کثیر بن قیس کہتے ہیں کہ میں ابو الدرداء رضی اللہ عنہ کے ساتھ دمشق کی مسجد میں بیٹھا تھا کہ اتنے میں ان کے پاس ایک شخص آیا اور ان سے کہنے لگا: اے ابو الدرداء! میں آپ کے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے شہر سے اس حدیث کے لیے آیا ہوں جس کے متعلق مجھے یہ خبر ملی ہے کہ آپ اسے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں میں آپ کے پاس کسی اور غرض سے نہیں آیا ہوں، اس پر ابوالدرداء نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے: ”جو شخص طلب علم کے لیے راستہ طے کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے بدلے اسے جنت کی راہ چلاتا ہے اور فرشتے طالب علم کی بخشش کی دعا کرتے ہیں یہاں تک کہ مچھلیاں پانی میں دعائیں کرتی ہیں، اور عالم کی فضیلت عابد پر ایسے ہی ہے جیسے چودھویں رات کی تمام ستاروں پر، اور علماء انبیاء کے وارث ہیں، اور نبیوں نے اپنا وارث درہم و دینار کا نہیں بنایا بلکہ علم کا وارث بنایا تو جس نے علم حاصل کیا اس نے ایک وافر حصہ لیا“۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْعِلْمِ/حدیث: 3641]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «سنن الترمذی/العلم 19 (2682)، سنن ابن ماجہ/المقدمة 17 (223)، (تحفة الأشراف: 10958)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/196)، سنن الدارمی/المقدمة 32 (354) (صحیح)» (متابعات سے تقویت پاکر یہ حدیث صحیح ہے، ورنہ داود اور کثیر دونوں ضعیف ہیں، ملاحظہ ہو: زہد وکیع نمبر: 519 بتحقیق الفریوائی)
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص حصول علم کے لیے کوئی راستہ طے کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی وجہ سے اس کے لیے جنت کا راستہ آسان کر دیتا ہے، اور جس کو اس کے عمل نے پیچھے کر دیا تو اسے اس کا نسب آگے نہیں کر سکے گا“۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْعِلْمِ/حدیث: 3643]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 12377)، وقد أخرجہ: صحیح مسلم/الذکر والتوبة 11 (2699)، سنن الترمذی/العلم 2 (2646)، سنن ابن ماجہ/المقدمة 17 (226)، مسند احمد (2/252)، سنن الدارمی/المقدمة 32 (356) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
2. باب رِوَايَةِ حَدِيثِ أَهْلِ الْكِتَابِ
2. باب: اہل کتاب (یہود و نصاریٰ) کی باتوں کی روایت کا حکم۔
ابونملہ انصاری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے اور آپ کے پاس ایک یہودی بھی تھا کہ اتنے میں ایک جنازہ لے جایا گیا تو یہودی نے کہا: اے محمد! کیا جنازہ بات کرتا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ بہتر جانتا ہے“ یہودی نے کہا: جنازہ بات کرتا ہے (مگر دنیا کے لوگ نہیں سنتے) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو بات تم سے اہل کتاب بیان کریں نہ تو تم ان کی تصدیق کرو نہ تکذیب، بلکہ یوں کہو: ہم ایمان لائے اللہ اور اس کے رسولوں پر، اگر وہ بات جھوٹ ہو گی تو تم نے اس کی تصدیق نہیں کی، اور اگر سچ ہو گی تو تم نے اس کی تکذیب نہیں کی“۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْعِلْمِ/حدیث: 3644]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ، أبوداود، (تحفة الأشراف: 12177)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/136) (ضعیف)» (اس کے راوی ابن ابی نملہ لین الحدیث ہیں)
زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے حکم دیا تو میں نے آپ کی خاطر یہودیوں کی تحریر سیکھ لی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قسم اللہ کی میں اپنی خط و کتابت کے سلسلہ میں یہودیوں سے مامون نہیں ہوں“ تو میں اسے سیکھنے لگا، ابھی آدھا مہینہ بھی نہیں گزرا تھا کہ میں نے اس میں مہارت حاصل کر لی، پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کچھ لکھوانا ہوتا تو میں ہی لکھتا اور جب کہیں سے کوئی مکتوب آتا تو اسے میں ہی پڑھتا۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْعِلْمِ/حدیث: 3645]
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں میں ہر اس حدیث کو جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنتا یاد رکھنے کے لیے لکھ لیتا، تو قریش کے لوگوں نے مجھے لکھنے سے منع کر دیا، اور کہا: کیا تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہر سنی ہوئی بات کو لکھ لیتے ہو؟ حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بشر ہیں، غصے اور خوشی دونوں حالتوں میں باتیں کرتے ہیں، تو میں نے لکھنا چھوڑ دیا، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی انگلی سے اپنے منہ کی طرف اشارہ کیا اور فرمایا: ”لکھا کرو، قسم اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اس سے حق بات کے سوا کچھ نہیں نکلتا“۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْعِلْمِ/حدیث: 3646]
مطلب بن عبداللہ بن حنطب کہتے ہیں کہ زید بن ثابت رضی اللہ عنہ معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور ان سے ایک حدیث کے متعلق پوچھا، تو انہوں نے ایک شخص کو اس حدیث کے لکھنے کا حکم دیا، تو زید رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا ہے کہ ہم آپ کی حدیثوں میں سے کچھ نہ لکھیں تو انہوں نے اسے مٹا دیا ۱؎۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْعِلْمِ/حدیث: 3647]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 3740)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/182) (ضعیف الإسناد)» (اس کے راواة کثیر اور مطلب متکلم فیہ ہیں)
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں ہم لوگ تشہد اور قرآن کے علاوہ کچھ نہیں لکھتے تھے۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْعِلْمِ/حدیث: 3648]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 4258) (شاذ)» (اس کے راوی ابو شہاب حَنَّاط حافظہ کے کمزور ہیں، اور ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے صحیح روایت تو یہ ہے کہ قرآن کے سوا اور کچھ مت لکھو)
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں جب مکہ فتح ہوا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے، پھر انہوں نے (ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے خطبہ کا ذکر کیا، پھر کہا کہ ایک یمنی شخص کھڑا ہوا جسے ابو شاہ کہا جاتا تھا، اور اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میرے لیے (یہ خطبہ) لکھ دیجئیے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ابو شاہ کے لیے لکھ دو“۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْعِلْمِ/حدیث: 3649]
ولید (ولید بن مزید) کہتے ہیں میں نے ابوعمرو (اوزاعی) سے کہا: ”وہ لوگ لکھ دیں“ سے کیا مراد ہے؟ انہوں نے کہا: وہ خطبہ جسے آپ سے اس روز ابوشاہ نے سنا تھا۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْعِلْمِ/حدیث: 3650]