ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے تلبیہ میں یوں کہا: «لبيك إله الحق لبيك»”حاضر ہوں، اے معبود برحق، حاضر ہوں“۔ [سنن ابن ماجه/كتاب المناسك/حدیث: 2920]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ: (تحفة الأشراف: 13941، ومصباح الزجاجة: 1030)، وقد أخرجہ: سنن النسائی/الحج 54 (2753)، مسند احمد (2/341، 352، 476) (صحیح)»
سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب کوئی تلبیہ کہنے والا تلبیہ کہتا ہے، تو اس کے دائیں اور بائیں دونوں جانب سے درخت، پتھر اور ڈھیلے سبھی تلبیہ کہتے ہیں، دونوں جانب کی زمین کے آخری سروں تک“۔ [سنن ابن ماجه/كتاب المناسك/حدیث: 2921]
سائب انصاری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میرے پاس جبرائیل (علیہ السلام) آئے اور مجھے حکم دیا کہ میں اپنے صحابہ سے کہوں کہ تلبیہ بلند آواز سے پکاریں“۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب المناسك/حدیث: 2922]
زید بن خالد جہنی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میرے پاس جبرائیل آئے اور بولے: اے محمد! اپنے صحابہ سے کہو کہ وہ تلبیہ باآواز بلند پکاریں، اس لیے کہ یہ حج کا شعار ہے“۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب المناسك/حدیث: 2923]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 3750، و مصباح الزجاجة: 1031)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/192) (صحیح)»
ابوبکر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا: سب سے بہتر عمل کون سا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” «عج» اور «ثج»“، یعنی باآواز بلند تلبیہ پکارنا، اور خون بہانا (یعنی قربانی کرنا)“۔ [سنن ابن ماجه/كتاب المناسك/حدیث: 2924]
جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”محرم (احرام باندھنے والا) جو چاشت کے وقت سے سورج ڈوبنے تک سارے دن اللہ کے لیے (دھوپ میں) لبیک کہتا رہے، تو سورج اس کے گناہوں کو ساتھ لے کر ڈوبے گا، اور وہ ایسا (بےگناہ) ہو جائے گا گویا اس کی ماں نے جنم دیا ہو“۔ [سنن ابن ماجه/كتاب المناسك/حدیث: 2925]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 2362، ومصباح الزجاجة: 1032)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/273) (ضعیف)» (سند میں عاصم بن عبید اللہ اور عاصم بن عمر بن حفص ضعیف راوی ہیں، نیز ملاحظہ ہو: سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی: 5018)۔
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو احرام کے وقت احرام باندھنے سے قبل خوشبو لگائی، اور احرام کھولنے کے وقت بھی طواف افاضہ کرنے سے پہلے۔ سفیان کی روایت میں یہ بھی ہے کہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: خوشبو میں نے اپنے انہی دونوں ہاتھوں سے لگائی۔ [سنن ابن ماجه/كتاب المناسك/حدیث: 2926]
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: گویا میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مانگ میں خوشبو کی چمک دیکھ رہی ہوں، اور آپ لبیک کہہ رہے ہیں۔ [سنن ابن ماجه/كتاب المناسك/حدیث: 2927]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «صحیح مسلم/الحج 7 (1190)، (تحفة الأشراف: 17645)، وقد أخرجہ: مسند احمد (6/109، 207) (صحیح)»
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ گویا میں تین دن بعد تک خوشبو کی چمک دیکھ رہی ہوں، اور آپ احرام کی حالت میں ہیں۔ [سنن ابن ماجه/كتاب المناسك/حدیث: 2928]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «سنن النسائی/الحج 41 (2695)، 42 (6296، 2704)، (تحفة الأشراف: 16026)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الغسل 14 (267)، الحج 18 (1539)، اللباس 70 (5918)، صحیح مسلم/الحج 7 (1190)، بدون ذکر'' بعد ثلاثة ''، مسند احمد (6/200، 207، 209، 214، 216، 237، 238، 244، 245، 258) (صحیح)»
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک شخص نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: محرم کون سے کپڑے پہنے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا: ”قمیص، عمامے (پگڑیاں)، پاجامے، ٹوپیاں، اور موزے نہ پہنے، البتہ اگر جوتے میسر نہ ہوں تو موزے پہن لے، اور انہیں کاٹ کر ٹخنوں سے نیچے کر لے، اور کوئی ایسا لباس بھی نہ پہنے جس میں زعفران یا ورس لگی ہو ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب المناسك/حدیث: 2929]