ایوب کہتے ہیں کہ ابوقلابہ نے مجھ سے کہا کہ عمرو بن سلمہ زندہ ہیں تم ان سے مل کیوں نہیں لیتے، (کہ براہ راست ان سے یہ حدیث سن لو) تو میں عمرو بن سلمہ رضی اللہ عنہ سے ملا، اور میں نے ان سے جا کر پوچھا تو انہوں نے کہا: جب فتح (مکہ) کا واقعہ پیش آیا، تو ہر قبیلہ نے اسلام لانے میں جلدی کی، تو میرے باپ (بھی) اپنی قوم کے اسلام لانے کی خبر لے کر گئے، جب وہ (واپس) آئے تو ہم نے ان کا استقبال کیا، تو انہوں نے کہا: اللہ کی قسم، میں اللہ کے سچے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے آیا ہوں، انہوں نے فرمایا ہے: ”فلاں نماز فلاں وقت اس طرح پڑھو، فلاں نماز فلاں وقت اس طرح، اور جب نماز کا وقت آ جائے تو تم میں سے کوئی ایک اذان دے، اور جسے قرآن زیادہ یاد ہو وہ تمہاری امامت کرے“۔ [سنن نسائي/كتاب الأذان/حدیث: 637]
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بلال رات ہی میں اذان دیتے ہیں تو تم لوگ کھاؤ پیو ۱؎ یہاں تک کہ (عبداللہ) ابن ام مکتوم اذان دیں“۔ [سنن نسائي/كتاب الأذان/حدیث: 638]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «صحیح البخاری/الأذان 12 (620)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/الصلاة 3 (14)، (تحفة الأشراف: 7237) (صحیح)»
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بلال رات رہتی ہے تبھی اذان دے دیتے ہیں، تو تم لوگ کھاؤ پیو یہاں تک کہ تم ابن ام مکتوم کے اذان دینے کی آواز سنو“۔ [سنن نسائي/كتاب الأذان/حدیث: 639]
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب بلال اذان دیں تو کھاؤ پیو یہاں تک کہ ابن ام مکتوم اذان دیں“، ان دونوں کے درمیان صرف اتنا وقفہ ہوتا تھا کہ یہ اتر رہے ہوتے اور وہ چڑھ رہے ہوتے“۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب الأذان/حدیث: 640]
انیسہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب (عبداللہ) ابن ام مکتوم اذان دیں تو کھاؤ پیو، اور جب بلال اذان دیں تو کھانا پینا بند کر دو“۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب الأذان/حدیث: 641]
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بلال رات رہتی ہے تبھی اذان دے دیتے ہیں تاکہ سونے والوں کو جگا دیں، اور تہجد پڑھنے والوں کو (سحری کھانے کے لیے) گھر لوٹا دیں، اور وہ اس طرح نہیں کرتے یعنی صبح ہونے پر اذان نہیں دیتے ہیں بلکہ پہلے ہی دیتے ہیں“۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب الأذان/حدیث: 642]
انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک پوچھنے والے نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے فجر کی اذان کا وقت پوچھا، تو آپ نے بلال کو حکم دیا، تو انہوں نے فجر طلوع ہونے کے بعد اذان دی، پھر جب دوسرا دن ہوا تو انہوں نے فجر کو مؤخر کیا یہاں تک کہ خوب اجالا ہو گیا، پھر آپ نے انہیں (اقامت کا) حکم دیا، تو انہوں نے اقامت کہی، اور آپ نے نماز پڑھائی پھر فرمایا: ”یہ ہے فجر کا وقت“۔ [سنن نسائي/كتاب الأذان/حدیث: 643]
ابوحجیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، تو بلال رضی اللہ عنہ نے نکل کر اذان دی، تو وہ اپنی اذان میں اس طرح کرنے لگے یعنی ( «حى على» … کے وقت) دائیں اور بائیں مڑ رہے تھے۔ [سنن نسائي/كتاب الأذان/حدیث: 644]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «صحیح البخاری/الأذان 19 (634)، وقد أخرجہ: (تحفة الأشراف: 11807)، مسند احمد 4/308، سنن الدارمی/الصلاة 8 (1234) (صحیح)»
عبداللہ بن عبدالرحمٰن بن صعصعہ انصاری مازنی روایت کرتے ہیں کہ ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا کہ میں تمہیں دیکھتا ہوں کہ تم بکریوں اور صحراء کو محبوب رکھتے ہو، تو جب تم اپنی بکریوں میں یا اپنے جنگل میں رہو اور نماز کے لیے اذان دو تو اپنی آواز بلند کرو کیونکہ مؤذن کی آواز جو بھی جن و انس یا کوئی اور چیز ۱؎ سنے گی تو وہ قیامت کے دن اس کی گواہی دے گی، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسا ہی سنا ہے۔ [سنن نسائي/كتاب الأذان/حدیث: 645]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «صحیح البخاری/الأذان 5 (609)، بدء الخلق 12 (3296)، التوحید 52 (7548)، سنن ابن ماجہ/الأذان 5 (723)، موطا امام مالک/الصلاة 1 (5)، مسند احمد 3/6، 35، 43، (تحفة الأشراف: 4105) (صحیح)»
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک کو یہ کہتے سنا ہے: ”مؤذن کی آواز جہاں تک پہنچتی ہے اس کی مغفرت کر دی جائے گی، اور تمام خشک وتر اس کی گواہی دیں گے“۔ [سنن نسائي/كتاب الأذان/حدیث: 646]