انصار کے غلام بشیر بن یسار سے رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ ور سہل بن ابی حثمہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ عبداللہ بن سہل رضی اللہ عنہ ور محیصہ بن مسعود رضی اللہ عنہ خیبر سے آئے اور کھجور کے باغ میں ایک دوسرے سے جدا ہو گئے، عبداللہ بن سہل وہیں قتل کر دیئے گئے۔ پھر عبدالرحمن بن سہل اور مسعود کے دونوں بیٹے حویصہ اور محیصہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اپنے مقتول ساتھی (عبداللہ رضی اللہ عنہ) کے مقدمہ میں گفتگو کی۔ پہلے عبدالرحمن نے بولنا چاہا جو سب سے چھوٹے تھے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بڑے کی بڑائی کرو۔ (یحییٰ جو کہ سند کے راوی ہیں نے اس کا مقصد یہ) بیان کیا کہ جو بڑا ہے وہ گفتگو کرے، پھر انہوں نے اپنے ساتھی کے مقدمہ میں گفتگو کی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر تم میں سے پچاس (۵۰) آدمی قسم کھا لیں کہ عبداللہ کو یہودیوں نے مارا ہے تو تم دیت کے مستحق ہو جاؤ گے۔ انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ!ہم نے خود تو اسے دیکھا نہیں تھا (پھر اس کے متعلق قسم کیسے کھا سکتے ہیں؟) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پھر یہود اپنے پچاس آدمیوں سے قسم کھلوا کر تم سے چھٹکارا پا لیں گے۔ انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ!یہ کافر لوگ ہیں (ان کی قسم کا کیا بھروسہ) چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبداللہ بن سہل کے وارثوں کو دیت خود اپنی طرف سے ادا کردی۔ سہل رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ان اونٹوں میں سے (جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں دیت میں دیئے تھے) ایک اونٹنی کو میں نے پکڑا وہ تھان میں گھس گئی، اس نے ایک لات مجھ کو لگائی۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب القسامة/حدیث: 1085]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 78 كتاب الأدب: 89 باب إكرام الكبير»
557. باب حكم المحاربين والمرتدين
557. باب: مرتدوں اور مسلمانوں سے لڑنے والوں کا حکم
حضرت انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ قبیلہ عکل کے آٹھ افراد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور آپ سے اسلام پر بیعت کی، پھر مدینہ منورہ کی آب وہوا انہیں ناموافق ہوئی اور وہ بیمار پڑے گئے تو انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اسکی شکایت کی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ پھر کیوں نہیں تم ہمارے چرواہے کے ساتھ اس کے اونٹوں میں چلے جاتے اور اونٹوں کا دودھ اور ان کا پیشاب پیتے۔ انہوں نے عرض کیا کیوں نہیں۔ چنانچہ وہ نکل گئے اور اونٹوں کا دودھ اور پیشاب پیا اور صحت مند ہو گئے پھر انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے چرواہے کو قتل کر دیا اور جانور ہنکا لے گئے۔ اس کی اطلاع جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچی تو آپ نے ان کی تلاش میں آدمی بھیجے، پھر وہ پکڑے گئے اور لائے گئے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا اور ان کے بھی ہاتھ اور پاؤں کاٹ دیئے گئے اور ان کی آنکھوں میں سلائی پھیر دی گئی، پھر انہیں دھوپ میں ڈلوا دیا اور آخر وہ مر گئے۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب القسامة/حدیث: 1086]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في 87 كتاب الديات، بَابُ القَسَامَةِ»
558. باب ثبوت القصاص في القتل بالحجر وغيره من المحددات والمثقلات وقتل الرجل بالمرأة
558. باب: پتھر، تیز دھار آلے یا بھاری چیز سے قتل کرنے میں قصاص لازم ہو گا اسی طرح مرد کو عورت کے بدلے قتل کریں گے
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ایک یہودی نے ایک لڑکی پر ظلم کیا، اس کے چاندی کے زیورات جو وہ پہنے ہوئے تھی چھین لئے اور اس کا سر کچل دیا۔ لڑکی کے گھر والے اسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لائے تو اس کی زندگی کی بس آخری گھڑی باقی تھی اور وہ بول نہیں سکتی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا کہ تمہیں کس نے مارا ہے؟ فلاں نے؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس واقعہ سے غیر متعلق آدمی کا نام لیا۔ اس لئے اس نے اپنے سر کے اشارہ سے کہا کہ نہیں۔ بیان کیا کہ پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ فلاں نے تمہیں مارا ہے؟ تو اس لڑکی نے سر کے اشارہ سے ہاں کہا۔ (اس کے بعد اس یہودی نے بھی اس جرم کا اقرار کر لیا) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لیے حکم دیا اور اس آدمی کا سر دو پتھروں کے درمیان کچلا گیا۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب القسامة/حدیث: 1087]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 68 كتاب الطلاق: 24 باب الإشارة في الطلاق والأمور»
559. باب الصائل على نفس الإنسان أو عضوه إِذا دفعه المصول عليه فأتلف نفسه أو عضوه لا ضمان عليه
559. باب: جب کوئی کسی کی جان یا عضو پر حملہ کرے اور وہ اس کادفاع کرے اور مدافعت میں حملہ آور کی جان یا عضو کو نقصان پہنچے تو اس پر کوئی تاوان نہ ہو گا
حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ایک شخص نے ایک شخص کے ہاتھ پر دانت سے کاٹا تو اس نے اپنا ہاتھ کاٹنے والے کے منہ میں سے کھینچ لیا جس سے اس (کاٹنے والے)کے آگے کے دو دانت ٹوٹ گئے، پھر دونوں اپنا جھگڑا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لائے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم اپنے ہی بھائی کو اس طرح دانت سے کاٹتے ہو جیسے اونٹ کاٹتا ہے، تمہیں دیت نہیں ملے گی۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب القسامة/حدیث: 1088]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 87 كتاب الديات: 8 باب إذا عض رجلاً فوقعت ثناياه»
حضرت یعلیٰ بن امیہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جیش عسرہ (غزوۂ تبوک) میں گیا تھا یہ میرے نزدیک میرا سب سے زیادہ قابل اعتماد نیک عمل تھا۔ میرے ساتھ ایک مزدور بھی تھا۔ وہ ایک شخص سے جھگڑا اور ان میں سے ایک نے دوسرے مقابل والے کی انگلی چبا ڈالی۔ دوسرے نے جو اپنا ہاتھ زور سے کھینچا تو اس کے آگے کے دانت بھی ساتھ ہی کھنچے چلے آئے اور گر گئے۔ اس پر وہ شخص اپنا مقدمہ لے کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے دانت(ٹوٹنے کا) کوئی قصاص نہیں دلوایا، بلکہ فرمایا کہ کیا وہ اپنی انگلی تمھارے منہ میں چبانے کے لیے چھوڑ دیتا۔ راوی نے کہا کہ میں خیال کرتا ہوں کہ آپ نے یوں بھی فرمایا جس طرح اونٹ چبا لیا کرتا ہے۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب القسامة/حدیث: 1089]
تخریج الحدیث: «صحیح، _x000D_ أخرجه البخاري في: 37 كتاب الإجارة: 5 باب الأجير في الغزو»
560. باب إثبات القصاص في الأسنان وما في معناها
560. باب: دانتوں اور اس طرح کے دیگر اعضاء میں قصاص کا بیان
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ربیع نے جو حضرت انس رضی اللہ عنہ کی پھوپھی تھیں، انصار کی ایک لڑکی کے آگے کے دانت توڑ دیئے۔ لڑکی والوں نے قصاص چاہا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی قصاص کا حکم دیا۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کے چچا انس بن نضر رضی اللہ عنہ نے کہا نہیں اللہ کی قسم! ان کا دانت نہ توڑا جائے گا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، انس! لیکن کتاب اللہ کا حکم قصاص ہی کا ہے۔ پھر لڑکی والے معافی پر راضی ہو گئے اور دیت لینا منظور کر لیا۔ اس پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ کے بہت سے بندے ایسے ہیں کہ اگر وہ اللہ کا نام لے کر قسم کھا لیں تو اللہ ان کی قسم سچی کر دیتا ہے۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب القسامة/حدیث: 1090]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 65 كتاب التفسير: 5 سورة المائدة: 6 باب قوله (والجروح قصاص»
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کسی مسلمان کا خون جو کلمہ لاالٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ کا ماننے والا ہو حلال نہیں ہے، البتہ تین صورتوں میں جائز ہے۔ جان کے بدلہ جان لینے والا، شادی شدہ ہو کر زنا کرنے والا اور اسلام سے نکل جانے والا (مرتد) جماعت کو چھوڑ دینے والا۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب القسامة/حدیث: 1091]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 87 كتاب الديات: 6 باب قوله تعالى (أن النفس بالنفس»
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب بھی کوئی انسان ظلم سے قتل کیا جاتا ہے تو آدم علیہ السلام کے سب سے پہلے بیٹے (قابیل) کے نامۂ اعمال میں بھی اس قتل کا گناہ لکھا جاتا ہے۔ کیونکہ قتل ناحق کی بنا سب سے پہلے اسی نے قائم کی تھی۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب القسامة/حدیث: 1092]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 60 كتاب الأنبياء: 1 باب خَلْق آدم صلوات الله عليه وذريته»
563. باب المجازاة بالدماء في الآخرة، وأنها أول ما يقضى فيه بين الناس يوم القيامة
563. باب: قیامت کے دن سب سے پہلے خون کا فیصلہ ہو گا
حدیث نمبر: 1093
1093 صحيح حديث عَبْدِ اللهِ بْنِ مَسْعُودٍ رضي الله عنه، قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَوَّلُ مَا يُقْضى بَيْنَ النَّاسِ بِالدِّمَاءِ
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سب سے پہلے جس چیز کا فیصلہ لوگوں کے درمیان ہو گا وہ ناحق خون کے بدلہ کا ہو گا۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب القسامة/حدیث: 1093]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 81 كتاب الرقاق: 48 باب القصاص يوم القيامة»
564. باب تغليظ تحريم الدماء والأعراض والأموال
564. باب: جان و مال اور عزت و آبرو کی حرمت کی تاکید
ابو بکرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ‘ زمانہ اپنی اصل حالت پر گھوم کر آگیا ہے۔ اس دن کی طرح جب اللہ نے زمین و آسمان کو پیدا کیا تھا۔ دیکھو! سال کے بارہ مہینے ہوتے ہیں چار ان میں سے حرمت والے مہینے ہیں۔ تین لگاتار ہیں ذی قعدہ‘ ذی الحجہ اور محرم (اور چوتھا) رجب مضر جو جمادی الاولیٰ اور شعبان کے بیچ میں پڑتا ہے (پھر آپ نے دریافت فرمایا) یہ کون سا مہینہ ہے؟ ہم نے کہا کہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو بہتر علم ہے اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہوگئے ہم نے سمجھا شاید آپ مشہور نام کے سوا اس کا کوئی اور نام رکھیں گے لیکن آپ نے فرمایا‘ کیا یہ ذی الحجہ نہیں ہے؟ ہم بولے کہ کیوں نہیں پھر دریافت فرمایا‘ یہ شہر کون سا ہے؟ ہم بولے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو بہتر علم ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پھر خاموش ہوگئے ہم نے سمجھا شاید اس کا کوئی اور نام آپ رکھیں گے‘ جو مشہور نام کے علاوہ ہوگا لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا‘ کیا یہ مکہ نہیں ہے؟ ہم بولے کہ کیوں نہیں(یہ مکہ ہی ہے) پھر آپ نے دریافت فرمایا اور یہ دن کون سا ہے؟ ہم بولے کہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو زیادہ بہتر علم ہے‘ پھر آپ خاموش ہوگئے اور ہم نے سمجھا شاید اس کا آپ اس کے مشہور نام کے سوا کوئی اور نام رکھیں گے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا یہ یوم النحر (قربانی کا دن) نہیں ہے؟ ہم بولے کہ کیوں نہیں اس کے بعد آپ نے فرمایا پس تمہارا خون اور تمہارا مال محمد(حدیث کے ایک راوی) نے بیان کیا کہ میرا خیال ہے کہ ابو بکرہ رضی اللہ عنہ نے یہ بھی کہا اور تمہاری عزت تم پر اسی طرح حرام ہے جس طرح یہ دن‘ تمہارے اس شہر اور تمہارے اس مہینے میں اور تم جلد اپنے رب سے ملو گے اور وہ تم سے تمہارے اعمال کے بارے میں سوال کرے گا۔ اس لیے میرے بعد تم گمراہ نہ ہو جانا کہ ایک دوسرے کی گردن مارنے لگو۔ ہاں اور جو یہاں موجود ہیں وہ ان لوگوں کو پہنچا دیں جو موجود نہیں ہیں‘ ہو سکتا ہے کہ جسے وہ پہنچائیں ان میں سے کوئی ایسا بھی ہو جو یہاں بعض سننے والوں سے زیادہ اس (حدیث) کو یاد رکھ سکتا ہو محمد بن سیرین جب اس حدیث کا ذکر کرتے تو فرماتے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے سچ فرمایا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا‘تو کیا میں نے (پیغام الٰہی)پہنچا دیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو مرتبہ یہ جملہ فرمایا۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب القسامة/حدیث: 1094]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 64 كتاب المغازي: 77 باب حجة الوداع»