ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک اعرابی (دیہاتی) نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ہجرت کے بارے میں پوچھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمہارے اوپر افسوس ہے! ۱؎ ہجرت کا معاملہ سخت ہے، کیا تمہارے پاس اونٹ ہیں؟“ اس نے کہا: ہاں ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تم ان کی زکاۃ دیتے ہو؟“ اس نے کہا: ہاں (دیتے ہیں)، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پھر سمندروں کے اس پار رہ کر عمل کرو، اللہ تمہارے عمل سے کچھ بھی کم نہیں کرے گا ۲؎“۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْجِهَادِ/حدیث: 2477]
شریح کہتے ہیں کہ میں نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے صحراء و بیابان (میں زندگی گزارنے) کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان ٹیلوں پر جایا کرتے تھے، آپ نے ایک بار صحراء میں جانے کا ارادہ کیا تو میرے پاس صدقہ کے اونٹوں میں سے ایک اونٹ بھیجا جس پر سواری نہیں ہوئی تھی، اور مجھ سے فرمایا: ”عائشہ! اس کے ساتھ نرمی کرنا کیونکہ جس چیز میں بھی نرمی ہوتی ہے وہ اسے عمدہ اور خوبصورت بنا دیتی ہے، اور جس چیز سے بھی نرمی چھین لی جائے تو وہ اسے عیب دار کر دیتی ہے“۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْجِهَادِ/حدیث: 2478]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ أبو داود، ویأتی ہذا الحدیث في الأدب (4808)، (تحفة الأشراف: 16150)، وقد أخرجہ: صحیح مسلم/البر والصلة 23 (2594)، مسند احمد (6/58، 222) (صحیح)» (اس میں سے صرف قول رسول صلی اللہ علیہ وسلم صحیح ہے اور اتنا ہی صحیح مسلم میں ہے، ٹیلوں پرجانے کا واقعہ صحیح نہیں ہے، اور یہ مؤلف کا تفرد ہے)
معاویہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”ہجرت ختم نہیں ہو گی یہاں تک کہ توبہ کا سلسلہ ختم ہو جائے، اور توبہ ختم نہیں ہو گی یہاں تک کہ سورج پچھم سے نکل آئے ۱؎“۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْجِهَادِ/حدیث: 2479]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف: 11459)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/99)، دي / السیر 70 (2555) (صحیح)»
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح (مکہ) کے دن فرمایا: ”اب (مکہ فتح ہو جانے کے بعد مکہ سے) ہجرت نہیں (کیونکہ مکہ خود دارالاسلام ہو گیا) لیکن جہاد اور (ہجرت کی) نیت باقی ہے، جب تمہیں جہاد کے لیے نکلنے کو کہا جائے تو نکل پڑو“۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْجِهَادِ/حدیث: 2480]
عامر شعبی کہتے ہیں کہ ایک آدمی عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کے پاس آیا، ان کے پاس کچھ لوگ بیٹھے تھے یہاں تک کہ وہ بھی آ کر آپ کے پاس بیٹھ گیا اور کہنے لگا: مجھے کوئی ایسی بات بتائیے جو آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہو، انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے مسلمان محفوظ رہیں، اور مہاجر وہ ہے جو اللہ کی منع کردہ چیزوں کو چھوڑ دے“۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْجِهَادِ/حدیث: 2481]
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”عنقریب ہجرت کے بعد ہجرت ہو گی تو زمین والوں میں بہتر وہ لوگ ہوں گے جو ابراہیم علیہ السلام کی ہجرت گاہ (شام) کو لازم پکڑیں گے، اور زمین میں ان کے بدترین لوگ رہ جائیں گے، ان کی سر زمین انہیں باہر پھینک دے گی ۱؎ اور اللہ کی ذات ان سے گھن کرے گی اور آگ انہیں بندروں اور سوروں کے ساتھ اکٹھا کرے گی ۲؎“۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْجِهَادِ/حدیث: 2482]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف: 8828)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/209، 198) (حسن)» (لیکن دوسرے طریق اور شاہد سے تقویت پا کر یہ حسن ہے، ملاحظہ ہو: الصحیحة: 3203، وتراجع الالبانی: 4)
عبداللہ بن حوالہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عنقریب ایسا وقت آئے گا کہ تم الگ الگ ٹکڑیوں میں بٹ جاؤ گے، ایک ٹکڑی شام میں، ایک یمن میں اور ایک عراق میں“۔ ابن حوالہ نے کہا: اللہ کے رسول! مجھے بتائیے اگر میں وہ زمانہ پاؤں تو کس ٹکڑی میں رہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اپنے اوپر شام کو لازم کر لو، کیونکہ شام کا ملک اللہ کی بہترین سر زمین ہے، اللہ اس ملک میں اپنے نیک بندوں کو جمع کرے گا، اگر شام میں نہ رہنا چاہو تو اپنے یمن کو لازم پکڑنا اور اپنے تالابوں سے پانی پلانا، کیونکہ اللہ نے مجھ سے شام اور اس کے باشندوں کی حفاظت کی ذمہ داری لی ہے ۱؎“۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْجِهَادِ/حدیث: 2483]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف: 10852)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/110) (صحیح)»
عمران بن حصین رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میری امت کا ایک گروہ ۱؎ ہمیشہ حق کے لیے لڑتا رہے گا اور ان لوگوں پر غالب رہے گا جو ان سے دشمنی کریں گے یہاں تک کہ ان کے آخری لوگ مسیح الدجال سے قتال کریں گے ۲؎“۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْجِهَادِ/حدیث: 2484]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف: 10852)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/429، 433، 437) (صحیح)»
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا: کون سا مومن سب سے زیادہ کامل ایمان والا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ شخص جو اللہ کے راستے میں اپنی جان اور مال سے جہاد کرے، نیز وہ شخص جو کسی پہاڑ کی گھاٹی ۱؎ میں اللہ کی عبادت کرتا ہو، اور لوگ اس کے شر سے محفوظ ہوں“۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْجِهَادِ/حدیث: 2485]
ابوامامہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے عرض کیا: اللہ کے رسول! مجھے سیاحت کی اجازت دے دیجئیے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میری امت کی سیاحت اللہ کے راہ میں جہاد کرنا ہے“۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْجِهَادِ/حدیث: 2486]