1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:


اللؤلؤ والمرجان
كتاب القسامة
کتاب: قسامہ کے مسائل
559. باب الصائل على نفس الإنسان أو عضوه إِذا دفعه المصول عليه فأتلف نفسه أو عضوه لا ضمان عليه
559. باب: جب کوئی کسی کی جان یا عضو پر حملہ کرے اور وہ اس کادفاع کرے اور مدافعت میں حملہ آور کی جان یا عضو کو نقصان پہنچے تو اس پر کوئی تاوان نہ ہو گا
حدیث نمبر: 1089
1089 صحيح حديث يَعْلَى بْنِ أُمَيَّةَ رضي الله عنه، قَالَ: غَزَوْتُ مَعَ النَبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَيْشَ الْعُسْرَةِ، فَكَانَ مِنْ أَوْثَقِ أَعْمَالِي فِي نَفْسِي، فَكَانَ لِي أَجِيرٌ، فَقَاتَلَ إِنْسَانًا، فَعَضَّ أَحَدُهُمَا إِصْبَعَ صَاحِبهِ، فَانْتَزَعَ إِصْبَعَهُ، فَأَنْدَرَ ثَنِيَّتَهُ فَسَقَطَتْ فَانْطَلَقَ إِلَى النَّبِىِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَهْدَرَ ثَنِيَّتَهُ، وَقَالَ: أَفَيَدَعُ إِصْبَعَهُ فِي فِيكَ تقْضَمُهَا قَالَ أَحْسِبُهُ قَالَ: كَمَا يَقْضَمُ الْفَحْلُ
حضرت یعلیٰ بن امیہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جیش عسرہ (غزوۂ تبوک) میں گیا تھا یہ میرے نزدیک میرا سب سے زیادہ قابل اعتماد نیک عمل تھا۔ میرے ساتھ ایک مزدور بھی تھا۔ وہ ایک شخص سے جھگڑا اور ان میں سے ایک نے دوسرے مقابل والے کی انگلی چبا ڈالی۔ دوسرے نے جو اپنا ہاتھ زور سے کھینچا تو اس کے آگے کے دانت بھی ساتھ ہی کھنچے چلے آئے اور گر گئے۔ اس پر وہ شخص اپنا مقدمہ لے کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے دانت(ٹوٹنے کا) کوئی قصاص نہیں دلوایا، بلکہ فرمایا کہ کیا وہ اپنی انگلی تمھارے منہ میں چبانے کے لیے چھوڑ دیتا۔ راوی نے کہا کہ میں خیال کرتا ہوں کہ آپ نے یوں بھی فرمایا جس طرح اونٹ چبا لیا کرتا ہے۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب القسامة/حدیث: 1089]
تخریج الحدیث: «صحیح، _x000D_ أخرجه البخاري في: 37 كتاب الإجارة: 5 باب الأجير في الغزو»

وضاحت: جیش العسرۃ سے مراد غزوہ تبوک ہے جو ۹ ہجری کو واقع ہوا اس غزوہ کے لیے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو شدید گرمی میں حکم دیا اور یہ پھلوں کے پکنے کا وقت تھا اس لیے ان پر مشکل اور دشوار گذرا۔ (مرتب)