حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہمانے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کسی مسلمان کے لئے جن کے پاس وصیت کے قابل کوئی بھی مال ہو درست نہیں کہ دو رات بھی وصیت کو لکھ کر اپنے پاس محفوظ رکھے بغیر گزارے۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الوصية/حدیث: 1052]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 55 كتاب الوصايا: 1 باب الوصايا»
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حجتہ الوداع کے سال (۱۰ھ میں)میری عیادت کے لیے تشریف لائے۔ میں سخت بیمار تھا۔ میں نے کہا کہ میرا مرض شدت اختیار کر چکا ہے، میرے پاس مال و اسباب: بہت ہے اور میری صرف ایک لڑکی ہے جو وارث ہوگی تو کیا میں اپنے دو تہائی مال کو خیرات کر دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں میں نے کہا آدھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایک تہائی کر دو اور یہ بھی بڑی خیرات ہے یا بہت خیرات ہے اگر تو اپنے وارثوں کو اپنے پیچھے مالدار چھوڑ جائے تو یہ اس سے بہتر ہو گا کہ محتاجی میں انھیں اس طرح چھوڑکر جائے کہ وہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلاتے پھریں۔ یہ یاد رکھو کہ جو خرچ بھی تم اللہ کی رضا کی نیت سے کرو گے تو اس پر بھی تمھیں ثواب ملے گا۔ حتی کہ اس لقمہ پر بھی جو تم اپنی بیوی کے منہ میں رکھو۔ پھر میں نے پوچھا کہ یا رسول اللہ! میرے ساتھی تو مجھے چھوڑ کر (حجۃ الوداع کے لیے) مکہ جا رہے ہیں، اور میں ان سے پیچھے رہ رہا ہوں۔ اس پر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہاں رہ کر بھی اگر تم کوئی نیک عمل کرو گے تو اس سے تمھارے درجے بلند ہوں گے اور شاید ابھی تم زندہ رہو گے اور بہت سے لوگوں کو (مسلمانوں کو) تم سے فائدہ پہنچے گا اور بہتوں کو (کفار و مرتدین کو) نقصان (پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی) اے اللہ! میرے ساتھیوں کو ہجرت پر استقلال عطا فرما اور ان کے قدم پیچھے کی طرف نہ لوٹا لیکن مصیبت زدہ سعد بن خولہ تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے مکہ میں وفات پا جانے کی وجہ سے اظہار غم کیا تھا۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الوصية/حدیث: 1053]
تخریج الحدیث: «صحیح، _x000D_ أخرجه البخاري في: 23 كتاب الجنائز: 37 باب رثي النبي صلی اللہ علیہ وسلم سعد بن خولة»
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہمانے بیان کیا، کاش! لوگ (وصیت کو) چوتھائی تک کم کر دیتے تو بہتر ہوتا کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ تم تہائی (کی وصیت کر سکتے ہو) اور تہائی بھی بہت ہے یا (آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا کہ) یہ بہت بڑی رقم ہے۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الوصية/حدیث: 1054]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 55 كتاب الوصايا: 3 باب الوصية بالثلث»
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہانے بیان کیا کہ ایک شخص نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ میری ماں کا اچانک انتقال ہوگیا اور میر اخیال ہے کہ اگر انھیں بات کرنے کا موقع ملتا تو وہ کچھ نہ کچھ خیرات کرتیں۔ اگر میں ان کی طرف سے کچھ خیرات کردوں تو کیا انھیں اس کا ثواب ملے گا؟ آپ نے فرمایا: ہاں ملے گا۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الوصية/حدیث: 1055]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 23 كتاب الجنائز: 95 باب موت الفجأة البغتة»
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہمانے بیان کیا کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو خیبر میں ایک قطعہ زمین ملی تو آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں مشورہ کے لیے حاضر ہوئے اور عرض کیا، یا رسول اللہ! مجھے خیبر میں ایک زمین کا ٹکڑا ملا ہے اس سے بہتر مال مجھے اب تک کبھی نہیں ملا تھا، آپ اس کے متعلق کیا حکم فرماتے ہیں؟ آپ نے فرمایا کہ اگر جی چاہے تو اصل زمین اپنی ملکیت میں باقی رکھ اور پیداوار صدقہ کر دے۔ ابن عمر رضی اللہ عنہمانے بیان کیا کہ پھر عمر رضی اللہ عنہ نے اس کو اس شرط کے ساتھ صدقہ کر دیا کہ نہ اسے بیچا جائے گا نہ اس کا ہبہ کیا جائے گا اور نہ اس میں وارثت چلے گی۔ اسے آپ نے محتاجوں کے لئے، رشتہ داروں کے لئے، غلام آزاد کرانے کے لئے، اللہ کے دین کی تبلیغ اور اشاعت کے لئے اور مہمانوں کے لیے صدقہ (وقف) کر دیا اور یہ کہہ اس کا متولی اگر دستور کے مطابق اس میں سے اپنی ضرورت کے مطابق وصول کر لے یا کسی محتاج کو دے تو اس پر کوئی الزام نہیں۔ ابن عون نے بیان کیا کہ جب میں نے اس حدیث کا ذکر ابن سیرین سے کیا تو انہوں نے فرمایا کہ (متولی) اس میں سے مال جمع کرنے کا ارادہ نہ رکھتا ہو۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الوصية/حدیث: 1056]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 54 كتاب الشروط: 19 باب الشروط في الوقف»
541. باب ترك الوصية لمن ليس له شيء يوصي فيه
541. باب: جس کے پاس کوئی شے قابل وصیت نہ ہو اس کو وصیت نہ کرنا درست ہے
حضرت طلحہ بن مصرف نے بیان کیا کہ میں نے عبداللہ بن ابی اوفیٰ رضی اللہ عنہ سے سوال کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی وصیت کی تھی؟ انہوں نے کہا: نہیں۔ اس پر میں نے پوچھا کہ پھر وصیت کس طرح لوگوں پر فرض ہوئی؟ یا (راوی نے اس طرح بیان کیا) کہ لوگوں کو وصیت کا حکم کیوں کر دیا گیا؟ انہوں نے کہا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو کتاب اللہ پر عمل کرنے کی وصیت کی تھی۔ (اور کتاب اللہ میں وصیت کرنے کے لئے حکم موجود ہے)[اللؤلؤ والمرجان/كتاب الوصية/حدیث: 1057]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 55 كتاب الوصايا: 1 باب الوصايا وقول النبي صلی اللہ علیہ وسلم وصية الرجل مكتوبة عنده»
اسود بن یزید نے بیان کیا کہ عائشہ رضی اللہ عنہاکے یہاں کچھ لوگوں نے ذکر کیا کہ علی کرم اللہ وجہہ (نبی اکرم کے) وصی تھے تو آپ نے کہا کہ کب انہیں وصی بنایا، میں تو آپ کی وفات کے وقت سرمبارک اپنے سینے پر یا انہوں نے (بجائے سینے کے) کہا کہ اپنی گود میں رکھے ہوئے تھی، پھر آپ نے (پانی کا) طشت منگوایا تھا کہ اتنے میں (سرمبارک) میری گود میں جھک گیا اور میں سمجھ نہ سکی کہ آپ کی وفات ہو چکی ہے تو آپ نے علی کو وصی کب بنایا؟ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الوصية/حدیث: 1058]
تخریج الحدیث: «صحیح، _x000D_ أخرجه البخاري في: 55 كتاب الوصايا: 1 باب الوصايا وقول النبي صلی اللہ علیہ وسلم وصية الرجل مكتوبة عنده»
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے بیان کیاکہ جمعرات کے دن، اور معلوم ہے جمعرات کا دن کیا ہے؟ پھر آپ اتنا روئے کہ کنکریاں تک بھیگ گئیں۔ آخر آپ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری میں شدت اسی جمعرات کے دن ہوئی تھی تو آپؐ نے صحابہ سے فرمایا کہ قلم دوات لاؤ، تاکہ میں تمہارے لئے ایک ایسی کتاب لکھوا جاؤں کہ تم (میرے بعد اس پر چلتے رہو تو) کبھی گمراہ نہ ہو سکو۔ اس پر صحابہ میں اختلاف ہو گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نبی کے سامنے جھگڑنا مناسب نہیں ہے۔ صحابہ نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم (بیماری کی شدت سے) برا رہے ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اچھا، اب مجھے میری حالت پر چھوڑ دو، میں جس حال میں اس وقت ہوں وہ اس سے بہتر ہے جو تم کرانا چاہتے ہو۔ آخر آپؐ نے اپنی وفات کے وقت تین وصیتیں فرمائی تھیں۔ یہ کہ مشرکین کو جزیرہ عرب سے باہر کر دینا۔ دوسرے یہ کہ وفود سے ایسا ہی سلوک کرتے رہنا، جیسے میں کرتا رہا (ان کی خاطرداری ضیافت وغیرہ) اور تیسری ہدایت میں بھول گیا۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الوصية/حدیث: 1059]
تخریج الحدیث: «صحیح، _x000D_ أخرجه البخاري في: 56 كتاب الجهاد: 176 باب هل يستشفع إلى أهل الذمة ومعاملتهم»
حضرت ابن بن عباس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کا وقت قریب ہوا تو گھر میں بہت سے صحابہ رضی اللہ عنہ م موجود تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ لاؤ، میں تمہارے لیے ایک دستاویز لکھ دوں، اگر تم اس پر چلتے رہے تو پھر تم گمراہ نہ ہو سکو گے۔ اس پر (بعض لوگوں) نے کہا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر بیماری کی سختی ہو رہی ہے، تمہارے پاس قرآن موجود ہے۔ ہمارے لیے تو اللہ کی کتاب بس کافی ہے۔ پھر گھر والوں میں جھگڑا ہونے لگا، بعض نے تو یہ کہا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو کوئی چیز لکھنے کی دے دو کہ اس پر آپ ہدایت لکھوا دیں اور تم اس کے بعد گمراہ نہ ہو سکو۔ بعض لوگوں نے اس کے خلاف دوسری رائے پر اصرار کیا۔ جب شورغل اور نزاع زیادہ ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہاں سے جاؤ۔ عبیداللہ نے بیان کیا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہماکہتے تھے کہ مصیبت سب سے بڑی یہ تھی کہ لوگوں نے اختلاف اور شور کر کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو وہ ہدایت نہیں لکھنے دی۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الوصية/حدیث: 1060]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 64 كتاب المغازي: 83 باب مرض النبي صلی اللہ علیہ وسلم ووفاته»