الحمدللہ! صحيح ابن خزيمه پیش کر دی گئی ہے۔    


سنن ابي داود کل احادیث (5274)
حدیث نمبر سے تلاش:

سنن ابي داود
كِتَاب الْأَدَبِ
کتاب: آداب و اخلاق کا بیان
93. باب مَنْ يَأْخُذُ الشَّىْءَ عَلَى الْمِزَاحِ
93. باب: ہنسی مذاق میں کوئی کسی کی چیز لے لے تو کیسا ہے؟
حدیث نمبر: 5003
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ ابْنِ أَبِي ذِئْبٍ. ح وحَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الدِّمَشْقِيُّ، حَدَّثَنَا شُعَيْبُ بْنُ إِسْحَاق، عَنْ ابْنِ أَبِي ذِئْبٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ السَّائِبِ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" لَا يَأْخُذَنَّ أَحَدُكُمْ مَتَاعَ أَخِيهِ لَاعِبًا وَلَا جَادًّا، وَقَالَ سُلَيْمَانُ: لَعِبًا وَلَا جِدًّا، وَمَنْ أَخَذَ عَصَا أَخِيهِ فَلْيَرُدَّهَا" , لَمْ يَقُلْ ابْنُ بَشَّارٍ: ابْنَ يَزِيدَ، وَقَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
یزید بن سعید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: تم میں سے کوئی اپنے بھائی کا سامان (بلا اجازت) نہ لے نہ ہنسی میں اور نہ ہی حقیقت میں ۱؎۔ سلیمان کی روایت میں ( «لاعبا ولا جادا‏"‏» کے بجائے) «لعبا ولا جدا» ہے، اور جو کوئی اپنے بھائی کی لاٹھی لے تو چاہیئے کہ (ضرورت پوری کر کے) اسے لوٹا دے۔ ابن بشار نے صرف عبداللہ بن سائب کہا ہے ابن یزید کا اضافہ نہیں کیا ہے اور (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا، کہنے کے بجائے) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہا ہے۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْأَدَبِ/حدیث: 5003]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «‏‏‏‏سنن الترمذی/الفتن 3 (2160)، (تحفة الأشراف: 11827)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/221) (حسن)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: حسن

حدیث نمبر: 5004
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سُلَيْمَانَ الْأَنْبَارِيُّ، حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى، قَالَ: حَدَّثَنَا أَصْحَابُ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَنَّهُمْ كَانُوا يَسِيرُونَ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَنَامَ رَجُلٌ مِنْهُمْ، فَانْطَلَقَ بَعْضُهُمْ إِلَى حَبْلٍ مَعَهُ، فَأَخَذَهُ فَفَزِعَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَا يَحِلُّ لِمُسْلِمٍ أَنْ يُرَوِّعَ مُسْلِمًا".
عبدالرحمٰن بن ابی لیلیٰ سے روایت ہے کہ ہم سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے بیان کیا کہ وہ لوگ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جا رہے تھے، ان میں سے ایک صاحب سو گئے، کچھ لوگ اس رسی کے پاس گئے، جو اس کے پاس تھی اور اسے لے لیا تو وہ ڈر گیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مسلمان کے لیے درست نہیں کہ وہ کسی مسلمان کو ڈرائے ۱؎۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْأَدَبِ/حدیث: 5004]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «‏‏‏‏تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف: 15625)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/362) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

94. باب مَا جَاءَ فِي الْمُتَشَدِّقِ فِي الْكَلاَمِ
94. باب: ٹر ٹر باتیں کرنے والے کا بیان۔
حدیث نمبر: 5005
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سِنَانٍ الْبَاهِلِيُّ , وَكَانَ يَنْزِلُ الْعَوَقَةَ، حَدَّثَنَا نَافِعُ بْنُ عُمَرَ، عَنْ بِشْرِ بْنِ عَاصِمٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قال أبو داود: هُوَ ابْنُ عَمْرٍو، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ يُبْغِضُ الْبَلِيغَ مِنَ الرِّجَالِ الَّذِي يَتَخَلَّلُ بِلِسَانِهِ تَخَلُّلَ الْبَاقِرَةِ بِلِسَانِهَا".
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ دشمنی رکھتا ہے تڑتڑ بولنے والے ایسے لوگوں سے جو اپنی زبان کو ایسے پھراتے ہیں جیسے گائے (گھاس کھانے میں) چپڑ چپڑ کرتی ہے، یعنی بے سوچے سمجھے جو جی میں آتا ہے بکے جاتا ہے۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْأَدَبِ/حدیث: 5005]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «‏‏‏‏سنن الترمذی/الأدب 72 (2853)، (تحفة الأشراف: 8833)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/165، 187) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

حدیث نمبر: 5006
حَدَّثَنَا ابْنُ السَّرْحِ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْمُسَيَّبِ، عَنْ الضَّحَّاكِ بْنِ شُرَحْبِيلَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَنْ تَعَلَّمَ صَرْفَ الْكَلَامِ لِيَسْبِيَ بِهِ قُلُوبَ الرِّجَالِ أَوِ النَّاسِ، لَمْ يَقْبَلِ اللَّهُ مِنْهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ صَرْفًا وَلَا عَدْلًا".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو کوئی باتوں کو گھمانا اس لیے سیکھے کہ اس سے آدمیوں یا لوگوں کے دلوں کو حق بات سے پھیر کر اپنی طرف مائل کر لے، تو اللہ قیامت کے دن اس کی نہ نفل (عبادت) قبول کرے گا اور نہ فرض۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْأَدَبِ/حدیث: 5006]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «‏‏‏‏تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 13510) (ضعیف)» ‏‏‏‏ (سند میں عبداللہ بن مسیب لین الحدیث ہیں)

قال الشيخ الألباني: ضعيف

حدیث نمبر: 5007
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، أَنَّهُ قَالَ:" قَدِمَ رَجُلَانِ مِنَ الْمَشْرِقِ فَخَطَبَا فَعَجِبَ النَّاسُ يَعْنِي لِبَيَانِهِمَا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّ مِنَ الْبَيَانِ لَسِحْرًا، أَوْ إِنَّ بَعْضَ الْبَيَانِ لَسِحْرٌ".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ دو آدمی ۱؎ پورب سے آئے تو ان دونوں نے خطبہ دیا، لوگ حیرت میں پڑ گئے، یعنی ان کے عمدہ بیان سے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بعض تقریریں جادو ہوتی ہیں ۲؎ یعنی سحر کی سی تاثیر رکھتی ہیں راوی کو شک ہے کہ «إن من البيان لسحرا» کہا یا «إن بعض البيان لسحر» کہا۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْأَدَبِ/حدیث: 5007]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «‏‏‏‏صحیح البخاری/النکاح 47 (5146)، الطب 51 (5767)، سنن الترمذی/البر والصلة 81 (2029)، (تحفة الأشراف: 6727)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/16، 59، 62، 94، 4/263) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

حدیث نمبر: 5008
حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ عَبْدِ الْحَمِيدِ الْبَهْرَانِيُّ، أَنَّهُ قَرَأَ فِي أَصْلِ إِسْمَاعِيل بْنِ عَيَّاشٍ، وَحَدَّثَهُ مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيل ابْنُهُ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي، قَالَ:حَدَّثَنِي ضَمْضَمٌ، عَنْ شُرَيْحِ بْنِ عُبَيْدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو ظَبْيَةَ، أَنَّ عَمْرَو ابْنَ الْعَاصِ، قال يَوْمًا وَقَامَ رَجُلٌ فَأَكْثَرَ الْقَوْلَ، فَقَالَ عَمْرٌو:" لَوْ قَصَدَ فِي قَوْلِهِ لَكَانَ خَيْرًا سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: لَقَدْ رَأَيْتُ أَوْ أُمِرْتُ أَنْ أَتَجَوَّزَ فِي الْقَوْلِ، فَإِنَّ الْجَوَازَ هُوَ خَيْرٌ".
ابوظبیہ کا بیان ہے کہ عمرو بن العاص نے ایک دن کہا اور (اس سے پہلے) ایک شخص کھڑے ہو کر بے تحاشہ بولے جا رہا تھا، اس پر عمرو نے کہا: اگر وہ بات میں درمیانی روش اپناتا تو اس کے لیے بہتر ہوتا، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: مجھے مناسب معلوم ہوتا ہے یا مجھے حکم ہوا ہے کہ میں گفتگو میں اختصار سے کام یعنی جتنی بات کافی ہو اسی پر اکتفا کروں اس لیے کہ اختصار ہی بہتر روش ہے۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْأَدَبِ/حدیث: 5008]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «‏‏‏‏تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 10747) (حسن الإسناد)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: حسن الإسناد

95. باب مَا جَاءَ فِي الشِّعْرِ
95. باب: شعر کا بیان۔
حدیث نمبر: 5009
حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ الطَّيَالِسِيُّ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَأَنْ يَمْتَلِئَ جَوْفُ أَحَدِكُمْ قَيْحًا خَيْرٌ لَهُ مِنْ أَنْ يَمْتَلِئَ شِعْرًا" , قال أَبُو عَلِيٍّ: بَلَغَنِي عَنْ أَبِي عُبَيْدٍ، أَنَّهُ قَالَ وَجْهُهُ: أَنْ يَمْتَلِئَ قَلْبُهُ حَتَّى يَشْغَلَهُ عَنِ الْقُرْآنِ وَذِكْرِ اللَّهِ، فَإِذَا كَانَ الْقُرْآنُ وَالْعِلْمُ الْغَالِبَ، فَلَيْسَ جَوْفُ هَذَا عِنْدَنَا مُمْتَلِئًا مِنَ الشِّعْرِ، وَإِنَّ مِنَ الْبَيَانِ لَسِحْرًا , قال: كَأَنَّ الْمَعْنَى: أَنْ يَبْلُغَ مِنْ بَيَانِهِ: أَنْ يَمْدَحَ الْإِنْسَانَ فَيَصْدُقَ فِيهِ حَتَّى يَصْرِفَ الْقُلُوبَ إِلَى قَوْلِهِ، ثُمَّ يَذُمَّهُ فَيَصْدُقَ فِيهِ حَتَّى يَصْرِفَ الْقُلُوبَ إِلَى قَوْلِهِ الْآخَرِ، فَكَأَنَّهُ سَحَرَ السَّامِعِينَ بِذَلِكَ.
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے کسی کے لیے اپنا پیٹ پیپ سے بھر لینا بہتر ہے اس بات سے کہ وہ شعر سے بھرے، ابوعلی کہتے ہیں: مجھے ابو عبید سے یہ بات پہنچی کہ انہوں نے کہا: اس کی شکل (شعر سے پیٹ بھرنے کی) یہ ہے کہ اس کا دل بھر جائے یہاں تک کہ وہ اسے قرآن، اور اللہ کے ذکر سے غافل کر دے اور جب قرآن اور علم اس پر چھایا ہوا ہو تو اس کا پیٹ ہمارے نزدیک شعر سے بھرا ہوا نہیں ہے (اور آپ نے فرمایا) بعض تقریریں جادو ہوتی ہیں یعنی ان میں سحر کی سی تاثیر ہوتی ہے، وہ کہتے ہیں: اس کے معنی گویا یہ ہیں کہ وہ اپنی تقریر میں اس مقام کو پہنچ جائے کہ وہ انسان کی تعریف کرے اور سچی بات (تعریف میں) کہے یہاں تک کہ دلوں کو اپنی بات کی طرف موڑ لے پھر اس کی مذمت کرے اور اس میں بھی سچی بات کہے، یہاں تک کہ دلوں کو اپنی دوسری بات جو پہلی بات کے مخالف ہو کی طرف موڑ دے، تو گویا اس نے سامعین کو اس کے ذریعہ سے مسحور کر دیا۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْأَدَبِ/حدیث: 5009]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «‏‏‏‏صحیح البخاری/الأدب 92 (6155)، صحیح مسلم/الشعر ح 7 (2257)، سنن الترمذی/الأدب 71 (2851)، سنن ابن ماجہ/الأدب 1 (3759)، (تحفة الأشراف: 12404)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/288، 331، 355، 391، 480) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

حدیث نمبر: 5010
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ , حَدَّثَنَا ابْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ يُونُسَ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ هِشَامٍ،عَنْ مَرْوَانَ بْنِ الْحَكَمِ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْأَسْوَدِ بْنِ عَبْدِ يَغُوثَ، عَنْ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" إِنَّ مِنَ الشِّعْرِ حِكْمَةً".
ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بعض اشعار دانائی پر مبنی ہوتے ہیں۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْأَدَبِ/حدیث: 5010]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «‏‏‏‏صحیح البخاری/الأدب 9 (6145)، سنن ابن ماجہ/الأدب 41 (3755)، (تحفة الأشراف: 59)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/125، 126)، سنن الدارمی/الاستئذان 68 (2746) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

حدیث نمبر: 5011
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ سِمَاكٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ:" جَاءَ أَعْرَابِيٌّ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَجَعَلَ يَتَكَلَّمُ بِكَلَامٍ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ مِنَ الْبَيَانِ سِحْرًا، وَإِنَّ مِنَ الشِّعْرِ حُكْمًا".
ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ایک اعرابی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور باتیں کرنے لگا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بعض بیان جادو ہوتے ہیں اور بعض اشعار «حكم» ۱؎ (یعنی حکمت) پر مبنی ہوتے ہیں۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْأَدَبِ/حدیث: 5011]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «‏‏‏‏سنن الترمذی/الأدب 69 (2845)، سنن ابن ماجہ/الأدب 41 (3756)، (تحفة الأشراف: 6106)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/269، 309، 313، 327، 332) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

حدیث نمبر: 5012
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى بْنِ فَارِسٍ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا أَبُو تُمَيْلَةَ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو جَعْفَرٍ النَّحْوِيُّ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ ثَابِتٍ , قَالَ: حَدَّثَنِي صَخْرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بُرَيْدَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" إِنَّ مِنَ الْبَيَانِ سِحْرًا، وَإِنَّ مِنَ الْعِلْمِ جَهْلًا، وَإِنَّ مِنَ الشِّعْرِ حُكْمًا، وَإِنَّ مِنَ الْقَوْلِ عِيَالًا" , فقال صَعْصَعَةُ بْنُ صُوحَانَ: صَدَقَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , أَمَّا قَوْلُهُ: إِنَّ مِنَ الْبَيَانِ سِحْرًا، فَالرَّجُلُ يَكُونُ عَلَيْهِ الْحَقُّ وَهُوَ أَلْحَنُ بِالْحُجَجِ مِنْ صَاحِبِ الْحَقِّ، فَيَسْحَرُ الْقَوْمَ بِبَيَانِهِ فَيَذْهَبُ بِالْحَقِّ، وَأَمَّا قَوْلُهُ: إِنَّ مِنَ الْعِلْمِ جَهْلًا، فَيَتَكَلَّفُ الْعَالِمُ إِلَى عِلْمِهِ مَا لَا يَعْلَمُ فَيُجَهِّلُهُ ذَلِكَ، وَأَمَّا قَوْلُهُ: إِنَّ مِنَ الشِّعْرِ حُكْمًا، فَهِيَ هَذِهِ الْمَوَاعِظُ وَالْأَمْثَالُ الَّتِي يَتَّعِظُ بِهَا النَّاسُ، وَأَمَّا قَوْلُهُ: إِنَّ مِنَ الْقَوْلِ عِيَالًا، فَعَرْضُكَ كَلَامَكَ وَحَدِيثَكَ عَلَى مَنْ لَيْسَ مِنْ شَأْنِهِ وَلَا يُرِيدُهُ.
بریدہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: بعض بیان یعنی گفتگو، خطبہ اور تقریر جادو ہوتی ہیں (یعنی ان میں جادو جیسی تاثیر ہوتی ہے)، بعض علم جہالت ہوتے ہیں، بعض اشعار حکمت ہوتے ہیں، اور بعض باتیں بوجھ ہوتی ہیں۔ تو صعصہ بن صوحان بولے: اللہ کے نبی نے سچ کہا، رہا آپ کا فرمانا بعض بیان جادو ہوتے ہیں، تو وہ یہ کہ آدمی پر دوسرے کا حق ہوتا ہے، لیکن وہ دلائل (پیش کرنے) میں صاحب حق سے زیادہ سمجھ دار ہوتا ہے، چنانچہ وہ اپنی دلیل بہتر طور سے پیش کر کے اس کے حق کو مار لے جاتا ہے۔ اور رہا آپ کا قول بعض علم جہل ہوتا ہے تو وہ اس طرح کہ عالم بعض ایسی باتیں بھی اپنے علم میں ملانے کی کوشش کرتا ہے، جو اس کے علم میں نہیں چنانچہ یہ چیز اسے جاہل بنا دیتی ہے۔ اور رہا آپ کا قول بعض اشعار حکمت ہوتے ہیں اس کا مطلب یہ ہے کہ ان میں کچھ ایسی نصیحتیں اور مثالیں ہوتی ہیں، جن سے لوگ نصیحت حاصل کرتے ہیں، رہا آپ کا قول کہ بعض باتیں بوجھ ہوتی ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ تم اپنی بات یا اپنی گفتگو ایسے شخص پر پیش کرو جو اس کا اہل نہ ہو یا وہ اس کا خواہاں نہ ہو۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْأَدَبِ/حدیث: 5012]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «‏‏‏‏تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 1979، 18817) (ضعیف)» ‏‏‏‏ (سند میں عبداللہ بن ثابت ابوجعفر مجہول اور صخر بن عبداللہ لین الحدیث ہیں)

قال الشيخ الألباني: ضعيف


Previous    20    21    22    23    24    25    26    27    Next