عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: ”قرآن مجید ایک مہینے میں پڑھا کرو“، انہوں نے عرض کیا: مجھے اس سے زیادہ کی طاقت ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تو بیس دن میں پڑھا کرو“، عرض کیا: مجھے اس سے بھی زیادہ طاقت ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تو پندرہ دن میں پڑھا کرو“، عرض کیا: مجھے اس سے بھی زیادہ طاقت ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تو دس دن میں پڑھا کرو“، عرض کیا: مجھے اس سے بھی زیادہ طاقت ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سات دن میں پڑھا کرو، اور اس پر ہرگز زیادتی نہ کرنا“۔ ابوداؤد کہتے ہیں: مسلم (مسلم بن ابراہیم) کی روایت زیادہ کامل ہے۔ [سنن ابي داود/أبواب قراءة القرآن وتحزيبه وترتيله /حدیث: 1388]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «صحیح البخاری/ فضائل القرآن 34 (5053، 5054)، صحیح مسلم/الصیام 35 (1159)، (تحفة الأشراف: 8962)، وقد أخرجہ: سنن الترمذی/القراء ات 13 (2946)، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة 178(1346)، مسند احمد (2/163، 199)، سنن الدارمی/فضائل القرآن 32 (3514) (صحیح)»
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: ”ہر مہینے میں تین دن روزہ رکھا کرو اور قرآن ایک مہینے میں ختم کیا کرو“، پھر میرے اور آپ کے درمیان کم و زیادہ کرنے کی بات ہوئی ۱؎ آخر کار آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اچھا تو ایک دن روزہ رکھا کرو اور ایک دن افطار کیا کرو“۔ عطا کہتے ہیں: ہم نے اپنے والد سے روایت میں اختلاف کیا ہے، ہم میں سے بعض نے سات دن اور بعض نے پانچ دن کی روایت کی ہے۔ [سنن ابي داود/أبواب قراءة القرآن وتحزيبه وترتيله /حدیث: 1389]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف:8642)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/162، 216) (صحیح)»
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ انہوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں قرآن کتنے دنوں میں ختم کروں؟ فرمایا: ”ایک ماہ میں“، کہا: میں اس سے زیادہ کی قدرت رکھتا ہوں (ابوموسیٰ یعنی محمد بن مثنیٰ اس بات کو باربار دہراتے رہے) آپ اسے کم کرتے گئے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسے سات دن میں ختم کیا کرو“، کہا: میں اس سے زیادہ کی طاقت رکھتا ہوں، فرمایا: ”وہ قرآن نہیں سمجھتا جو اسے تین دن سے کم میں پڑھے ۱؎“۔ [سنن ابي داود/أبواب قراءة القرآن وتحزيبه وترتيله /حدیث: 1390]
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: ”قرآن ایک مہینے میں پڑھا کرو“، انہوں نے کہا: مجھے اس سے زیادہ کی طاقت ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تو تین دن میں پڑھا کرو“۔ ابوعلی کہتے ہیں: میں نے ابوداؤد کو کہتے سنا کہ احمد بن حنبل کہتے تھے: عیسیٰ بن شاذان سمجھدار آدمی ہیں۔ [سنن ابي داود/أبواب قراءة القرآن وتحزيبه وترتيله /حدیث: 1391]
ابن الہاد کہتے ہیں کہ مجھ سے نافع بن جبیر بن مطعم نے پوچھا: تم کتنے دنوں میں قرآن پڑھتے ہو؟ تو میں نے کہا: میں اس کے حصے نہیں کرتا، یہ سن کر مجھ سے نافع نے کہا: ایسا نہ کہو کہ میں اس کے حصے نہیں کرتا، اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں نے قرآن کا ایک حصہ پڑھا ۱؎“۔ ابن الہاد کہتے ہیں: میرا خیال ہے کہ انہوں نے اسے مغیرہ بن شعبہ سے نقل کیا ہے۔ [سنن ابي داود/أبواب قراءة القرآن وتحزيبه وترتيله /حدیث: 1392]
اوس بن حذیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم لوگ ثقیف کے ایک وفد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، وفد کے وہ لوگ جن سے معاہدہ ہوا تھا، مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کے پاس ٹھہرے اور بنی مالک کا قیام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے خیمے میں کرایا، (مسدد کہتے ہیں: اوس بھی اس وفد میں شامل تھے، جو ثقیف کی جانب سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا تھا) اوس کہتے ہیں: تو ہر رات آپ صلی اللہ علیہ وسلم عشاء کے بعد ہمارے پاس آتے اور ہم سے گفتگو کرتے۔ ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کی روایت میں اضافہ ہے کہ (آپ گفتگو) کھڑے کھڑے کرتے اور دیر تک کھڑے رہنے کی وجہ سے آپ کبھی ایک پیر پر اور کبھی دوسرے پیر پر بوجھ ڈالتے اور زیادہ تر ان واقعات کا تذکرہ کرتے، جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی قوم قریش کی جانب سے پیش آئے تھے، پھر فرماتے: ”ہم اور وہ برابر نہ تھے، ہم مکہ میں کمزور اور ناتواں تھے، پھر جب ہم نکل کر مدینہ آ گئے تو جنگ کا ڈول ہمارے اور ان کے بیچ رہتا، کبھی ہم ان پر غالب آتے اور کبھی وہ ہم پر“۔ ایک رات آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حسب معمول وقت پر آنے میں تاخیر ہو گئی تو ہم نے آپ سے پوچھا: آج رات آپ نے آنے میں تاخیر کر دی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”آج قرآن مجید کا میرا ایک حصہ تلاوت سے رہ گیا تھا، مجھے اسے پورا کئے بغیر آنا اچھا نہ لگا“۔ اوس کہتے ہیں: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب سے پوچھا کہ وہ لوگ کیسے حصے مقرر کرتے تھے؟ تو انہوں نے کہا: پہلا حزب (حصہ) تین سورتوں کا، دوسرا حزب (حصہ) پانچ سورتوں کا، تیسرا سات سورتوں کا، چوتھا نو سورتوں کا، پانچواں گیارہ اور چھٹا تیرہ سورتوں کا اور ساتواں پورے مفصل کا ۱؎۔ ابوداؤد کہتے ہیں: ابوسعید (عبداللہ بن سعید الاشیخ) کی روایت کامل ہے۔ [سنن ابي داود/أبواب قراءة القرآن وتحزيبه وترتيله /حدیث: 1393]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة 178 (1345)، (تحفة الأشراف:1737) (ضعیف)» (اس کے راوی عثمان لین الحدیث ہیں)
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص قرآن کو تین دن سے کم میں پڑھتا ہے سمجھتا نہیں ہے“۔ [سنن ابي داود/أبواب قراءة القرآن وتحزيبه وترتيله /حدیث: 1394]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «سنن الترمذی/القراء ات 13 (2949)، ن الکبری/ فضائل القرآن (8067)، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة 178 (1347)، (تحفة الأشراف:8950)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/164، 165، 189، 195)، دی/ فضائل القرآن 32 (3514) (صحیح)»
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: قرآن کتنے دنوں میں پڑھا جائے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”چالیس دن میں“، پھر فرمایا: ”ایک ماہ میں“، پھر فرمایا: ”بیس دن میں“، پھر فرمایا: ”پندرہ دن میں“، پھر فرمایا: ”دس دن میں“، پھر فرمایا: ”سات دن میں“، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سات سے نیچے نہیں اترے۔ [سنن ابي داود/أبواب قراءة القرآن وتحزيبه وترتيله /حدیث: 1395]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «سنن الترمذی/ القراء ات 13 (2947)، ن الکبری/ فضائل القرآن (8068، 8069)، (تحفة الأشراف:8944) (صحیح)» (اِس روایت میں وارد لفظ «لم ینزل من سبع» شاذ ہے جو خود ان کی روایت (نمبر 1391) کے برخلاف ہے جس میں تین دن بھی وارد ہوا ہے)
قال الشيخ الألباني: صحيح إلا قوله لم ينزل من سبع شاذ لمخالفته لقوله اقرأه في ثلاث
علقمہ اور اسود کہتے ہیں کہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے پاس ایک شخص آیا اور کہنے لگا: میں ایک رکعت میں مفصل پڑھ لیتا ہوں، انہوں نے کہا: کیا تم اس طرح پڑھتے ہو جیسے شعر جلدی جلدی پڑھا جاتا ہے یا جیسے سوکھی کھجوریں درخت سے جھڑتی ہیں؟ لیکن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم دو ہم مثل سورتوں کو جیسے ”نجم اور رحمن“ ایک رکعت میں، ”اقتربت اور الحاقة“ ایک رکعت میں، ”والطور اور الذاريات“ ایک رکعت میں، ”إذا وقعت اور نون“ ایک رکعت میں، ”سأل سائل اور النازعات“ ایک رکعت میں، ”ويل للمطففين اور عبس“ ایک رکعت میں، ”المدثر اور المزمل“ ایک رکعت میں، ”هل أتى اور لا أقسم بيوم القيامة“ ایک رکعت میں، ”عم يتسائلون اور المرسلات“ ایک رکعت میں، اور اسی طرح ”الدخان اور إذا الشمس كورت“ ایک رکعت میں ملا کر پڑھتے تھے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: یہ ابن مسعود کی ترتیب ہے، اللہ ان پر رحم کرے۔ [سنن ابي داود/أبواب قراءة القرآن وتحزيبه وترتيله /حدیث: 1396]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف:9183)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الأذان 106 (775)، وفضائل القرآن 6 (4996)، 28 (5043)، صحیح مسلم/المسافرین 49 (722)، سنن الترمذی/الصلاة 305 (الجمعة 69) (602)، سنن النسائی/الافتتاح 75 (1007)، مسند احمد (1/380، 417، 427، 436، 455) (صحیح)» (مگر سورتوں کی یہ فہرست ثابت نہیں ہے، اور مؤلف کے سوا کسی کے یہاں یہ فہرست ہے بھی نہیں)
عبدالرحمٰن بن یزید کہتے ہیں کہ میں نے ابو مسعود رضی اللہ عنہ سے پوچھا آپ بیت اللہ کا طواف کر رہے تھے تو آپ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ”جس نے کسی رات میں سورۃ البقرہ کے آخر کی دو آیتیں پڑھیں تو یہ اس کے لیے کافی ہوں گی“۔ [سنن ابي داود/أبواب قراءة القرآن وتحزيبه وترتيله /حدیث: 1397]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «صحیح البخاری/فضائل القرآن 10 (5009)، صحیح مسلم/المسافرین 43 (807)، سنن الترمذی/فضائل القرآن 4 (2881)، سنن النسائی/ الیوم واللیلة (721)، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة 183 (1369)، (تحفة الأشراف:9999)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/118، 121، 122)، سنن الدارمی/الصلاة 170 (1528)، وفضائل القرآن 14 (3431) (صحیح)»