الحمدللہ! صحيح ابن خزيمه پیش کر دی گئی ہے۔    


سنن ابي داود کل احادیث (5274)
حدیث نمبر سے تلاش:

سنن ابي داود
كِتَاب الْأَدَبِ
کتاب: آداب و اخلاق کا بیان
حدیث نمبر: 4953
حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ حَمَّادٍ، أَخْبَرَنَا اللَّيْثُ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاق، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ عَطَاءٍ، أَنَّ زَيْنَبَ بِنْتَ أَبِي سَلَمَةَ سَأَلَتْهُ مَا سَمَّيْتَ ابْنَتَكَ؟ قَالَ: سَمَّيْتُهَا مُرَّةَ , فَقَالَتْ:" إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنْ هَذَا الِاسْمِ , سُمِّيتُ بَرَّةَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَا تُزَكُّوا أَنْفُسَكُمْ، اللَّهُ أَعْلَمُ بِأَهْلِ الْبِرِّ مِنْكُمْ , فَقَالَ: مَا نُسَمِّيهَا؟ قَالَ: سَمُّوهَا زَيْنَبَ".
محمد بن عمرو بن عطا سے روایت ہے کہ زینب بنت ابوسلمہ نے ان سے پوچھا: تم نے اپنی بیٹی کا نام کیا رکھا ہے؟ کہا: میں نے اس کا نام برہ رکھا ہے، انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس نام سے منع کیا ہے، میرا نام پہلے برہ رکھا گیا تھا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: خود سے پاکباز نہ بنو، اللہ خوب جانتا ہے، تم میں پاکباز کون ہے، پھر (میرے گھر والوں میں سے) کسی نے پوچھا: تو ہم اس کا کیا نام رکھیں؟ آپ نے فرمایا: زینب رکھ دو۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْأَدَبِ/حدیث: 4953]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «‏‏‏‏صحیح مسلم/الأداب 3 (2142)، (تحفة الأشراف: 15884) (حسن صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: حسن صحيح

حدیث نمبر: 4954
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا بِشْرٌ يَعْنِي ابْنَ الْمُفَضَّلِ، قَالَ: حَدَّثَنِي بَشِيرُ بْنُ مَيْمُونٍ، عَنْ عَمِّهِ أُسَامَةَ بْنِ أَخْدَرِيٍّ:" أَنَّ رَجُلًا يُقَالُ لَهُ: أَصْرَ مُكَانَ فِي النَّفَرِ الَّذِينَ أَتَوْ الرَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَا اسْمُكَ , قال: أَنَا أَصْرَمُ , قَالَ: بَلْ أَنْتَ زُرْعَةُ".
اسامہ بن اخدری تمیمی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی جسے اصرم (بہت زیادہ کاٹنے والا) کہا جاتا تھا، اس گروہ میں تھا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا تھا تو آپ نے اس سے پوچھا: تمہارا نام کیا ہے؟ اس نے کہا: میں اصرم ہوں، آپ نے فرمایا: نہیں تم اصرم نہیں بلکہ زرعہ (کھیتی لگانے والے) ہو، (یعنی آج سے تمہارا نام زرعہ ہے)۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْأَدَبِ/حدیث: 4954]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «‏‏‏‏تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 83) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

حدیث نمبر: 4955
حَدَّثَنَا الرَّبِيعُ بْنُ نَافِعٍ، عَنْ يَزِيدَ يَعْنِي ابْنَ الْمِقْدَامِ بْنِ شُرَيْحٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ شُرَيْحٍ، عَنْ أَبِيهِ هَانِئٍ،" أَنَّهُ لَمَّا وَفَدَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَعَ قَوْمِهِ سَمِعَهُمْ يَكْنُونَهُ بابي الْحَكَمِ، فَدَعَاهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: إِنَّ اللَّهَ هُوَ الْحَكَمُ وَإِلَيْهِ الْحُكْمُ، فَلِمَ تُكْنَىبابا الْحَكَمِ , فَقَالَ: إِنَّ قَوْمِي إِذَا اخْتَلَفُوا فِي شَيْءٍ أَتَوْنِي فَحَكَمْتُ بَيْنَهُمْ، فَرَضِيَ كِلَا الْفَرِيقَيْنِ , فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَا أَحْسَنَ هَذَا، فَمَا لَكَ مِنَ الْوَلَدِ؟ , قَالَ: لِي شُرَيْحٌ، وَمُسْلِمٌ، وَعَبْدُ اللَّهِ , قَالَ: فَمَنْ أَكْبَرُهُمْ؟ قُلْتُ: شُرَيْحٌ , قَالَ: فَأَنْتَ أَبُو شُرَيْحٍ" , قَالَ أبو داود: شُرَيْحٌ هَذَا: هُوَ الَّذِي كَسَرَ السِّلْسِلَةَ، وَهُوَ مِمَّنْ دَخَلَ تُسْتَرَ، قَالَ أبو داود: وَبَلَغَنِي أَنَّ شُرَيْحًا كَسَرَ باب تُسْتَرَ، وَذَلِك أَنْهُ دَخَلَ مِنْ سِرْبٍ.
ابوشریح ہانی کندی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اپنی قوم کے ساتھ وفد میں آئے، تو آپ نے ان لوگوں کو سنا کہ وہ انہیں ابوالحکم کی کنیت سے پکار رہے تھے، آپ نے انہیں بلایا، اور فرمایا: حکم تو اللہ ہے، اور حکم اسی کا ہے تو تمہاری کنیت ابوالحکم کیوں ہے؟ انہوں نے کہا: میری قوم کے لوگوں کا جب کسی معاملے میں اختلاف ہوتا ہے تو وہ میرے پاس آتے ہیں اور میں ہی ان کے درمیان فیصلہ کرتا ہوں اور دونوں فریق اس پر راضی ہو جاتے ہیں، آپ نے فرمایا: یہ تو اچھی بات ہے، تو کیا تمہارے کچھ لڑکے بھی ہیں؟ انہوں نے کہا: شریح، مسلم اور عبداللہ میرے بیٹے ہیں آپ نے پوچھا: ان میں بڑا کون ہے؟ میں نے عرض کیا: شریح آپ نے فرمایا: تو تم ابوشریح ہو۔ ابوداؤد کہتے ہیں: شریح ہی وہ شخص ہیں جس نے زنجیر توڑی تھی اور یہ ان لوگوں میں سے تھے جو تستر میں فاتحانہ داخل ہوئے تھے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: مجھے یہ خبر پہنچی ہے کی شریح نے ہی تستر کا دروازہ توڑا تھا اور وہی نالے کے راستے سے اس میں داخل ہوئے تھے۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْأَدَبِ/حدیث: 4955]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «‏‏‏‏سنن النسائی/آداب القضاة 7 (5389)، (تحفة الأشراف: 11725) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

حدیث نمبر: 4956
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْرَّزَّاقِ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ لَهُ:" مَا اسْمُكَ , قَالَ: حَزْنٌ , قَالَ: أَنْتَ سَهْلٌ , قَالَ: لَا، السَّهْلُ يُوطَأُ وَيُمْتَهَنُ" , قَالَ سَعِيدٌ: فَظَنَنْتُ أَنَّهُ سَيُصِيبُنَا بَعْدَهُ حُزُونَةٌ، قَالَ أبو داود: وَغَيَّرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اسْمَ الْعَاصِ، وَعَزِيزٍ، وَعَتَلَةَ، وَشَيْطَانٍ، وَالْحَكَمِ، وَغُرَابٍ، وَحُباب، وَشِهَابٍ، فَسَمَّاهُ: هِشَامًا، وَسَمَّى حَرْبًا: سَلْمًا، وَسَمَّى الْمُضْطَجِعَ: الْمُنْبَعِثَ، وَأَرْضًا تُسَمَّى عَفِرَةَ سَمَّاهَا: خَضِرَةَ، وَشَعْبَ الضَّلَالَةِ سَمَّاهُ: شَعْبَ الْهُدَى، وَبَنُو الزِّنْيَةِ سَمَّاهُمْ: بَنِي الرِّشْدَةِ، وَسَمَّى بَنِي مُغْوِيَةَ: بَنِي رِشْدَةَ , قَالَ أبو داود: تَرَكْتُ أَسَانِيدَهَا لِلِاخْتِصَارِ.
سعید بن مسیب کے دادا (حزن رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا: تمہارا نام کیا ہے؟ کہا: حزن ۱؎ آپ نے فرمایا: تم سہل ہو، انہوں نے کہا: نہیں، سہل روندا جانا اور ذلیل کیا جانا ہے، سعید کہتے ہیں: تو میں نے جانا کہ اس کے بعد ہم لوگوں کو دشواری پیش آئے گی (اس لیے کہ میرے دادا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بتایا ہوا نام ناپسند کیا تھا)۔ ابوداؤد کہتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عاص (گنہگار) عزیز (اللہ کا نام ہے)، عتلہ (سختی) شیطان، حکم (اللہ کی صفت ہے)، غراب (کوے کو کہتے ہیں اور اس کے معنی دوری اور غربت کے ہیں)، حباب (شیطان کا نام) اور شہاب (شیطان کو بھگانے والا ایک شعلہ ہے) کے نام بدل دیئے اور شہاب کا نام ہشام رکھ دیا، اور حرب (جنگ) کے بدلے سلم (امن) رکھا، مضطجع (لیٹنے والا) کے بدلے منبعث (اٹھنے والا) رکھا، اور جس زمین کا نام عفرۃ (بنجر اور غیر آباد) تھا، اس کا خضرہ (سرسبز و شاداب) رکھا، شعب الضلالۃ (گمراہی کی گھاٹی) کا نام شعب الہدی (ہدایت کی گھاٹی) رکھا، اور بنو زنیہ کا نام بنو رشدہ اور بنو مغویہ کا نام بنو رشدہ رکھ دیا۔ ابوداؤد کہتے ہیں: میں نے اختصار کی غرض سے ان سب کی سندیں چھوڑ دی ہیں۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْأَدَبِ/حدیث: 4956]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «‏‏‏‏صحیح البخاری/الأداب 107 (6190)، 108 (6193)، (تحفة الأشراف: 3400)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/433) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

حدیث نمبر: 4957
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ , حَدَّثَنَا هَاشِمُ بْنُ الْقَاسِمِ، حَدَّثَنَا أَبُو عَقِيلٍ، حَدَّثَنَا مُجَالِدُ بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ الشَّعْبِيِّ، عَنْ مَسْرُوقٍ، قَالَ:" لَقِيتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَقَالَ: مَنْ أَنْتَ؟ , قُلْتُ: مَسْرُوقُ بْنُ الْأَجْدَعِ , فَقَالَ عُمَرُ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:الْأَجْدُعُ شَيْطَانٌ".
مسروق کہتے ہیں کہ میں عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے ملا تو انہوں نے پوچھا: تم کون ہو؟ میں نے کہا: مسروق بن اجدع، تو آپ نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: اجدع تو شیطان ہے۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْأَدَبِ/حدیث: 4957]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «‏‏‏‏سنن ابن ماجہ/الأدب 31 (3731)، (تحفة الأشراف: 10641)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/31) (ضعیف)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: ضعيف

حدیث نمبر: 4958
حَدَّثَنَا النُّفَيْلِيُّ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ، حَدَّثَنَا مَنْصُورُ بْنُ الْمُعْتَمِرِ، عَنْ هِلَالِ بْنِ يَسَافٍ، عَنْ رَبِيعِ بْنِ عُمَيْلَةَ، عَنْ سَمُرَةَ بْنِ جُنْدُبٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَا تُسَمِّيَنَّ غُلَامَكَ يَسَارًا، وَلَا رَبَاحًا، وَلَا نَجِيحًا، وَلَا أَفْلَحَ فَإِنَّكَ تَقُولُ: أَثَمَّ هُوَ؟، فَيَقُولُ: لَا، إِنَّمَا هُنَّ أَرْبَعٌ فَلَا تَزِيدَنَّ عَلَيَّ".
سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم اپنے بچے یا اپنے غلام کا نام یسار، رباح، نجیح اور افلح ہرگز نہ رکھو، اس لیے کہ تم پوچھو گے: کیا وہاں ہے وہ؟ تو جواب دینے والا کہے گا: نہیں (تو تم اسے بدفالی سمجھ کر اچھا نہ سمجھو گے) (سمرہ نے کہا) یہ تو بس چار ہیں اور تم اس سے زیادہ مجھ سے نہ نقل کرنا۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْأَدَبِ/حدیث: 4958]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «‏‏‏‏صحیح مسلم/الأداب 2 (2136)، سنن الترمذی/الأدب 65 (2836)، سنن ابن ماجہ/الأدب 31 (3730)، (تحفة الأشراف: 4612)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/7، 10، 12، 21)، سنن الدارمی/الاستئذان 61 (2738) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

حدیث نمبر: 4959
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنَا الْمُعْتَمِرُ، قَالَ: سَمِعْتُ الرُّكَيْنَ يُحَدِّثُ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ سَمُرَةَ، قَالَ:" نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ نُسَمِّيَ رَقِيقَنَا أَرْبَعَةَ أَسْمَاءٍ: أَفْلَحَ، وَيَسَارًا، وَنَافِعًا، وَرَبَاحًا".
سمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا کہ ہم افلح، یسار، نافع اور رباح ان چار ناموں میں سے کوئی اپنے غلاموں یا بچوں کا رکھیں۔   [سنن ابي داود/كِتَاب الْأَدَبِ/حدیث: 4959]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «‏‏‏‏انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف: 4612) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

حدیث نمبر: 4960
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ , حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي سُفْيَانَ، عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنْ عِشْتُ إِنْ شَاءَ اللَّهُ أَنْهَى أُمَّتِي أَنْ يُسَمُّوا نَافِعًا، وَأَفْلَحَ، وَبَرَكَةَ" , قَالَ الْأَعْمَشُ: وَلَا أَدْرِي ذَكَرَ نَافِعًا أَمْ لَا، فَإِنَّ الرَّجُلَ يَقُولُ: إِذَا جَاءَ أَثَمَّ بَرَكَةُ؟ , فَيَقُولُونَ: لَا , قَالَ أبو داود: رَوَى أَبُو الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، نَحْوَهُ لَمْ يَذْكُرْ بَرَكَةَ.
جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر اللہ نے چاہا اور میں زندہ رہا تو میں اپنی امت کو نافع، افلح اور برکت نام رکھنے سے منع کر دوں گا، (اعمش کہتے ہیں: مجھے نہیں معلوم انہوں (سفیان) نے نافع کا ذکر کیا یا نہیں) اس لیے کہ آدمی جب آئے گا تو پوچھے گا: کیا برکت ہے؟ تو لوگ کہیں گے: نہیں، (تو لوگ اسے بدفالی سمجھ کر اچھا نہ سمجھیں گے)۔ ابوداؤد کہتے ہیں: ابوزبیر نے جابر سے انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی طرح روایت کی ہے البتہ اس میں برکت کا ذکر نہیں ہے۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْأَدَبِ/حدیث: 4960]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «‏‏‏‏تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف: 2330)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/388) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

حدیث نمبر: 4961
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ، عَنْ الْأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ يَبْلُغُ بِهِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" أَخْنَعُ: اسْمٍ عِنْدَ اللَّهِ تَبَارَكَ وَتَعَالَى يَوْمَ الْقِيَامَةِ رَجُلٌ تَسَمَّى مَلِكَ الْأَمْلَاكِ" , قَالَ أبو داود: رَوَاهُ شُعَيْبُ بْنُ أَبِي حَمْزَةَ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ بِإِسْنَادِهِ، قَالَ: أَخْنَى اسْمٍ.
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سب سے ذلیل نام والا اللہ کے نزدیک قیامت کے دن وہ شخص ہو گا جسے لوگ شہنشاہ کہتے ہوں۔ ابوداؤد کہتے ہیں: شعیب بن ابی حمزہ نے اسے ابوالزناد سے، اسی سند سے روایت کیا ہے، اور اس میں انہوں نے «أخنع اسم» کے بجائے «أخنى اسم» کہا ہے، (جس کے معنیٰ سب سے فحش اور قبیح نام کے ہیں)۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْأَدَبِ/حدیث: 4961]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «‏‏‏‏صحیح البخاری/الأدب 114 (6206)، صحیح مسلم/الأداب 4 (2143)، سنن الترمذی/الأدب 65 (2837)، (تحفة الأشراف: 13672)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/244) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

71. باب فِي الأَلْقَابِ
71. باب: القاب کا بیان۔
حدیث نمبر: 4962
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيل، حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ، عَنْ دَاوُدَ، عَنْ عَامِرٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو جَبِيرَةَ بْنُ الضَّحَّاكِ، قَالَ:" فِينَا نَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ فِي بَنِي سَلَمَةَ: وَلا تَنَابَزُوا بِالأَلْقَابِ بِئْسَ الاسْمُ الْفُسُوقُ بَعْدَ الإِيمَانِ سورة الحجرات آية 11 , قَالَ: قَدِمَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَلَيْسَ مِنَّا رَجُلٌ إِلَّا وَلَهُ اسْمَانِ أَوْ ثَلَاثَةٌ، فَجَعَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: يَا فُلَانُ , فَيَقُولُونَ مَهْ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ إِنَّهُ يَغْضَبُ مِنْ هَذَا الِاسْمِ، فَأُنْزِلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ: وَلا تَنَابَزُوا بِالأَلْقَابِ سورة الحجرات آية 11".
ابوجبیرہ بن ضحاک کہتے ہیں کہ ہمارے یعنی بنو سلمہ کے سلسلے میں یہ آیت نازل ہوئی «ولا تنابزوا بالألقاب بئس الاسم الفسوق بعد الإيمان» ایک دوسرے کو برے ناموں سے نہ پکارو، ایمان کے بعد برے نام سے پکارنا برا ہے (الحجرات: ۱۱) ہمارے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آئے اور ہم میں کوئی شخص ایسا نہیں تھا جس کے دو یا تین نام نہ ہوں، تو آپ نے پکارنا شروع کیا: اے فلاں، تو لوگ کہتے: اللہ کے رسول! اس نام سے نہ پکاریئے، وہ اس نام سے چڑھتا ہے، تو یہ آیت نازل ہوئی «ولا تنابزوا بالألقاب» ۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْأَدَبِ/حدیث: 4962]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «‏‏‏‏سنن الترمذی/ تفسیر القرآن 49 (3268)، سنن ابن ماجہ/الأدب 35 (3741)، (تحفة الأشراف: 11882)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/69، 260، 5/380) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح


Previous    15    16    17    18    19    20    21    22    23    Next