عمران بن حصین رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو کسی دباؤ میں آ کر (یا دیدہ و دانستہ) جھوٹی قسم کھا لے تو چاہیئے کہ اس کے سبب وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنا لے ۱؎“۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْأَيْمَانِ وَالنُّذُورِ/حدیث: 3242]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «* تخريج:تفرد بہ أبوداود، 1(تحفة الأشراف: 10842)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/436، 441) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
2. باب فِيمَنْ حَلَفَ يَمِينًا لِيَقْتَطِعَ بِهَا مَالاً لأَحَدٍ
2. باب: جھوٹی قسم کھا کر کسی کا مال ہڑپ کر لینا کیسا ہے؟
عبداللہ (عبداللہ بن مسعود) رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو کسی بات پر جھوٹی قسم کھائے تاکہ اس سے کسی مسلمان کا مال ہڑپ لے تو وہ اللہ سے اس حال میں ملے گا کہ اللہ اس پر غضبناک ہو گا“۔ اشعث رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: قسم اللہ کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات میرے ایک مقدمے میں (جو میرے اور ایک یہودی کے درمیان تھا) فرمائی تھی، میرے اور ایک یہودی کے درمیان ایک زمین مشترک تھی، یہودی نے میرے حصہ کا انکار کیا تو میں اس کو لے کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے پوچھا: ”تمہارے پاس گواہ ہیں؟“ میں نے کہا: نہیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہودی سے کہا: ”تم قسم کھاؤ“ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! یہ تو قسم کھا کر میرا مال ہڑپ کر لے گا، تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت «إن الذين يشترون بعهد الله وأيمانهم ثمنا قليلا»”بیشک جو لوگ اللہ کے عہد اور اپنی قسموں کو تھوڑی قیمت پر بیچ ڈالتے ہیں، ان کے لیے آخرت میں کوئی حصہ نہیں“(سورۃ آل عمران: ۷۷) آخیر تک نازل فرمائی ۱؎۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْأَيْمَانِ وَالنُّذُورِ/حدیث: 3243]
اشعث بن قیس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ یمن کی ایک زمین کے سلسلے میں کندہ کے ایک آدمی اور حضر موت کے ایک آدمی نے جھگڑا کیا اور دونوں اپنا مقدمہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے گئے، حضرمی نے کہا: اللہ کے رسول! میری زمین کو اس شخص کے باپ نے مجھ سے چھین لی تھی اور اب وہ زمین اس شخص کے قبضہ میں ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا: ”تمہارے پاس «بیّنہ»(ثبوت اور دلیل) ہے؟“ اس نے کہا: نہیں، لیکن میں اسے قسم دلانا چاہوں گا، اور اللہ کو خوب معلوم ہے کہ یہ میری زمین ہے جسے اس کے باپ نے مجھ سے غصب کر لی تھی، (یہ سن کر) کندی قسم کھانے کے لیے تیار ہو گیا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (اس وقت) فرمایا: ”جو شخص کسی کا مال قسم کھا کر ہڑپ کر لے گا تو قیامت کے دن وہ اللہ سے کوڑھی ہو کر ملے گا“(یہ سنا تو) کندی نے کہا: یہ اسی کی زمین ہے۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْأَيْمَانِ وَالنُّذُورِ/حدیث: 3244]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «سنن النسائی/الکبری 47 (6002)، سنن ابن ماجہ/الجھاد 29 (2835)، (تحفة الأشراف: 159)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/211، 212) ویأتی ہذا الحدیث فی الأقضیة (3622) (صحیح)»
وائل بن حجر حضرمی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ حضر موت کا ایک شخص اور کندہ کا ایک شخص دونوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، حضرمی نے کہا: اللہ کے رسول! اس شخص نے میرے والد کی ایک زمین مجھ سے چھین لی ہے، کندی نے کہا: واہ یہ میری زمین ہے، میرے قبضے میں ہے میں خود اس میں کھیتی کرتا ہوں اس میں اس کا کوئی حق نہیں ہے۔ راوی کہتے ہیں: تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرمی سے پوچھا: ”کیا تمہارے پاس گواہ ہیں؟“ اس نے کہا: نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پھر تو تمہارے لیے اس کی جانب سے قسم ہے“(جیسی وہ قسم کھا لے اسی کے مطابق فیصلہ ہو جائے گا)، حضرمی نے کہا: اللہ کے رسول: وہ تو فاجر ہے کسی بھی قسم کی پرواہ نہیں کرتا، کسی بھی چیز سے نہیں ڈرتا، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”(وہ کچھ بھی ہو) تمہارے لیے تو بس اس سے اتنا ہی حق ہے (یعنی تم اس سے بس قسم کھلا سکتے ہو)“ پھر وہ قسم کھانے چلا، تو اس کے مڑتے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”دیکھو اگر کسی کا مال ہڑپ کرنے کے لیے اس نے جھوٹی قسم کھا لی تو وہ اللہ سے اس حال میں ملے گا کہ اللہ اس سے منہ پھیرے ہو گا ۱؎“۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْأَيْمَانِ وَالنُّذُورِ/حدیث: 3245]
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص میرے منبر کے پاس جھوٹی قسم کھائے گا اگرچہ ایک تازی مسواک کے لیے کھائے تو سمجھ لو اس نے اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنا لیا“ یا یہ کہا: ”جہنم اس پر واجب ہو گئی ۱؎“۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْأَيْمَانِ وَالنُّذُورِ/حدیث: 3246]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «سنن ابن ماجہ/الأحکام 9 (2325)، (تحفة الأشراف: 2376)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/الأقضیة 8 (10)، مسند احمد (3/344) (صحیح)»
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو کوئی قسم کھائے اور اپنی قسم میں یوں کہے کہ میں لات کی قسم کھاتا ہوں تو چاہیئے کہ وہ «لا إله إلا الله» کہے، اور جو کوئی اپنے دوست سے کہے کہ آؤ ہم تم جوا کھیلیں تو اس کو چاہیئے کہ کچھ نہ کچھ صدقہ کرے“(تاکہ شرک اور کلمہ شرک کا کفارہ ہو جائے)۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْأَيْمَانِ وَالنُّذُورِ/حدیث: 3247]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «صحیح البخاری/تفسیر سورة النجم 2 (4860)، الأدب 74 (6107)، الاستئذان 52 (6301)، الأیمان 5 (6650)، صحیح مسلم/الأیمان 2 (1648)، سنن الترمذی/الأیمان 17 (1545)، سنن النسائی/الأیمان 10 (3806)، سنن ابن ماجہ/الکفارات 2 (2096)، (تحفة الأشراف: 12276)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/309) (صحیح)»
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم اپنے باپ دادا کی قسم نہ کھاؤ، نہ اپنی ماؤں کی قسم کھانا، اور نہ ان کی قسم کھانا جنہیں لوگ اللہ کا شریک ٹھہراتے ہیں، تم صرف اللہ کی قسم کھانا، اور اللہ کی بھی قسم اسی وقت کھاؤ جب تم سچے ہو“۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْأَيْمَانِ وَالنُّذُورِ/حدیث: 3248]
عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اس حال میں پایا کہ وہ ایک قافلہ میں تھے اور اپنے باپ کی قسم کھا رہے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ تمہیں اپنے باپ دادا کی قسم کھانے سے روکتا ہے اگر کسی کو قسم کھانی ہی ہے تو اللہ کی قسم کھائے ورنہ خاموش رہے“۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْأَيْمَانِ وَالنُّذُورِ/حدیث: 3249]
عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ مجھے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے (غیر اللہ کی قسم کھاتے ہوئے) سنا، پھر راوی نے اسی مفہوم کی حدیث: «بآبائكم» تک بیان کی، اس میں اتنا اضافہ ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: قسم اللہ کی پھر میں نے نہ جان بوجھ کر اس کی قسم کھائی، اور نہ ہی کسی کی بات نقل کرتے ہوئے۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْأَيْمَانِ وَالنُّذُورِ/حدیث: 3250]
سعد بن عبیدہ کہتے ہیں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے ایک شخص کو کعبہ کی قسم کھاتے ہوئے سنا تو ابن عمر رضی اللہ عنہما نے اس سے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے: ”جس نے اللہ کے سوا کسی اور کے نام کی قسم کھائی تو اس نے شرک کیا“۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْأَيْمَانِ وَالنُّذُورِ/حدیث: 3251]