مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے دجال کے بارے میں جتنے سوالات میں نے کئے ہیں، اتنے کسی اور نے نہیں کئے، (ابن نمیر کی روایت میں یہ الفاظ ہیں «أشد سؤالا مني» یعنی ”مجھ سے زیادہ سوال اور کسی نے نہیں کئے“، آخر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: ”تم اس کے بارے میں کیا پوچھتے ہو“؟ میں نے عرض کیا: لوگ کہتے ہیں کہ اس کے ساتھ کھانا اور پانی ہو گا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ پر وہ اس سے بھی زیادہ آسان ہے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الفتن/حدیث: 4073]
فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن نماز پڑھائی، اور منبر پر تشریف لے گئے، اور اس سے پہلے جمعہ کے علاوہ آپ منبر پر تشریف نہ لے جاتے تھے، لوگوں کو اس سے پریشانی ہوئی، کچھ لوگ آپ کے سامنے کھڑے تھے کچھ بیٹھے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہاتھ سے سب کو بیٹھنے کا اشارہ کیا اور فرمایا: ”اللہ کی قسم! میں منبر پر اس لیے نہیں چڑھا ہوں کہ کوئی ایسی بات کہوں جو تمہیں کسی رغبت یا دہشت والے کام کا فائدہ دے، بلکہ بات یہ ہے کہ میرے پاس تمیم داری آئے، اور انہوں نے مجھے ایک خبر سنائی (جس سے مجھے اتنی مسرت ہوئی کہ خوشی کی وجہ سے میں قیلولہ نہ کر سکا، میں نے چاہا کہ تمہارے نبی کی خوشی کو تم پر بھی ظاہر کر دوں)، سنو! تمیم داری کے ایک چچا زاد بھائی نے مجھ سے یہ واقعہ بیان کیا کہ (ایک سمندری سفر میں) ہوا ان کو ایک جزیرے کی طرف لے گئی جس کو وہ پہچانتے نہ تھے، یہ لوگ چھوٹی چھوٹی کشتیوں پر سوار ہو کر اس جزیرے میں گئے، انہیں وہاں ایک کالے رنگ کی چیز نظر آئی، جس کے جسم پر کثرت سے بال تھے، انہوں نے اس سے پوچھا: تو کون ہے؟ اس نے کہا: میں جساسہ (دجال کی جاسوس) ہوں، ان لوگوں نے کہا: تو ہمیں کچھ بتا، اس نے کہا: (نہ میں تمہیں کچھ بتاؤں گی، نہ کچھ تم سے پوچھوں گی)، لیکن تم اس دیر (راہبوں کے مسکن) میں جسے تم دیکھ رہے ہو جاؤ، وہاں ایک شخص ہے جو اس بات کا خواہشمند ہے کہ تم اسے خبر بتاؤ اور وہ تمہیں بتائے، کہا: ٹھیک ہے، یہ سن کر وہ لوگ اس کے پاس آئے، اس گھر میں داخل ہوئے تو دیکھا کہ وہاں ایک بوڑھا شخص زنجیروں میں سخت جکڑا ہوا (رنج و غم کا اظہار کر رہا ہے، اور اپنا دکھ درد سنانے کے لیے بے چین ہے) تو اس نے ان لوگوں سے پوچھا: تم کہاں سے آئے ہو؟ انہوں نے جواب دیا: شام سے، اس نے پوچھا: عرب کا کیا حال ہے؟ انہوں نے کہا: ہم عرب لوگ ہیں، تم کس کے بارے میں پوچھ رہے ہو؟ اس نے پوچھا: اس شخص کا کیا حال ہے (یعنی محمد کا) جو تم لوگوں میں ظاہر ہوا؟ انہوں نے کہا: ٹھیک ہے، اس نے قوم سے دشمنی کی، پھر اللہ نے اسے ان پر غلبہ عطا کیا، تو آج ان میں اجتماعیت ہے، ان کا معبود ایک ہے، ان کا دین ایک ہے، پھر اس نے پوچھا: زغر (شام میں ایک گاؤں) کے چشمے کا کیا حال ہے؟ انہوں نے کہا: ٹھیک ہے، لوگ اس سے اپنے کھیتوں کو پانی دیتے ہیں، اور پینے کے لیے بھی اس میں سے پانی لیتے ہیں، پھر اس نے پوچھا: (عمان اور بیسان (ملک شام کے دو شہر کے درمیان) کھجور کے درختوں کا کیا حال ہے؟ انہوں نے کہا: ہر سال وہ اپنا پھل کھلا رہے ہیں، اس نے پوچھا: طبریہ کے نالے کا کیا حال ہے؟ انہوں نے کہا: اس کے دونوں کناروں پر پانی خوب زور و شور سے بہ رہا ہے، یہ سن کر اس شخص نے تین آہیں بھریں) پھر کہا: اگر میں اس قید سے چھوٹا تو میں اپنے پاؤں سے چل کر زمین کے چپہ چپہ کا گشت لگاؤں گا، کوئی گوشہ مجھ سے باقی نہ رہے گا سوائے طیبہ (مدینہ) کے، وہاں میرے جانے کی کوئی سبیل نہ ہو گی، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ سن کر مجھے بےحد خوشی ہوئی، طیبہ یہی شہر (مدینہ) ہے، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! مدینہ کے ہر تنگ و کشادہ اور نیچے اونچے راستوں پر ننگی تلوار لیے ایک فرشتہ متعین ہے جو قیامت تک پہرہ دیتا رہے گا“۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الفتن/حدیث: 4074]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «سنن ابی داود/الملاحم 15 (4326، 4327)، سنن الترمذی/الفتن 66 (2253)، (تحفة الأشراف: 18024)، وقد أخرجہ: مسند احمد (6/373، 374، 411، 412، 415، 416، 418) (صحیح)» (سند میں مجالد بن سعید ضعیف راوی ہیں، لیکن متن حدیث صحیح ہے، صرف وہ جملے ضعیف ہیں، جو اس طرح گھیر دئے گئے ہیں، صحیح مسلم کتاب الفتن 24؍ 2942 میں یہ حدیث ہلالین میں محصور جملوں کے علاوہ آئی ہے، جیسا کہ اوپر گزرا۔
قال الشيخ الألباني: ضعيف السند صحيح المتن دون الجمل التالية منعني القيلولة من الفرح وقرة العين فأحببت أن أنشر عليكم فرح نبيكم , ما أنا بمخبرتكم شيئا ولا سائلتكم , يظهر الحزن شديد التشكي , بين عمان , فزفر ثلاث زفرات , إلى هذا ينتهي فرحي
نواس بن سمعان کلابی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ(ایک دن) صبح کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دجال کا ذکر کیا تو اس میں آپ نے کبھی بہت دھیما لہجہ استعمال کیا اور کبھی روز سے کہا، آپ کے اس بیان سے ہم یہ محسوس کرنے لگے کہ جیسے وہ انہی کھجوروں میں چھپا ہوا ہے، پھر جب ہم شام کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ نے ہمارے چہروں پر خوف کے آثار کو دیکھ کر فرمایا: ”تم لوگوں کا کیا حال ہے“؟ ہم نے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ نے جو صبح کے وقت دجال کا ذکر فرمایا تھا اور جس میں آپ نے پہلے دھیما پھر تیز لہجہ استعمال کیا تو اس سے ہمیں یہ محسوس ہونے لگا ہے کہ وہ انہی کھجوروں کے درختوں میں چھپا ہوا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجھے تم لوگوں پر دجال کے علاوہ اوروں کا زیادہ ڈر ہے، اگر دجال میری زندگی میں ظاہر ہوا تو میں تم سب کی جانب سے اس کا مقابلہ کروں گا، اور اگر میرے بعد ظاہر ہوا تو ہر انسان اس کا مقابلہ خود کرے گا، اللہ تعالیٰ ہر مسلمان پر میرا خلیفہ ہے (یعنی ہر مسلمان کا میرے بعد ذمہ دار ہے) دیکھو دجال جوان ہو گا، اس کے بال بہت گھنگریالے ہوں گے، اس کی ایک آنکھ اٹھی ہوئی اونچی ہو گی گویا کہ میں اسے عبدالعزی بن قطن کے مشابہ سمجھتا ہوں، لہٰذا تم میں سے جو کوئی اسے دیکھے اسے چاہیئے کہ اس پر سورۃ الکہف کی ابتدائی آیات پڑھے، دیکھو! دجال کا ظہور عراق اور شام کے درمیانی راستے سے ہو گا، وہ روئے زمین پر دائیں بائیں فساد پھیلاتا پھرے گا، اللہ کے بندو! ایمان پر ثابت قدم رہنا“۔ ہم نے عرض کیا: اللہ کے رسول! وہ کتنے دنوں تک زمین پر رہے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”چالیس دن تک، ایک دن ایک سال کے برابر، دوسرا دن ایک مہینہ کے اور تیسرا دن ایک ہفتہ کے برابر ہو گا، اور باقی دن تمہارے عام دنوں کی طرح ہوں گے“۔ ہم نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کیا اس دن میں جو ایک سال کا ہو گا ہمارے لیے ایک دن کی نماز کافی ہو گی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”(نہیں بلکہ) تم اسی ایک دن کا اندازہ کر کے نماز پڑھ لینا“۔ ہم نے عرض کیا: زمین میں اس کے چلنے کی رفتار آخر کتنی تیز ہو گی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس بادل کی طرح جس کے پیچھے ہوا ہو، وہ ایک قوم کے پاس آ کر انہیں اپنی الوہیت کی طرف بلائے گا، تو وہ قبول کر لیں گے، اور اس پر ایمان لے آئیں گے، پھر وہ آسمان کو بارش کا حکم دے گا، تو وہ برسے گا، پھر زمین کو سبزہ اگانے کا حکم دے گا تو زمین سبزہ اگائے گی، اور جب اس قوم کے جانور شام کو چر کر واپس آیا کریں گے تو ان کے کوہان پہلے سے اونچے، تھن زیادہ دودھ والے، اور کوکھیں بھری ہوں گی، پہلو بھرے بھرے ہوں گے، پھر وہ ایک دوسری قوم کے پاس جائے گا، اور ان کو اپنی طرف دعوت دے گا، تو وہ اس کی بات نہ مانیں گے، آخر یہ دجال وہاں سے واپس ہو گا، تو صبح کو وہ قوم قحط میں مبتلا ہو گی، اور ان کے ہاتھ میں کچھ نہیں رہے گا، پھر دجال ایک ویران جگہ سے گزرے گا، اور اس سے کہے گا: تو اپنے خزانے نکال، وہاں کے خزانے نکل کر اس طرح اس کے ساتھ ہو جائیں گے جیسے شہد کی مکھیاں «یعسوب»(مکھیوں کے بادشاہ) کے پیچھے چلتی ہیں، پھر وہ ایک ہٹے کٹے نوجوان کو بلائے گا، اور تلوار کے ذریعہ اسے ایک ہی وار میں قتل کر کے اس کے دو ٹکڑے کر دے گا، ان دونوں ٹکڑوں میں اتنی دوری کر دے گا جتنی دوری پر تیر جاتا ہے، پھر اس کو بلائے گا تو وہ شخص زندہ ہو کر روشن چہرہ لیے ہنستا ہوا چلا آئے گا، الغرض دجال اور دنیا والے اسی حال میں ہوں گے کہ اللہ تعالیٰ عیسیٰ بن مریم علیہ الصلاۃ والسلام کو بھیجے گا، وہ دمشق کے سفید مشرقی مینار کے پاس دو زرد ہلکے کپڑے پہنے ہوئے اتریں گے، جو زعفران اور ورس سے رنگے ہوئے ہوں گے، اور اپنے دونوں ہاتھ دو فرشتوں کے بازوؤں پر رکھے ہوئے ہوں گے، جب وہ اپنا سر جھکائیں گے تو سر سے پانی کے قطرے ٹپکیں گے، اور جب سر اٹھائیں گے تو اس سے پانی کے قطرے موتی کی طرح گریں گے، ان کی سانس میں یہ اثر ہو گا کہ جس کافر کو لگ جائے گی وہ مر جائے گا، اور ان کی سانس وہاں تک پہنچے گی جہاں تک ان کی نظر کام کرے گی۔ پھر عیسیٰ علیہ السلام چلیں گے یہاں تک کہ اس (دجال) کو باب لد کے پاس پکڑ لیں گے، وہاں اسے قتل کریں گے، پھر دجال کے قتل کے بعد اللہ کے نبی عیسیٰ علیہ السلام ان لوگوں کے پاس آئیں گے جن کو اللہ تعالیٰ نے دجال کے شر سے بچا رکھا ہو گا، ان کے چہرے پر ہاتھ پھیر کر انہیں تسلی دیں گے، اور ان سے جنت میں ان کے درجات بیان کریں گے، یہ لوگ ابھی اسی کیفیت میں ہوں گے کہ اللہ تعالیٰ ان کی طرف وحی نازل کرے گا: اے عیسیٰ! میں نے اپنے کچھ ایسے بندے پیدا کئے ہیں جن سے لڑنے کی طاقت کسی میں نہیں، تو میرے بندوں کو طور پہاڑ پر لے جا، اس کے بعد اللہ تعالیٰ یاجوج و ماجوج کو بھیجے گا، اور وہ لوگ ویسے ہی ہوں گے جیسے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: «من كل حدب ينسلون»”یہ لوگ ہر ٹیلے پر سے چڑھ دوڑیں گے“(سورة الأنبياء: 96) ان میں کے آگے والے طبریہ کے چشمے پر گزریں گے، تو اس کا سارا پانی پی لیں گے، پھر جب ان کے پچھلے لوگ گزریں گے تو وہ کہیں گے: کسی زمانہ میں اس تالاب کے اندر پانی تھا، اللہ کے نبی عیسیٰ علیہ السلام اور ان کے ساتھی طور پہاڑ پر حاضر رہیں گے ۱؎، ان مسلمانوں کے لیے اس وقت بیل کا سر تمہارے آج کے سو دینار سے بہتر ہو گا، پھر اللہ کے نبی عیسیٰ علیہ السلام اور ان کے ساتھی اللہ تعالیٰ سے دعا کریں گے، چنانچہ اللہ یاجوج و ماجوج کی گردن میں ایک ایسا پھوڑا نکالے گا، جس میں کیڑے ہوں گے، اس کی وجہ سے (دوسرے دن) صبح کو سب ایسے مرے ہوئے ہوں گے جیسے ایک آدمی مرتا ہے، اور اللہ کے نبی عیسیٰ علیہ السلام اور ان کے ساتھی طور پہاڑ سے نیچے اتریں گے اور ایک بالشت کے برابر جگہ نہ پائیں گے، جو ان کی بدبو، خون اور پیپ سے خالی ہو، عیسیٰ علیہ السلام اور ان کے ساتھی اللہ تعالیٰ سے دعا کریں گے تو اللہ تعالیٰ بختی اونٹ کی گردن کی مانند پرندے بھیجے گا جو ان کی لاشوں کو اٹھا کر جہاں اللہ تعالیٰ کا حکم ہو گا وہاں پھینک دیں گے، پھر اللہ تعالیٰ (سخت) بارش نازل کرے گا جس سے کوئی پختہ یا غیر پختہ مکان چھوٹنے نہیں پائے گا، یہ بارش ان سب کو دھو ڈالے گی، اور زمین کو آئینہ کی طرح بالکل صاف کر دے گی، پھر زمین سے کہا جائے گا کہ تو اپنے پھل اگا، اور اپنی برکت ظاہر کر، تو اس وقت ایک انار کو ایک جماعت کھا کر آسودہ ہو گی، اور اس انار کے چھلکوں سے سایہ حاصل کریں گے اور دودھ میں اللہ تعالیٰ اتنی برکت دے گا کہ ایک اونٹنی کا دودھ کئی جماعتوں کو کافی ہو گا، اور ایک دودھ دینے والی گائے ایک قبیلہ کے لوگوں کو کافی ہو گی، اور ایک دودھ دینے والی بکری ایک چھوٹے قبیلے کو کافی ہو گی، لوگ اسی حال میں ہوں گے کہ اللہ تعالیٰ ایک پاکیزہ ہوا بھیجے گا وہ ان کی بغلوں کے تلے اثر کرے گی اور ہر مسلمان کی روح قبض کرے گی، اور ایسے لوگ باقی رہ جائیں گے جو جھگڑالو ہوں گے، اور گدھوں کی طرح لڑتے جھگڑتے یا اعلانیہ جماع کرتے رہیں گے، تو انہی (شریر) لوگوں پر قیامت قائم ہو گی“۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الفتن/حدیث: 4075]
نواس بن سمعان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قریب ہے کہ مسلمان یاجوج و ماجوج کے تیر، کمان، اور ڈھال کو سات سال تک جلائیں گے“۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الفتن/حدیث: 4076]
ابوامامہ باہلی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں خطبہ دیا، آپ کے خطبے کا اکثر حصہ دجال والی وہ حدیث تھی جو آپ نے ہم سے بیان کی، اور ہم کو اس سے ڈرایا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کچھ فرمایا اس میں یہ بات بھی تھی کہ ”جب سے اللہ تعالیٰ نے اولاد آدم کو پیدا کیا ہے اس وقت سے دجال کے فتنے سے بڑھ کر کوئی فتنہ نہیں ہے، اور اللہ تعالیٰ نے کوئی نبی ایسا نہیں بھیجا جس نے اپنی امت کو (فتنہ) دجال سے نہ ڈرایا ہو، میں چونکہ تمام انبیاء علیہم السلام کے اخیر میں ہوں، اور تم بھی آخری امت ہو اس لیے دجال یقینی طور پر تم ہی لوگوں میں ظاہر ہو گا، اگر وہ میری زندگی میں ظاہر ہو گیا تو میں ہر مسلمان کی جانب سے اس کا مقابلہ کروں گا، اور اگر وہ میرے بعد ظاہر ہوا تو ہر شخص خود اپنا بچاؤ کرے گا، اور اللہ تعالیٰ ہر مسلمان پر میرا خلیفہ ہے، (یعنی اللہ میرے بعد ہر مسلمان کا محافظ ہو گا)، سنو! دجال شام و عراق کے درمیانی راستے سے نکلے گا اور اپنے دائیں بائیں ہر طرف فساد پھیلائے گا، اے اللہ کے بندو! (اس وقت) ایمان پر ثابت قدم رہنا، میں تمہیں اس کی ایک ایسی صفت بتاتا ہوں جو مجھ سے پہلے کسی نبی نے نہیں بتائی، پہلے تو وہ نبوت کا دعویٰ کرے گا، اور کہے گا: ”میں نبی ہوں“، حالانکہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے، پھر دوسری بار کہے گا کہ ”میں تمہارا رب ہوں“، حالانکہ تم اپنے رب کو مرنے سے پہلے نہیں دیکھ سکتے، وہ کانا ہو گا، اور تمہارا رب کانا نہیں ہے، وہ ہر عیب سے پاک ہے، اور دجال کی پیشانی پر لفظ ”کافر“ لکھا ہو گا، جسے ہر مومن خواہ پڑھا لکھا ہو یا جاہل پڑھ لے گا۔ اور اس کا ایک فتنہ یہ ہو گا کہ اس کے ساتھ جنت اور جہنم ہو گی، لیکن حقیقت میں اس کی جہنم جنت ہو گی، اور جنت جہنم ہو گی، تو جو اس کی جہنم میں ڈالا جائے، اسے چاہیئے کہ وہ اللہ سے فریاد کرے، اور سورۃ الکہف کی ابتدائی آیات پڑھے تو وہ جہنم اس پر ایسی ٹھنڈی اور سلامتی والی ہو جائے گی جیسے ابراہیم علیہ السلام پر آگ ٹھنڈی ہو گئی تھی۔ اور اس دجال کا ایک فتنہ یہ بھی ہو گا کہ وہ ایک گنوار دیہاتی سے کہے گا: اگر میں تیرے والدین کو زندہ کر دوں تو کیا تو مجھے رب تسلیم کرے گا؟ وہ کہے گا: ہاں، پھر دو شیطان اس کے باپ اور اس کی ماں کی شکل میں آئیں گے اور اس سے کہیں گے: اے میرے بیٹے! تو اس کی اطاعت کر، یہ تیرا رب ہے۔ ایک فتنہ اس کا یہ ہو گا کہ وہ ایک شخص پر مسلط کر دیا جائے گا، پھر اسے قتل کر دے گا، اور اسے آرے سے چیر دے گا یہاں تک کہ اس کے دو ٹکڑے کر کے ڈال دے گا، پھر کہے گا: تم میرے اس بندے کو دیکھو، میں اس بندے کو اب زندہ کرتا ہوں، پھر وہ کہے گا: میرے علاوہ اس کا کوئی اور رب ہے، تو اللہ تعالیٰ اسے زندہ کرے گا، اور دجال خبیث اس سے پوچھے گا کہ تیرا رب کون ہے؟ تو وہ کہے گا: میرا رب تو اللہ ہے، اور تو اللہ کا دشمن دجال ہے، اللہ کی قسم! اب تو مجھے تیرے دجال ہونے کا مزید یقین ہو گیا“۔ ابوالحسن طنافسی کہتے ہیں کہ ہم سے محاربی نے بیان کیا، وہ کہتے ہیں کہ ہم سے عبیداللہ بن ولید وصافی نے بیان کیا، انہوں نے عطیہ سے روایت کی، عطیہ نے ابو سعید خدری سے، ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میری امت میں سے اس شخص کا درجہ جنت میں بہت اونچا ہو گا“۔ ابو سعید خدری کہتے ہیں: اللہ کی قسم! ہمارا خیال تھا کہ یہ شخص سوائے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہما کے کوئی نہیں ہو سکتا، یہاں تک کہ وہ اپنی راہ گزر گئے۔ محاربی کہتے ہیں کہ اب ہم پھر ابوامامہ رضی اللہ عنہ کی حدیث جو ابورافع نے روایت کی ہے بیان کرتے ہیں کہ ”دجال کا ایک فتنہ یہ بھی ہو گا کہ وہ آسمان کو پانی برسانے اور زمین کو غلہ اگانے کا حکم دے گا، چنانچہ بارش نازل ہو گی، اور غلہ اگے گا، اور اس کا فتنہ یہ بھی ہو گا کہ وہ ایک قبیلے کے پاس گزرے گا، وہ لوگ اس کو جھوٹا کہیں گے، تو ان کا کوئی چوپایہ باقی نہ رہے گا، بلکہ سب ہلاک ہو جائیں گے۔ اس کا ایک فتنہ یہ بھی ہو گا کہ وہ ایک قبیلے کے پاس گزرے گا، وہ لوگ اس کی تصدیق کریں گے، پھر وہ آسمان کو حکم دے گا تو وہ برسے گا، اور زمین کو غلہ و اناج اگانے کا حکم دے گا تو وہ غلہ اگائے گی، یہاں تک کہ اس دن شام کو چرنے والے ان کے جانور پہلے سے خوب موٹے بھاری ہو کر لوٹیں گے، کوکھیں بھری ہوئی، اور تھن دودھ سے لبریز ہوں گے، مکہ اور مدینہ کو چھوڑ کر زمین کا کوئی خطہٰ ایسا نہ ہو گا جہاں دجال نہ جائے، اور اس پر غالب نہ آئے، مکہ اور مدینہ کا کوئی دروازہ ایسا نہ ہو گا جہاں فرشتے ننگی تلواروں کے ساتھ اس سے نہ ملیں، یہاں تک کہ دجال ایک چھوٹی سرخ پہاڑی کے پاس اترے گا، جہاں کھاری زمین ختم ہوئی ہے، اس وقت مدینہ میں تین مرتبہ زلزلہ آئے گا، جس کی وجہ سے مدینہ میں جتنے مرد اور عورتیں منافق ہوں گے وہ اس کے پاس چلے جائیں گے اور مدینہ میل کو ایسے نکال پھینکے گا جیسے بھٹی لوہے کی میل کو دور کر دیتی ہے، اور اس دن کا نام یوم الخلاص (چھٹکارے کا دن، یوم نجات) ہو گا“۔ ام شریک بنت ابی العسکر نے عرض کیا کہ اللہ کے رسول! اس دن عرب کہاں ہوں گے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس روز عرب بہت کم ہوں گے اور ان میں سے اکثر بیت المقدس میں ایک صالح امام کے ماتحت ہوں گے، ایک روز ان کا امام آگے بڑھ کر لوگوں کو صبح کی نماز پڑھانے کے لیے کھڑا ہو گا، کہ اتنے میں عیسیٰ بن مریم علیہما السلام صبح کے وقت نازل ہوں گے، تو یہ امام ان کو دیکھ کر الٹے پاؤں پیچھے ہٹ آنا چاہے گا تاکہ عیسیٰ علیہ السلام آگے بڑھ کر لوگوں کو نماز پڑھا سکیں، لیکن عیسیٰ علیہ السلام اپنا ہاتھ اس کے دونوں مونڈھوں کے درمیان رکھ کر فرمائیں گے کہ تم ہی آگے بڑھ کر نماز پڑھاؤ اس لیے کہ تمہارے ہی لیے تکبیر کہی گئی ہے، خیر وہ امام لوگوں کو نماز پڑھائے گا، جب وہ نماز سے فارغ ہو گا تو عیسیٰ علیہ السلام (قلعہ والوں سے) فرمائیں گے کہ دروازہ کھولو، تو دروازہ کھول دیا جائے گا، اس (دروازے) کے پیچھے دجال ہو گا، اس کے ساتھ ستر ہزار یہودی ہوں گے، ہر یہودی کے پاس سونا چاندی سے مرصع و مزین تلوار اور سبز چادر ہو گی، جب یہ دجال عیسیٰ علیہ السلام کو دیکھے گا، تو اس طرح گھلے گا جس طرح پانی میں نمک گھل جاتا ہے، اور وہ انہیں دیکھ کر بھاگ کھڑا ہو گا، عیسیٰ علیہ السلام اس سے کہیں گے: تجھے میرے ہاتھ سے ایک ضرب کھانی ہے تو اس سے بچ نہ سکے گا، آخر کار وہ اسے لد کے مشرقی دروازے کے پاس پکڑ لیں گے، اور اسے قتل کر دیں گے، پھر اللہ تعالیٰ یہودیوں کو شکست دے گا، اور یہودی اللہ تعالیٰ کی مخلوقات میں سے جس چیز کی بھی آڑ میں چھپے گا، خواہ وہ درخت ہو یا پتھر، دیوار ہو یا جانور، اس چیز کو اللہ تعالیٰ بولنے کی طاقت دے گا، اور ہر چیز کہے گی: اے اللہ کے مسلمان بندے! یہ یہودی میرے پیچھے چھپا ہوا ہے، اسے آ کر قتل کر دے، سوائے ایک درخت کے جس کو غرقد کہتے ہیں، یہ یہودیوں کے درختوں میں سے ایک درخت ہے یہ نہیں بولے گا“۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”دجال چالیس سال تک رہے گا، جن میں سے ایک سال چھ مہینہ کے برابر ہو گا، اور ایک سال ایک مہینہ کے برابر ہو گا، اور ایک مہینہ جمعہ (ایک ہفتہ) کے برابر اور دجال کے باقی دن ایسے گزر جائیں گے جیسے چنگاری اڑ جاتی ہے، اگر تم میں سے کوئی مدینہ کے ایک دروازے پر صبح کے وقت ہو گا، تو اسے دوسرے دروازے پر پہنچتے پہنچتے شام ہو جائے گی“، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا گیا: اللہ کے رسول! اتنے چھوٹے دنوں میں ہم نماز کس طرح پڑھیں گے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس طرح تم ان بڑے دنوں میں اندازہ کر کے پڑھتے ہو اسی طرح ان (چھوٹے) دنوں میں بھی اندازہ کر کے پڑھ لینا“۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عیسیٰ علیہ السلام میری امت میں ایک عادل حاکم اور منصف امام ہوں گے، صلیب کو توڑیں گے، سور کو قتل کریں گے، جزیہ اٹھا دیں گے، اور صدقہ و زکاۃ لینا چھوڑ دیں گے، تو یہ بکریوں اور گھوڑوں پر وصول نہیں کیا جائے گا، لوگوں کے دلوں سے کینہ اور بغض اٹھ جائے گا، اور ہر قسم کے زہریلے جانور کا زہر جاتا رہے گا، حتیٰ کہ اگر بچہ سانپ کے منہ میں ہاتھ ڈالے گا تو وہ اسے نقصان نہ پہنچائے گا، اور بچی شیر کو بھگائے گی تو وہ اسے کوئی نقصان نہیں پہنچا سکے گا، بھیڑیا بکریوں میں اس طرح رہے گا جس طرح محافظ کتا بکریوں میں رہتا ہے، زمین صلح اور انصاف سے ایسے بھر جائے گی جیسے برتن پانی سے بھر جاتا ہے، اور (سب لوگوں کا) کلمہ ایک ہو جائے گا، اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کی جائے گی، لڑائی اپنے سامان رکھ دے گی (یعنی دنیا سے لڑائی اٹھ جائے گی) قریش کی سلطنت جاتی رہے گی، اور زمین چاندی کی طشتری کی طرح ہو گی، اپنے پھل اور ہریالی ایسے اگائے گی جس طرح آدم کے عہد میں اگایا کرتی تھی، یہاں تک کہ انگور کے ایک خوشے پر ایک جماعت جمع ہو جائے گی تو سب آسودہ ہو جائیں گے، اور ایک انار پر ایک جماعت جمع ہو جائے گی تو سب آسودہ ہو جائیں گے، اور بیل اتنے اتنے داموں میں ہوں گے، اور گھوڑے چند درہموں میں ملیں گے“، لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! گھوڑے کیوں سستے ہوں گے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”لڑائی کے لیے گھوڑوں پر سواری نہیں ہو گی“، پھر آپ سے عرض کیا گیا: بیل کیوں مہنگا ہو گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ساری زمین میں کھیتی ہو گی اور دجال کے ظہور سے پہلے تین سال تک سخت قحط ہو گا، ان تینوں سالوں میں لوگ بھوک سے سخت تکلیف اٹھائیں گے، پہلے سال اللہ تعالیٰ آسمان کو تہائی بارش روکنے اور زمین کو تہائی پیداوار روکنے کا حکم دے گا، پھر دوسرے سال آسمان کو دو تہائی بارش روکنے اور زمین کو دو تہائی پیداوار روکنے کا حکم دے گا، اور تیسرے سال اللہ تعالیٰ آسمان کو یہ حکم دے گا کہ بارش بالکل روک لے پس ایک قطرہ بھی بارش نہ ہو گی، اور زمین کو یہ حکم دے گا کہ وہ اپنے سارے پودے روک لے تو وہ اپنی تمام پیداوار روک لے گی، نہ کوئی گھاس اگے گی، نہ کوئی سبزی، بالآخر کھر والے جانور (گائے بکری وغیرہ چوپائے) سب ہلاک ہو جائیں گے، کوئی باقی نہ بچے گا مگر جسے اللہ بچا لے“، عرض کیا گیا: پھر اس وقت لوگ کس طرح زندہ رہیں گے؟ آپ نے فرمایا: تہلیل ( «لا إله إلا الله») تکبیر ( «الله أكبر») تسبیح ( «سبحان الله») اور تحمید ( «الحمد لله») کا کہنا، ان کے لیے غذا کا کام دے گا۔ ابوعبداللہ ابن ماجہ کہتے ہیں: میں نے ابوالحسن طنافسی سے سنا وہ کہتے تھے کہ میں نے عبدالرحمٰن محاربی سے سنا وہ کہتے تھے: یہ حدیث تو اس لائق ہے کہ مکتب کے استادوں کو دے دی جائے تاکہ وہ مکتب میں بچوں کو یہ حدیث پڑھائیں ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الفتن/حدیث: 4077]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «سنن ابی داود/الملاحم 14 (4322)، (تحفة الأشراف: 4896) (ضعیف)» (سند میں اسماعیل بن رافع ضعیف راوی ہیں، اور عبد الرحمن محاربی مدلس، اور روایت عنعنہ سے کی ہے، بعض ٹکڑے صحیح مسلم میں ہیں)
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قیامت اس وقت تک قائم نہ ہو گی جب تک عیسیٰ بن مریم عادل حاکم اور منصف امام بن کر نازل نہ ہوں، وہ آ کر صلیب کو توڑیں گے، سور کو قتل کریں گے، اور جزیہ کو معاف کر دیں گے، اور مال اس قدر زیادہ ہو گا کہ اسے کوئی قبول کرنے والا نہ ہو گا“۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الفتن/حدیث: 4078]
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یاجوج و ماجوج کھول دئیے جائیں گے، پھر وہ باہر آئیں گے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: «وهم من كل حدب ينسلون»”یہ لوگ ہر اونچی زمین سے دوڑتے آئیں گے“(سورة الأنبياء: 96) پھر ساری زمین میں پھیل جائیں گے، اور مسلمان ان سے علاحدہ رہیں گے، یہاں تک کہ جو مسلمان باقی رہیں گے وہ اپنے شہروں اور قلعوں میں اپنے مویشیوں کو لے کر پناہ گزیں ہو جائیں گے، یہاں تک کہ یاجوج و ماجوج نہر سے گزریں گے، اس کا سارا پانی پی کر ختم کر دیں گے، اس میں کچھ بھی نہ چھوڑیں گے، جب ان کے پیچھے آنے والوں کا وہاں پر گزر ہو گا تو ان میں کا کوئی یہ کہے گا کہ کسی زمانہ میں یہاں پانی تھا، اور وہ زمین پر غالب آ جائیں گے، تو ان میں سے کوئی یہ کہے گا: ان اہل زمین سے تو ہم فارغ ہو گئے، اب ہم آسمان والوں سے لڑیں گے، یہاں تک کہ ان میں سے ایک اپنا نیزہ آسمان کی طرف پھینکے گا، وہ خون میں رنگا ہوا لوٹ کر گرے گا، پس وہ کہیں گے: ہم نے آسمان والوں کو بھی قتل کر دیا، خیر یہ لوگ اسی حال میں ہوں گے کہ اللہ تعالیٰ چند جانور بھیجے گا، جو ٹڈی کے کیڑوں کی طرح ہوں گے، جو ان کی گردنوں میں گھس جائیں گے، یہ سب کے سب ٹڈیوں کی طرح مر جائیں گے، ان میں سے ایک پر ایک پڑا ہو گا، اور جب مسلمان اس دن صبح کو اٹھیں گے، اور ان کی آہٹ نہیں سنیں گے تو کہیں گے: کوئی ایسا ہے جو اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر کے انہیں دیکھ کر آئے کہ یاجوج ماجوج کیا ہوئے؟ چنانچہ مسلمانوں میں سے ایک شخص (قلعہ سے) ان کا حال جاننے کے لیے نیچے اترے گا، اور دل میں خیال کرے گا کہ وہ مجھ کو ضرور مار ڈالیں گے، خیر وہ انہیں مردہ پائے گا، تو مسلمانوں کو پکار کر کہے گا: سنو! خوش ہو جاؤ! تمہارا دشمن ہلاک ہو گیا، یہ سن کر لوگ نکلیں گے اور اپنے جانور چرنے کے لیے آزاد چھوڑیں گے، اور ان کے گوشت کے سوا کوئی چیز انہیں کھانے کے لیے نہ ملے گی، اس وجہ سے ان کا گوشت کھا کھا کر خوب موٹے تازے ہوں گے، جس طرح کبھی گھاس کھا کر موٹے ہوئے تھے“۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الفتن/حدیث: 4079]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 4299، ومصباح الزجاجة: 1439)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/77) (حسن صحیح)»
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یاجوج و ماجوج ہر روز (اپنی دیوار) کھودتے ہیں یہاں تک کہ جب قریب ہوتا ہے کہ سورج کی روشنی ان کو دکھائی دے تو جو شخص ان کا سردار ہوتا ہے وہ کہتا ہے: اب لوٹ چلو (باقی) کل کھودیں گے، پھر اللہ تعالیٰ اسے ویسی ہی مضبوط کر دیتا ہے جیسی وہ پہلے تھی، یہاں تک کہ جب ان کی مدت پوری ہو جائے گی، اور اللہ تعالیٰ کو ان کا خروج منظور ہو گا، تو وہ (عادت کے مطابق) دیوار کھودیں گے جب کھودتے کھودتے قریب ہو گا کہ سورج کی روشنی دیکھیں تو اس وقت ان کا سردار کہے گا کہ اب لوٹ چلو، ان شاءاللہ کل کھودیں گے، اور ان شاءاللہ کا لفظ کہیں گے، چنانچہ (اس دن) وہ لوٹ جائیں گے، اور دیوار اسی حال پر رہے گی، جیسے وہ چھوڑ گئے تھے، پھر وہ صبح آ کر اسے کھودیں گے اور اسے کھود کر باہر نکلیں گے، اور سارا پانی پی کر ختم کر دیں گے، اور لوگ (اس وقت) بھاگ کر اپنے قلعوں میں محصور ہو جائیں گے، یہ لوگ (زمین پر پھیل کر) آسمان کی جانب اپنے تیر ماریں گے، تو ان کے تیر خون میں لت پت ان کے پاس لوٹیں گے، وہ کہیں گے کہ ہم نے زمین والوں کو تو مغلوب کیا، اور آسمان والوں پر بھی غالب ہوئے، پھر اللہ تعالیٰ ان کی گدیوں (گردنوں) میں کیڑے پیدا فرمائے گا جو انہیں مار ڈالیں گے“، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! زمین کے جانور ان کا گوشت اور چربی کھا کر خوب موٹے ہوں گے“۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الفتن/حدیث: 4080]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «سنن الترمذی/التفسیر 19 (3153)، (تحفة الأشراف: 14670)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/510، 511) (صحیح)»
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اسراء (معراج) کی رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابراہیم، موسیٰ اور عیسیٰ علیہم السلام سے ملاقات کی، تو سب نے آپس میں قیامت کا ذکر کیا، پھر سب نے پہلے ابراہیم علیہ السلام سے قیامت کے متعلق پوچھا، لیکن انہیں قیامت کے متعلق کچھ علم نہ تھا، پھر سب نے موسیٰ علیہ السلام سے پوچھا، تو انہیں بھی قیامت کے متعلق کچھ علم نہ تھا، پھر سب نے عیسیٰ بن مریم علیہما السلام سے پوچھا تو انہوں نے فرمایا: قیامت کے آ دھمکنے سے کچھ پہلے (دنیا میں جانے کا) مجھ سے وعدہ لیا گیا ہے، لیکن قیامت کے آنے کا صحیح علم صرف اللہ ہی کو ہے (کہ وہ کب قائم ہو گی)، پھر عیسیٰ علیہ السلام نے دجال کے ظہور کا تذکرہ کیا، اور فرمایا: میں (زمین پر) اتر کر اسے قتل کروں گا، پھر لوگ اپنے اپنے شہروں (ملکوں) کو لوٹ جائیں گے، اتنے میں یاجوج و ماجوج ان کے سامنے آئیں گے، اور ہر بلندی سے وہ چڑھ دوڑیں گے، وہ جس پانی سے گزریں گے اسے پی جائیں گے، اور جس چیز کے پاس سے گزریں گے، اسے تباہ و برباد کر دیں گے، پھر لوگ اللہ سے دعا کرنے کی درخواست کریں گے، میں اللہ سے دعا کروں گا کہ انہیں مار ڈالے (چنانچہ وہ سب مر جائیں گے) ان کی لاشوں کی بو سے تمام زمین بدبودار ہو جائے گی، لوگ پھر مجھ سے دعا کے لیے کہیں گے تو میں پھر اللہ سے دعا کروں گا، تو اللہ تعالیٰ آسمان سے بارش نازل فرمائے گا جو ان کی لاشیں اٹھا کر سمندر میں بہا لے جائے گی، اس کے بعد پہاڑ ریزہ ریزہ کر دئیے جائیں گے، اور زمین چمڑے کی طرح کھینچ کر دراز کر دی جائے گی، پھر مجھے بتایا گیا ہے کہ جب یہ باتیں ظاہر ہوں تو قیامت لوگوں سے ایسی قریب ہو گی جس طرح حاملہ عورت کے حمل کا زمانہ پورا ہو گیا ہو، اور وہ اس انتظار میں ہو کہ کب ولادت کا وقت آئے گا، اور اس کا صحیح وقت کسی کو معلوم نہ ہو۔ عوام (عوام بن حوشب) کہتے ہیں کہ اس واقعہ کی تصدیق اللہ کی کتاب میں موجود ہے: «حتى إذا فتحت يأجوج ومأجوج وهم من كل حدب ينسلون»”یہاں تک کہ جب یاجوج و ماجوج کھول دئیے جائیں گے، تو پھر وہ ہر ایک ٹیلے پر سے چڑھ دوڑیں گے“(سورة الأنبياء: 96)۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الفتن/حدیث: 4081]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 9590، ومصباح الزجاجة: 1440)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/375) (ضعیف)» (مؤثر بن عفازہ مقبول عند المتابعہ ہیں، متابعت کی نہ ہونے وجہ سے یہ حدیث ضعیف ہے، لیکن بعض ٹکڑے صحیح مسلم میں ہیں)
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے، اتنے میں بنی ہاشم کے چند نوجوان آئے، جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں دیکھا، تو آپ کی آنکھیں بھر آئیں، اور آپ کا رنگ بدل گیا، میں نے عرض کیا: ہم آپ کے چہرے میں ہمیشہ کوئی نہ کوئی ایسی بات ضرور دیکھتے ہیں جسے ہم اچھا نہیں سمجھتے (یعنی آپ کے رنج سے ہمیشہ صدمہ ہوتا ہے)، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہم اس گھرانے والے ہیں جن کے لیے اللہ نے دنیا کے مقابلے آخرت پسند کی ہے، میرے بعد بہت جلد ہی میرے اہل بیت مصیبت، سختی، اخراج اور جلا وطنی میں مبتلا ہوں گے، یہاں تک کہ مشرق کی طرف سے کچھ لوگ آئیں گے، جن کے ساتھ سیاہ جھنڈے ہوں گے، وہ خیر (خزانہ) طلب کریں گے، لوگ انہیں نہ دیں گے تو وہ لوگوں سے جنگ کریں گے، اور (اللہ کی طرف سے) ان کی مدد ہو گی، پھر وہ جو مانگتے تھے وہ انہیں دیا جائے گا، (یعنی لوگ ان کی حکومت پر راضی ہو جائیں گے اور خزانہ سونپ دیں گے)، یہ لوگ اس وقت اپنے لیے حکومت قبول نہ کریں گے یہاں تک کہ میرے اہل بیت میں سے ایک شخص کو یہ خزانہ اور حکومت سونپ دیں گے، وہ شخص زمین کو اس طرح عدل سے بھر دے گا جس طرح لوگوں نے اسے ظلم سے بھر دیا تھا، لہٰذا تم میں سے جو شخص اس زمانہ کو پائے وہ ان لوگوں کے ساتھ (لشکر میں) شریک ہو، اگرچہ اسے گھٹنوں کے بل برف پر کیوں نہ چلنا پڑے“۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الفتن/حدیث: 4082]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 9462، ومصباح الزجاجة: 1441) (ضعیف)» (سند میں یزید بن أبی زیاد ضعیف ہیں)