سیّدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ جب اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مکہ فتح کرا دیا تو آپ لوگوں کے سامنے کھڑے ہوئے اور اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کے بعد فرمایا اللہ تعالیٰ نے ہاتھیوں کے لشکر کو مکہ سے روک دیا تھا لیکن اپنے رسول اور مسلمانوں کو اسے فتح کرا دیا دیکھو یہ مکہ مجھ سے پہلے کسی کے لئے حلال نہیں ہوا تھا (یعنی وہاں لڑنا) اور میرے لیے صرف دن کے تھوڑے سے حصے میں درست ہوا اب میرے بعد کسی کے لیے درست نہیں ہو گا پس اس کے شکار نہ چھیڑے جائیں اور نہ اس کے کانٹے کاٹے جائیں یہاں کی گری ہوئی چیز صرف اسی کے لیے حلال ہو گی جو اس کا اعلان کرے جس کا کوئی آدمی قتل کیا گیا ہو اسے دو باتوں کا اختیار ہے یا (قاتل سے) فدیہ (مال) لے لے یا جان کے بدلے جان لے سیّدنا عباس رضی اللہ عنہ نے کہا یا رسول اللہ اذخر کاٹنے کی اجازت ہو کیونکہ ہم اسے اپنی قبروں اور گھروں میں استعمال کرتے ہیں تو آپ نے فرمایا کہ اچھا اذخر کاٹنے کی اجازت ہے پھر ابو شاہ یمن کے ایک صحابی نے کھڑے ہو کر کہا یا رسول اللہ میرے لیے یہ خطبہ لکھوا دیجئے چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو حکم فرمایا کہ ابو شاہ کے لیے یہ خطبہ لکھ دو۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الحج/حدیث: 861]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 45 كتاب اللقطة: 7 باب كيف تعرّف لقطة أهل مكة»
سیّدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ فتح مکہ کے دن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب مکہ میں داخل ہوئے تو آپ کے سر پر خود تھا جس وقت آپ نے اتارا تو ایک شخص نے آ کر خبر دی کہ ابن خطل کعبہ کے پردوں سے لٹک رہا ہے آپ نے فرمایا کہ اسے قتل کر دو۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الحج/حدیث: 862]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 28 كتاب جزاء الصيد: 18 باب دخول الحرم ومكة بغير إحرام»
430. باب فضل المدينة ودعاء النبي صلی اللہ علیہ وسلم فيها بالبركة وبيان تحريمها وتحريم صيدها وشجرها وبيان حدود حرمها
430. باب: مدینہ کی فضیلت اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا اور اس کے شکار کے حرام ہونے اور اس کے حرم کی حدود کا بیان
سیّدنا عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ابراہیم علیہ السلام نے مکہ کو حرام قرار دیا اور اس کے لئے دعا فرمائی میں بھی مدینہ کو اسی طرح حرام قرار دیتا ہوں جس طرح ابراہیم علیہ السلام نے مکہ کو حرام قرار دیا تھا اور اس کے لئے اس کے مد اور صاع (غلہ ناپنے کے دو پیمانے) کی برکت کے لئے اسی طرح دعا کرتا ہوں جس طرح ابراہیم علیہ السلام نے کی تھی۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الحج/حدیث: 863]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 34 كتاب البيوع: 53 باب بركة صاع النبي صلی اللہ علیہ وسلم ومدهم»
سیّدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیّدنا ابو طلحہ سے فرمایا کہ اپنے یہاں کے بچوں میں کوئی بچہ تلاش کر لاؤ جو میرے کام کر دیا کرے چنانچہ ابو طلحہ مجھے اپنی سواری پر اپنے پیچھے بٹھا کر لائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب بھی کہیں پڑاؤ کرتے میں آپ کی خدمت کرتا میں سنا کرتا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بکثرت یہ دعا پڑھا کرتے تھے اے اللہ میں تیری پناہ مانگتا ہوں غم سے رنج سے عجز سے سستی سے بخل سے بزدلی سے قرض کے بوجھ سے اور لوگوں کے غلبہ سے (سیّدنا انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ) پھر میں اس وقت سے برابر آپ کی خدمت کرتا رہا یہاں تک کہ ہم خیبر سے واپس ہوئے اور سیدہ صفیہ بنت حی رضی اللہ عنہ بھی ساتھ تھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں پسند فرمایا تھا میں دیکھتا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لئے اپنی سواری پر پیچھے کپڑے سے پردہ کیا اور پھر انہیں وہاں بٹھایا آخر جب ہم مقام صہبا میں پہنچے تو آپ نے دستر خوان پر حیس (کھجور پنیر اور گھی وغیرہ کا ملیدہ) بنایا پھر مجھے بھیجا اور میں لوگوں کو بلا لایا پھر سب لوگوں نے اسے کھایا یہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے سیدہ صفیہ رضی اللہ عنہا سے نکاح کی دعوت ولیمہ تھی پھر آپ روانہ ہوئے اور جب احد دکھائی دیا تو آپ نے فرمایا کہ یہ پہاڑ ہم سے محبت رکھتا ہے اور ہم اس سے محبت رکھتے ہیں اس کے بعد جب مدینہ نظر آیا تو فرمایا اے اللہ میں اس کے دونوں پہاڑوں کے درمیانی علاقے کو اسی طرح حرمت والا علاقہ بناتا ہوں جس طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام نے مکہ کو حرمت والا شہر بنایا تھا اے اللہ اس کے رہنے والوں کو برکت عطا فرما ان کے مد میں اور ان کے صاع میں برکت فرما۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الحج/حدیث: 864]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 70 كتاب الأطعمة: 28 باب الحيس»
عاصم رحمہ اللہ نے بیان کیا کہ میں نے سیّدنا انس رضی اللہ عنہ سے پوچھا کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ کو حرمت والا شہر قرار دیا ہے؟ فرمایا کہ ہاں فلاں جگہ (عیر) سے فلاں جگہ (ثور) تک اس علاقہ کا درخت نہیں کاٹا جائے گا جس نے اس حدود میں کوئی نئی بات پیدا کی اس پر اللہ کے فرشتوں کی اور تمام انسانوں کی لعنت ہے عاصم نے کہا کہ پھر مجھے موسیٰ بن انس نے خبر دی کہ سیّدنا انس رضی اللہ عنہ نے یہ بھی بیان کیا تھا کہ یا کسی نے دین میں بدعت پیدا کرنے والے کو پناہ دی۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الحج/حدیث: 865]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 96 كتاب الاعتصام: 6 باب إثم من آوى محدثا»
حدیث نمبر: 866
866 صحيح حديث أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رضي الله عنه، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: اللهُمَّ بَارِكْ لَهُمْ فِي مِكْيَالِهِمْ، وَبَارِكْ لَهُمْ فِي صَاعِهِمْ وَمُدِّهِمْ يَعْنِي أَهْلَ الْمَدِينَةِ
سیّدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے اللہ انکے پیمانوں میں برکت دے اے اللہ انہیں ان کے صاع اور مد میں برکت دے آپ کی مراد اہل مدینہ تھے۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الحج/حدیث: 866]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 34 كتاب البيوع: 53 باب بركة صاع النبي ومدهم»
حدیث نمبر: 867
867 صحيح حديث أَنَسٍ رضي الله عنه، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: اللهُمَّ اجْعَلْ بِالْمَدِينَةِ ضِعْفَيْ مَا جَعَلْتَ بِمَكَّةَ مِنَ الْبَرَكَةِ
سیّدنا انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے اللہ مکہ میں جتنی برکت عطا فرمائی ہے مدینہ میں اس سے دوگنی برکت کر۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الحج/حدیث: 867]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 29 كتاب فضائل المدينة: 10 باب المدينة تنفي الخبث»
سیّدنا علی رضی اللہ عنہ نے اینٹ سے بنے ہوئے منبر پر کھڑے ہو کر خطبہ دیا آپ تلوار لئے ہوئے تھے جس میں ایک صحیفہ لٹکا ہوا تھا آپ نے فرمایا واللہ ہمارے پاس کتاب اللہ کے سوا کوئی اور کتاب نہیں جسے پڑھا جائے اور سوائے اس صحیفہ کے پھر انہوں نے اسے کھولا تو اس میں دیت میں دئیے جانے والے اونٹوں کی عمروں کا بیان تھا (کہ دیت میں اتنی اتنی عمر کے اونٹ دئیے جائیں) اور اس میں یہ بھی تھا کہ مدینہ طیبہ کی زمین عیر پہاڑی سے ثور پہاڑی تک حرم ہے پس اس میں جو کوئی نئی بات (بدعت) نکالے گا اس پر اللہ کی لعنت ہے اور فرشتوں کی اور تمام لوگوں کی اللہ اس کی کسی فرض یا نفل عبادت کو قبول نہیں کرے گا اور اس میں یہ بھی تھا کہ مسلمانوں کی ذمہ داری (عہد یا امان) ایک ہے اس کا ذمہ دار ان میں سب سے ادنی مسلمان بھی ہو سکتا ہے پس جس نے کسی مسلمان کا ذمہ توڑا اس پر اللہ کی لعنت ہے اور فرشتوں کی اور تمام لوگوں کی اللہ اس کی نہ فرض عبادت قبول کرے گا اور نہ نفل عبادت اور اس میں یہ بھی تھا کہ جس نے کسی سے اپنے والیوں کی اجازت کے بغیر ولاء کا رشتہ قائم کیا اس پر اللہ اور فرشتوں اور تمام انسانوں کی لعنت ہے اللہ نہ اس کی فرض نماز قبول کرے گا نہ نفل۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الحج/حدیث: 868]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 96 كتاب الاعتصام: 5 باب ما يكره من التعمق والتنازع في العلم والغلوّ في الدين والبدع»
حدیث نمبر: 869
869 صحيح حديث أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه، أَنَّهُ كَانَ يَقُولُ: لَوْ رَأَيْتُ الظِّبَاءَ بِالْمَدِينَةِ تَرْتَعُ مَا ذَعَرْتُهَا قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَا بَيْنَ لابَتَيْهَا حَرَامٌ
سیّدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے اگر میں مدینہ میں ہرن چرتے ہوئے دیکھوں تو انہیں کبھی نہ چھیڑوں کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ مدینہ کی زمین دونوں پتھریلے میدانوں کے بیچ میں حرم ہے۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الحج/حدیث: 869]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 29 كتاب فضائل المدينة: 4 باب لابتى المدينة»
431. باب الترغيب في سكنى المدينة والصبر على لأوائها
431. باب: مدینہ کی سکونت کی فضیلت اور وہاں کی شدت ومحنت پر صبر کرنے کا ثواب
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہانے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے اللہ ہمارے دل میں مدینہ کی ایسی ہی محبت پیدا کر دے جیسی تو نے مکہ کی محبت ہمارے دل میں پیدا کی ہے بلکہ اس سے بھی زیادہ اور اس کے بخار کو جحفہ میں منتقل کر دے اے اللہ ہمارے لئے ہمارے مد اور صاع میں برکت عطا فرما۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الحج/حدیث: 870]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 80 كتاب الدعوات: 43 باب الدعاء برفع الوباء والوجع»