ابن شہاب زہری سے روایت ہے کہ عمر بن عبدالعزیز نے عصر میں کچھ تاخیر کر دی، تو عروہ نے ان سے کہا: کیا آپ کو معلوم نہیں؟ جبرائیل علیہ السلام نازل ہوئے، اور آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز پڑھائی ۱؎ اس پر عمر بن عبدالعزیز نے کہا: عروہ! جو تم کہہ رہے ہو اسے خوب سوچ سمجھ کر کہو، تو عروہ نے کہا: میں نے بشیر بن ابی مسعود رضی اللہ عنہ سے سنا ہے وہ کہہ رہے تھے کہ میں نے ابومسعود سے سنا وہ کہہ رہے تھے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے کہ جبرائیل اترے، اور انہوں نے میری امامت کرائی، تو میں نے ان کے ساتھ نماز پڑھی، پھر ان کے ساتھ نماز پڑھی، پھر ان کے ساتھ نماز پڑھی، پھر ان کے ساتھ نماز پڑھی، پھر ان کے ساتھ نماز پڑھی، آپ اپنی انگلیوں پر پانچوں نمازوں کو گن رہے تھے۔ [سنن نسائي/كتاب المواقيت/حدیث: 495]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «صحیح البخاری/المواقیت 1 (521)، بدء الخلق 6 (3221)، المغازي 12 (4007)، صحیح مسلم/المساجد 31 (610)، سنن ابی داود/الصلاة 2 (394)، سنن ابن ماجہ/الصلاة 1 (668)، موطا امام مالک/وقوت الصلاة 1 (1)، (تحفة الأشراف: 9977)، مسند احمد 4/120، 5/274، سنن الدارمی/الصلاة 2 (1223) (صحیح)»
سیار بن سلامہ کہتے ہیں کہ میں نے اپنے والد سے سنا وہ ابوبرزہ رضی اللہ عنہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کے متعلق سوال کر رہے تھے، شعبہ کہتے ہیں کہ میں نے (سیار بن سلامہ سے) پوچھا: آپ نے اسے سنا ہے؟ انہوں نے کہا: (میں نے اسی طرح سنا ہے) جس طرح میں اس وقت آپ کو سنا رہا ہوں، میں نے اپنے والد سے سنا وہ (ابوبرزہ سے) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کے متعلق سوال کر رہے تھے، تو انہوں نے کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم آدھی رات تک عشاء کی تاخیر کی پرواہ نہیں کرتے تھے، اور اس سے پہلے سونے کو اور اس کے بعد گفتگو کرنے کو پسند نہیں کرتے تھے، شعبہ کہتے ہیں: اس کے بعد میں پھر سیار سے ملا اور میں نے ان سے پوچھا، تو انہوں نے کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم ظہر اس وقت پڑھتے جس وقت سورج ڈھل جاتا، اور عصر اس وقت پڑھتے کہ آدمی (عصر پڑھ کر) مدینہ کے آخری کنارہ تک جاتا، اور سورج زندہ رہتا ۱؎ اور مجھے معلوم نہیں کہ انہوں نے مغرب کا کون سا وقت ذکر کیا، اس کے بعد میں پھر ان سے ملا تو میں نے ان سے پوچھا تو انہوں نے کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم فجر پڑھتے تو آدمی پڑھ کر پلٹتا اور اپنے ساتھی کا جسے وہ پہچانتا ہو چہرہ دیکھتا تو پہچان لیتا، انہوں نے کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم فجر میں ساٹھ سے سو آیتوں کے درمیان پڑھتے تھے۔ [سنن نسائي/كتاب المواقيت/حدیث: 496]
خباب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے (تیز دھوپ سے) زمین جلنے کی شکایت کی، تو آپ نے ہماری شکایت کا ازالہ نہیں کیا ۱؎، راوی ابواسحاق سے پوچھا گیا: (یہ شکایت) اسے جلدی پڑھنے کے سلسلہ میں تھی؟ انہوں نے کہا ہاں، (اسی سلسلہ میں تھی)۔ [سنن نسائي/كتاب المواقيت/حدیث: 498]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «صحیح مسلم/المساجد 33 (619)، وقد أخرجہ: (تحفة الأشراف: 3513)، مسند احمد 5/108، 110 (صحیح)»
حمزہ عائذی کہتے ہیں کہ میں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ کو کہتے سنا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم (ظہر سے پہلے) جب کسی جگہ اترتے ۱؎ تو جب تک ظہر نہ پڑھ لیتے وہاں سے کوچ نہیں کرتے، اس پر ایک آدمی نے کہا: اگرچہ ٹھیک دوپہر ہوتی؟ انہوں نے کہا: اگرچہ ٹھیک دوپہر ہوتی ۲؎۔ [سنن نسائي/كتاب المواقيت/حدیث: 499]
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب گرمی ہوتی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز ۱؎ ٹھنڈی کر کے پڑھتے ۲؎ اور جب جاڑا ہوتا تو جلدی پڑھتے۔ [سنن نسائي/كتاب المواقيت/حدیث: 500]
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب گرمی سخت ہو تو نماز ٹھنڈی کر کے پڑھو، اس لیے کہ گرمی کی شدت جہنم کے جوش مارنے کی وجہ سے ہے“۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب المواقيت/حدیث: 501]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «وقد أخرجہ: صحیح مسلم/المساجد 32 (615)، سنن ابی داود/الصلاة 4 (402)، سنن الترمذی/الصلاة 5 (157)، سنن ابن ماجہ/الصلاة 4 (677)، موطا امام مالک/وقوت الصلاة 7 (28)، (تحفة الأشراف: 13226)، مسند احمد 2/229، 238، 256، 266، 348، 377، 393، 400، 411، 462، سنن الدارمی/الصلاة 14 (1243)، والرقاق 119 (2887)، وعن طریق أبی سلمة بن عبدالرحمن عن أبی ہریرة، (تحفة الأشراف: 15237) (صحیح)»
ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ظہر ٹھنڈے وقت میں پڑھو، کیونکہ جو گرمی تم محسوس کر رہے ہو یہ جہنم کے جوش مارنے کی وجہ سے ہے“۔ [سنن نسائي/كتاب المواقيت/حدیث: 502]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف: 8983) (صحیح) (پچھلی روایت سے تقویت پا کر یہ روایت بھی صحیح ہے، ورنہ اس کے راوی ’’ثابت بن قیس نخعی‘‘ لین الحدیث ہیں)»
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ جبرائیل علیہ السلام ہیں، تمہیں تمہارا دین سکھانے آئے ہیں، تو انہوں نے نماز فجر اس وقت پڑھائی جب فجر طلوع ہوئی، اور ظہر اس وقت پڑھائی جب سورج ڈھل گیا، پھر عصر اس وقت پڑھائی جب انہوں نے سایہ کو اپنے مثل دیکھ لیا، پھر مغرب اس وقت پڑھائی جب سورج ڈوب گیا، اور روزے دار کے لیے افطار جائز ہو گیا، پھر عشاء اس وقت پڑھائی جب شفق یعنی رات کی سرخی ختم ہو گئی، پھر وہ آپ کے پاس دوسرے دن آئے، اور آپ کو فجر اس وقت پڑھائی جب تھوڑی روشنی ہو گئی، پھر ظہر اس وقت پڑھائی جب سایہ ایک مثل ہو گیا، پھر عصر اس وقت پڑھائی جب سایہ دو مثل ہو گیا، پھر مغرب (دونوں دن) ایک ہی وقت پڑھائی جب سورج ڈوب گیا، اور روزے دار کے لیے افطار جائز ہو گیا، پھر عشاء اس وقت پڑھائی جب رات کا ایک حصہ گزر گیا، پھر کہا: نمازوں کا وقت یہی ہے تمہارے آج کی اور کل کی نمازوں کے بیچ میں“۔ [سنن نسائي/كتاب المواقيت/حدیث: 503]
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ گرمی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ظہر کا اندازہ تین قدم سے پانچ قدم کے درمیان، اور جاڑے میں پانچ قدم سے سات قدم کے درمیان ہوتا۔ [سنن نسائي/كتاب المواقيت/حدیث: 504]