خضر کے تیر انداز بھائی عامر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں اپنے ملک میں تھا کہ یکایک ہمارے لیے جھنڈے اور پرچم لہرائے گئے تو میں نے پوچھا: یہ کیا ہے؟ لوگوں نے بتایا کہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا پرچم ہے، تو میں آپ کے پاس آیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک درخت کے نیچے ایک کمبل پر جو آپ کے لیے بچھایا گیا تھا تشریف فرما تھے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اردگرد آپ کے اصحاب اکٹھا تھے، میں بھی جا کر انہیں میں بیٹھ گیا ۱؎، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیماریوں کا ذکر فرمایا: ”جب مومن بیمار پڑتا ہے پھر اللہ تعالیٰ اس کو اس کی بیماری سے عافیت بخشتا ہے تو وہ بیماری اس کے پچھلے گناہوں کا کفارہ ہو جاتی ہے اور آئندہ کے لیے نصیحت، اور جب منافق بیمار پڑتا ہے پھر اسے عافیت دے دی جاتی ہے تو وہ اس اونٹ کے مانند ہے جسے اس کے مالک نے باندھ رکھا ہو پھر اسے چھوڑ دیا ہو، اسے یہ نہیں معلوم کہ اسے کس لیے باندھا گیا اور کیوں چھوڑ دیا گیا“۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اردگرد موجود لوگوں میں سے ایک شخص نے آپ سے عرض کیا: اللہ کے رسول! بیماریاں کیا ہیں؟ اللہ کی قسم میں کبھی بیمار نہیں ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تو اٹھ جا، تو ہم میں سے نہیں ہے“۲؎۔ عامر کہتے ہیں: ہم لوگ بیٹھے ہی تھے کہ ایک کمبل پوش شخص آیا جس کے ہاتھ میں کوئی چیز تھی جس پر کمبل لپیٹے ہوئے تھا، اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول! جب میں نے آپ کو دیکھا تو آپ کی طرف آ نکلا، راستے میں درختوں کا ایک جھنڈ دیکھا اور وہاں چڑیا کے بچوں کی آواز سنی تو انہیں پکڑ کر اپنے کمبل میں رکھ لیا، اتنے میں ان بچوں کی ماں آ گئی، اور وہ میرے سر پر منڈلانے لگی، میں نے اس کے لیے ان بچوں سے کمبل ہٹا دیا تو وہ بھی ان بچوں پر آ گری، میں نے ان سب کو اپنے کمبل میں لپیٹ لیا، اور وہ سب میرے ساتھ ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ان کو یہاں رکھو“، میں نے انہیں رکھ دیا، لیکن ماں نے اپنے بچوں کا ساتھ نہیں چھوڑا، تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب سے فرمایا: ”کیا تم اس چڑیا کے اپنے بچوں کے ساتھ محبت کرنے پر تعجب کرتے ہو؟“، صحابہ نے عرض کیا: ہاں، اللہ کے رسول! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قسم ہے اس ذات کی جس نے مجھے سچا پیغمبر بنا کر بھیجا ہے، اللہ تعالیٰ اپنے بندوں سے اس سے کہیں زیادہ محبت رکھتا ہے جتنی یہ چڑیا اپنے بچوں سے رکھتی ہے، تم انہیں ان کی ماں کے ساتھ لے جاؤ اور وہیں چھوڑ آؤ جہاں سے انہیں لائے ہو“، تو وہ شخص انہیں واپس چھوڑ آیا۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْجَنَائِزِ/حدیث: 3089]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 5056) (ضعیف)» (اس کے راوی ابو منظور شامی مجہول ہیں)
خالد سلمی اپنے والد سے (جنہیں شرف صحبت حاصل ہے) روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بیان کرتے ہوئے سنا: ”جب بندے کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی ایسا رتبہ مل جاتا ہے جس تک وہ اپنے عمل کے ذریعہ نہیں پہنچ پاتا تو اللہ تعالیٰ اس کے جسم یا اس کے مال یا اس کی اولاد کے ذریعہ اسے آزماتا ہے، پھر اللہ تعالیٰ اسے صبر کی توفیق دیتا ہے، یہاں تک کہ وہ بندہ اس مقام کو جا پہنچتا ہے جو اسے اللہ کی طرف سے ملا تھا“۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْجَنَائِزِ/حدیث: 3090]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف: 15562)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/272) (صحیح)» (شواہد اور متابعات سے تقویت پا کر یہ حدیث بھی صحیح ہے ورنہ اس کے اندر محمد بن خالد اور ان کے والد خالد سلمی دونوں مجہول ہیں، ملاحظہ ہو: سلسلة الاحادیث الصحیحہ، نمبر: 2599)
ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک یا دو بار ہی نہیں بلکہ متعدد بار یہ کہتے ہوئے سنا: ”جب بندہ کوئی نیک عمل (پابندی سے) کر رہا ہو، پھر کوئی مرض، یا سفر اسے مشغول کر دے جس کی وجہ سے اسے وہ نہ کر سکے، تو بھی اس کے لیے اتنا ہی ثواب لکھا جاتا ہے جتنا کہ اس کے تندرست اور مقیم ہونے کی صورت میں عمل کرنے پر اس کے لیے لکھا جاتا تھا“۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْجَنَائِزِ/حدیث: 3091]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «صحیح البخاری/الجھاد 134(2996)، (تحفة الأشراف: 9035)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/410، 418) (حسن)»
ام العلاء رضی اللہ عنہا کہتی ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب میں بیمار تھی تو میری عیادت کی، آپ نے فرمایا: ”خوش ہو جاؤ، اے ام العلاء! بیشک بیماری کے ذریعہ اللہ تعالیٰ مسلمان بندے کے گناہوں کو ایسے ہی دور کر دیتا ہے جیسے آگ سونے اور چاندی کے میل کو دور کر دیتی ہے“۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْجَنَائِزِ/حدیث: 3092]
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں قرآن مجید کی سب سے سخت آیت کو جانتی ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ کون سی آیت ہے اے عائشہ!“، انہوں نے کہا: اللہ کا یہ فرمان «من يعمل سوءا يجز به»”جو شخص کوئی بھی برائی کرے گا اسے اس کا بدلہ دیا جائے گا“(سورۃ النساء: ۱۲۳)، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عائشہ تمہیں معلوم نہیں جب کسی مومن کو کوئی مصیبت یا تکلیف پہنچتی ہے تو وہ اس کے برے عمل کا بدلہ ہو جاتی ہے، البتہ جس سے محاسبہ ہو اس کو عذاب ہو گا“۔ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: کیا اللہ تعالیٰ یہ نہیں فرماتا ہے «فسوف يحاسب حسابا يسيرا»”اس کا حساب تو بڑی آسانی سے لیا جائے گا“(سورۃ الانشقاق: ۸)، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس سے مراد صرف اعمال کی پیشی ہے، اے عائشہ! حساب کے سلسلے میں جس سے جرح کر لیا گیا عذاب میں دھر لیا گیا“۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْجَنَائِزِ/حدیث: 3093]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 16240)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/العلم 36 (103)، وتفسیر القرآن 1 (4939)، صحیح مسلم/الجنة وصفة نعیمھا 18 (2876)، سنن الترمذی/صفة القیامة 5 (2426)، وتفسیر القرآن 75 (3337)، مسند احمد (4/47) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: ضعيف الإسناد لكن شطر من حوسب عذب الخ صحيح ق
اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عبداللہ بن ابی کے مرض الموت میں اس کی عیادت کے لیے نکلے، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے پاس پہنچے تو اس کی موت کو بھانپ لیا، فرمایا: ”میں تجھے یہود کی دوستی سے منع کرتا تھا“، اس نے کہا: عبداللہ بن زرارہ نے ان سے بغض رکھا تو کیا پایا، جب عبداللہ بن ابی مر گیا تو اس کے لڑکے (عبداللہ) آپ کے پاس آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: اللہ کے رسول! عبداللہ بن ابی مر گیا، آپ مجھے اپنی قمیص دے دیجئیے تاکہ اس میں میں اسے کفنا دوں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اپنی قمیص اتار کر دے دی۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْجَنَائِزِ/حدیث: 3094]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 108)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/201) (حسن)» (بیہقی نے دلائل النبوة (5؍ 285) میں ابن اسحاق کی زہری سے تحدیث نقل کی ہے، نیز قمیص کا جملہ صحیحین میں ابن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث سے ہے، ملاحظہ ہو: صحیح ابی داود 8؍ 410)
قال الشيخ الألباني: ضعيف الإسناد لكن قصة القميص صحيحة ق
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک یہودی لڑکا بیمار پڑا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس کے پاس عیادت کے لیے آئے اور اس کے سرہانے بیٹھ گئے پھر اس سے فرمایا: ”تم مسلمان ہو جاؤ“، اس نے اپنے باپ کی طرف دیکھا جو اس کے سرہانے تھا تو اس سے اس کے باپ نے کہا: ”ابوالقاسم ۱؎ کی اطاعت کرو“، تو وہ مسلمان ہو گیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ کہتے ہوئے اٹھ کھڑے ہوئے: ”تمام تعریفیں اس ذات کے لیے ہیں جس نے اس کو میری وجہ سے آگ سے نجات دی ۲؎“۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْجَنَائِزِ/حدیث: 3095]
جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بغیر کسی خچر اور گھوڑے پر سوار ہوئے میری عیادت کو تشریف لاتے تھے ۱؎۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْجَنَائِزِ/حدیث: 3096]
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص اچھی طرح سے وضو کرے اور ثواب کی نیت سے اپنے مسلم بھائی کی عیادت کرے تو وہ دوزخ سے ستر «خریف» کی مسافت کی مقدار دور کر دیا جاتا ہے“، میں نے کہا! اے ابوحمزہ! «خریف» کیا ہے؟ انہوں نے کہا: سال۔ ابوداؤد کہتے ہیں: اہل بصرہ جن چیزوں میں منفرد ہیں ان میں بحالت وضو عیادت کا مسئلہ بھی ہے۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْجَنَائِزِ/حدیث: 3097]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 461) (ضعیف)» (اس کے راوی فضل بن دلہم لین الحدیث ہیں)
علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں جو شخص کسی بیمار کی دن کے اخیر حصے میں عیادت کرتا ہے اس کے ساتھ ستر ہزار فرشتے نکلتے ہیں اور فجر تک اس کے لیے مغفرت کی دعا کرتے ہیں، اور اس کے لیے جنت میں ایک باغ ہوتا ہے، اور جو شخص دن کے ابتدائی حصے میں عیادت کے لیے نکلتا ہے اس کے ساتھ ستر ہزار فرشتے نکلتے ہیں اور شام تک اس کے لیے دعائے مغفرت کرتے ہیں، اور اس کے لیے جنت میں ایک باغ ہوتا ہے۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْجَنَائِزِ/حدیث: 3098]