچائیے) کہ اس وقت میں کہوں: میں تیرے لیے کچھ نہیں کر سکتا، میں تو تجھے پہلے ہی بتا چکا ہوں“۔ آپ نے فرمایا: ”تم میں سے کسی کا خزانہ ۲؎ قیامت کے دن گنجا سانپ بن کر سامنے آئے گا، اس کا مالک اس سے بھاگے گا، اور وہ اس کا برابر پیچھا کرتا رہے گا، اور کہے گا: میں تیرا خزانہ ہوں یہاں تک کہ وہ اس کی انگلی کو اپنے منہ میں داخل کر لے گا“۔ [سنن نسائي/كتاب الزكاة/حدیث: 2450]
بہز بن حکیم کے دادا معاویہ بن حیدہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے: ہر چرنے والے چالیس اونٹوں میں دو برس کی اونٹنی ہے۔ اونٹ اپنے حساب (ریوڑ) سے جدا نہ کئے جائیں، جو ثواب کی امید رکھ کر انہیں دے گا تو اسے اس کا اجر ملے گا، اور جو دینے سے انکار کرے گا تو ہم اس سے اسے لے کر رہیں گے، مزید اس کے آدھے اونٹ اور لے لیں گے، یہ ہمارے رب کے تاکیدی حکموں میں سے ایک حکم ہے، محمد کے آل کے لیے اس میں سے کوئی چیز حلال نہیں ہے۔ [سنن نسائي/كتاب الزكاة/حدیث: 2451]
معاذ بن جبل رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں یمن بھیجا اور حکم دیا کہ ہر بالغ شخص سے ایک دینار (جزیہ) لیں یا اتنی قیمت کی یمنی چادریں، اور ہر تیس گائے بیل میں ایک برس کا بچھوا یا بچھیا لیں، اور ہر چالیس گائے اور بیل میں دو برس کی ایک گائے۔ [سنن نسائي/كتاب الزكاة/حدیث: 2452]
معاذ بن جبل رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یمن بھیجا، تو مجھے حکم دیا کہ ہر چالیس گائے میں دو برس کی ایک گائے، اور ہر تیس میں ایک سال کا ایک بچھوا لوں۔ اور ہر بالغ سے (بطور جزیہ) ایک دینار لوں، یا ایک دینار کے مساوی قیمت کی یمنی چادر۔ [سنن نسائي/كتاب الزكاة/حدیث: 2453]
معاذ بن جبل رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں یمن بھیجا تو انہیں حکم دیا کہ ہر تیس گائے بیل میں ایک سال کا بچھوا یا بچھیا لیں، اور ہر چالیس گائے میں دو سال کی بچھیا۔ اور ہر بالغ سے (جزیہ میں) ایک دینار یا ایک دینار کی قیمت کی یمنی چادر۔ [سنن نسائي/كتاب الزكاة/حدیث: 2454]
معاذ بن جبل رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جس وقت مجھے یمن بھیجا تو حکم دیا کہ میں گائے، بیل سے جب تک وہ تیس کی تعداد کو نہ پہنچ جائیں کچھ نہ لوں، اور جب تیس ہو جائیں تو ان میں گائے کا ایک سال کا بچہ چاہے نر ہو یا مادہ یہاں تک کہ وہ چالیس کو پہنچ جائیں، اور جب چالیس ہو جائیں تو ان میں دو سال کی ایک بچھیا ہے۔ [سنن نسائي/كتاب الزكاة/حدیث: 2455]
جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو بھی اونٹ، گائے اور بکری والا ان کا حق ادا نہیں کرے گا، (یعنی زکاۃ نہیں ادا کرے گا) تو اسے قیامت کے دن ایک کشادہ ہموار میدان میں کھڑا کیا جائے گا، کھر والے جانور اپنے کھروں سے اسے روندیں گے، اور سینگ والے اسے اپنی سینگوں سے ماریں گے۔ اس دن ان میں کوئی ایسا نہ ہو گا جس کے سینگ ہی نہ ہو اور نہ ہی کسی کی سینگ ٹوٹی ہوئی ہو گی“، ہم نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ان کا حق کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ان پر نر کودوانا، ان کے ڈول کو منگنی دینا اور اللہ کی راہ میں ان پر بوجھ اور سواری لادنا، اور جو صاحب مال اپنے مال کا حق ادا نہ کرے گا وہ مال قیامت کے دن ایک گنجے (زہریلے) سانپ کی شکل میں اسے دکھائی پڑے گا، اس کا مالک اس سے بھاگے گا، اور وہ اس کا پیچھا کرے گا، اور اس سے کہے گا: یہ تو تیرا وہ خزانہ ہے جس کے ساتھ تو بخل کرتا تھا، جب وہ دیکھے گا کہ اس سے بچنے کی کوئی صورت نہیں ہے تو (لاچار ہو کر) اپنا ہاتھ اس کے منہ میں ڈال دے گا، اور وہ اس کو اس طرح چبائے گا جس طرح اونٹ چباتا ہے“۔ [سنن نسائي/كتاب الزكاة/حدیث: 2456]