عبدہ بن سلیمان نے ہشام سے، انھوں نے فاطمہ سے، انھوں نے حضرت اسماء رضی اللہ عنہا سے روایت کی کہ بخار میں مبتلا عورت کو ان کے پاس لایاجاتا تو وہ پانی منگواتیں اور اسے عورت کے گریبان میں انڈیلتیں اور کہتیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اس (بخار) کو پانی سے ٹھنڈاکرو۔"اور کہا (وہ کہتیں:) "یہ جہنم کی لپٹوں سے ہے۔"
حضرت اسماء رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ ان کے پاس تپ زدہ عورت لائی جاتی تو وہ پانی منگوا کر اس کے گریبان پر چھڑکتیں اور فرماتیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے، ”اس کو پانی سے ٹھنڈا کرو۔“ اور فرمایا: ”یہ جہنم کی بھاپ سے ہے۔“
ابن نمیر اور ابو اسامہ نے ہشام سے اسی سند کے ساتھ حدیث بیان کی اور ابن نمیر کی حدیث میں ہے: وہ اس کے اور اسکی قمیص کے گریبان کے درمیان پانی ڈالتیں۔ابواسامہ کی حدیث میں انھوں نے"یہ جہنم کی لپٹوں میں سے ہے"کا ذکر نہیں کیا۔ ابوا حمد نے کہا: ابراہیم نے کہا: ہمیں حسن بن شر نے حدیث بیان کی، کہا: ہمیں ابو اسامہ نے اسی سند کےساتھ حدیث بیا ن کی۔
یہی روایت امام صاحب کے استاد ابو کریب بیان کرتے ہیں اور ابن نمیر کی حدیث ہے، وہ پانی اس کے اور اس کے گریبان کے درمیان چھڑکتیں اور ابو اسامہ کی حدیث میں یہ نہیں ہے، ”یہ جہنم کی بھاپ سے ہے۔“
سعید بن مسروق نے عبایہ بن رفاعہ سے، انھوں نے اپنے دادا سے، انھوں نےحضرت رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ فرمارہے تھے: "بخار جہنم کے جوش سے ہے، اس کو پانی سے ٹھنڈاکرو۔"
حضرت رافع بن خدیج رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا، ”بخار، جہنم کا جوش ہے، اس کو پانی سے ٹھنڈا کرو۔“
ابو بکر بن ابی شیبہ، محمد بن مثنیٰ، محمد بن حاتم اور ابو بکر بن نافع نے کہا: ہمیں عبدالرحمان بن مہدی نے سفیان سے حدیث بیان کی، انھوں نے اپنے والد سے، انھوں نے عبایہ بن رفاعہ سے رویت کی، کہا: مجھے رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ نے حدیث سنائی، کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ فرماتے تھے: "بخار جہنم کے جوش سے ہے، اسے خود سے پانی کے ذریعے ٹھنڈا کرو۔" (ابو بکر) کی روایت میں"خود سے" کے الفاظ نہیں ہیں۔نیز ابو بکر نے کہا کہ عبایہ بن رفاعہ نے (حدثنی کے بجائے) اخبرنی رافع بن خدیج کہا۔
حضرت رافع بن خدیج رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا، ”بخار، جہنم کا جوش ہے، اس کو اپنے سے پانی کے ذریعہ ٹھنڈا کرو۔“ ابوبکر کی روایت میں ”عنكم“،
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کےمرض میں ہم نے آپ کی مرضی کے بغیر منہ کے کونے سے آپ کے دہن مبارک میں دوائی ڈالی، آپ نے اشارے سے روکا بھی کہ مجھے زبردستی دوائی نہ پلاؤ، ہم نے (آپس میں) کہا: یہ مریض کی طبعی طور پر دوائی کی ناپسندیدگی (کی وجہ سے) ہے۔جب آپ کو افاقہ ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تم میں سے کوئی نہ بچے، سب کو زبردستی (ہی) دوائی پلائی جائے، سوائے عباس رضی اللہ عنہ کے کیونکہ وہ تمھارے ساتھ موجود نہیں تھے۔"
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیماری میں آپصلی اللہ علیہ وسلم کو منہ کے ایک طرف سے دوائی پلانی چاہی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اشارہ سے فرمایا: ”مجھے منہ کے ایک طرف سے دوائی نہ پلاؤ تو ہم نے کہا بیمار دوا لینا پسند نہیں کرتاہے تو جب آپصلی اللہ علیہ وسلم کو افاقہ ہوا، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے ہر فرد کو سوائے عباس کے لدود کیا جائے کیونکہ وہ تمھارے ساتھ موجود نہیں تھے۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
28. باب التَّدَاوِي بِالْعُودِ الْهِنْدِيِّ وَهُوَ الْكُسْتُ:
سفیان بن عیینہ نے زہری سے، انھوں نے عبید اللہ بن عبد اللہ سے، انھوں نے عکا شہ بن محصن رضی اللہ عنہ کی بہن ام قیس بنت محصن رضی اللہ عنہا سے روایت کی کہا: میں اپنے بیٹے کو لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو ئی جس نے (ابھی تک) کھا نا شروع نہیں کیا تھا، اس نے آپ پر پیشاب کر دیا تو آپ نے پاٖنی منگا کر اس پر بہا دیا۔
حضرت ام قیس بنت محصن، حضرت عکاشہ بن محصن کی ہمشیرہ رضی اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہیں، میں اپنے بیٹے کو لے کر، جو کھانا نہیں کھانے لگا تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئی، اس نے آپ پر بول کر دیا تو آپ نے پانی منگوا کر اس پر چھڑکا۔
انھوں نے (ام قیس رضی اللہ عنہا) نے کہا: میں اپنے ایک بچے کو لے کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حا ضر ہو ئی، میں نے اس کے گلے میں سوزش کی بنا پر اس کے حلق کو انگلی سے اوپر کی طرف دبایا تھا (تا کہ سوزش کی وجہ سے لٹکا ہوا حصہ اوپر ہو جا ئے) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما یا: " تم انگلیوں کے دباؤ کے ذریعے سے اپنے بچوں کا گلا کیوں دباتی ہو؟ (آپ نے بچوں کے لیے اس تکلیف دہ طریقہ علاج کو ناپسند فرما یا۔) تم عودہندی کا استعمال لا زم کر لو۔ اس میں ساتھ اقسام کی شفا ہے ان میں سے ایک نمونیا حلق کی سوزش کے لیے اس کو ناک کے راستے استعمال کیا جا تا ہے۔اور نمونیے کے لیے اسے منہ میں انڈیلا جا تا ہے۔"
اور میں آپ کے پاس اپنے بیٹے کو لے کر گئی، جس کے گلے کو میں نے تالو کے ورم کی بنا پر دبایا تھا تو آپ نے فرمایا: ”تم اس طرح اپنے بچوں کا گلا کیوں دباتی ہو، تم اس عود ہندی کو لازم پکڑو، اس میں سات چیزوں سے شفا ہے، ان میں سے ایک پسلیوں کے ورم اور نمونیا ہے، گلے کے ورم کی صورت میں ناک نتھنے سے اور پسلیوں کے ورم یا نمونیا، سے منہ کی ایک جانب سے۔“
یونس بن یزید نے کہا کہ ابن شہاب نے انھیں بتا یا کہا: مجھے عبید اللہ بن عبد اللہ بن عتبہ بن مسعود نے خبر دی کہ حضرت ام قیس بنت محصن رضی اللہ عنہا۔پہلے پہل ہجرت کرنے والی ان خواتین میں سے تھیں جنھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بیعت کی تھی۔یہ بنوا سد بن خزیمہ کے فرد حضرت عکا شہ بن محصن رضی اللہ عنہا کی بہن تھیں۔کہا: انھوں نے مجھے خبر دی کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اپنے ایک بیٹے کو لے کر آئیں جو ابھی کھانا کھانے کی عمر کو نہیں پہنچا تھا، انھوں نے گلے کی سوزش کی بنا پر اس کے حلق کو انگلی سے دبایا تھا۔یونس نے کہا حلق دبایا تھا۔یعنی انگلی چبھو ئی تھی (تا کہ فاصد خون نکل جا ئے) انھیں یہ خوف تھا کہ اس گلے کے میں سوزش ہے۔ انھوں (ام قیس رضی اللہ عنہا) نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " اس انگلی چبھونے والے طریقے سے تم اپنے بچوں کا گلا کیوں دباتی ہو؟ اس عودہندی یعنی کُست کا استعمال کرو کیونکہ اس میں سات اقسام کی کی شفا ہے ان میں سے ایک نمونیا۔"
حضرت ام قیس بنت محصن جو پہلی مہاجرات میں سے ہیں، جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیعت کی تھی اور عکاشہ بن محصن رضی اللہ تعالی عنہ کی ہمشیرہ ہیں، جو بنو اسد بن خزیمہ کے ایک فرد ہیں، وہ بیان کرتی ہیں، وہ اپنے بیٹے کو جو کھانا کھانے کی عمر کو نہیں پہنچا تھا، اور کوا گرنے کی بنا پر اس کے حلق کو دبا چکی تھی، لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی، یونس کہتے ہیں، اس نے کوا گرنے کے اندیشہ کے پیش نظر، اس کا کوا اٹھایا تھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم اس طرح گلا دبا کر اپنی اولاد کو کیوں تکلیف پہنچاتی ہو؟ تم اس عود ہندی یعنی کست (کوٹ) کو لازم پکڑو، کیونکہ اس میں سات بیماریوں سے شفا ہے، ان میں سے پسلیوں کے ورم کی بیماری بھی ہے۔ اور بقول بعض نمونیا بھی ہے“، ڈاکٹر خالد غزنوی نے ذات الجنب کا معنی پلورسی کیا ہے۔
عبید اللہ نے کہا: انھوں (ام قیس رضی اللہ عنہا) نے مجھ سے بیان کیا کہ ان کے اسی بچے نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی گو د میں پیشاب کر دیا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پانی منگوا کر اس پر بہا دیا تھا اور اس کو زیادہ رگڑ کر نہیں دھویا تھا۔
عبیداللہ کہتے ہیں، اس نے مجھے بتایا کہ اس کے اس بیٹے نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی گود میں پیشاب کر دیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پانی منگوا کر، اس کے بول پر چھڑک دیا اور اس کو اچھی طرح دھویا نہیں۔