سیّدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے ہشام بن حکیم بن حزام کو سورہ فرقان ایک دفعہ اس قرات سے پڑھتے سنی جو اس کے خلاف تھی جو میں پڑھتا تھا حالانکہ یہ قرات خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے سکھائی تھی قریب تھا کہ میں انہیں پکڑ لیتا لیکن میں نے انہیں مہلت دی کہ وہ (نماز سے) فارغ ہو لیں اس کے بعد میں نے ان کے گلے میں چادر ڈال کر ان کو پکڑا اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر کیا میں نے آپ سے کہا کہ میں نے انہیں اس قرات کے خلاف پڑھتے سنا ہے جو آپ نے مجھے سکھائی ہے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا کہ پہلے انہیں چھوڑ دے پھر ان سے فرمایا کہ اچھا اب تم قرات سناؤ انہوں نے اپنی وہی قرات سنائی آپ نے فرمایا کہ اسی طرح نازل ہوئی تھی اس کے بعد مجھ سے آپ نے فرمایا کہ اب تم بھی پڑھومیں نے بھی پڑھ کر سنایا آپ نے اس پر بھی فرمایا اسی طرح نازل ہوئی تھی قرآن سات قراتوں میں نازل ہوا ہے تم کو جس میں آسانی ہو اسی طرح سے پڑھ لیا کرو۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب صلاة المسافرين وقصرها/حدیث: 468]
تخریج الحدیث: «صحیح، _x000D_ أخرجه البخاري في: 44 كتاب الخصومات: 4 باب الخصوم بعضهم في بعض»
سیّدنا ابن عباس رضی اللہ عنہمانے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جبریل نے قرآن مجید مجھے (عرب کے) ایک ہی محاورے کے مطابق پڑھ کر سکھایا تھا لیکن میں اس میں برابر اضافہ کی خواہش کا اظہار کرتا رہا تاآنکہ عرب کے سات محاوروں پر اس کا نزول ہوا۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب صلاة المسافرين وقصرها/حدیث: 469]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 59 كتاب بدء الخلق: 6 باب ذكر الملائكة»
234. باب ترتيل القراءة واجتناب الهذّ وهو الإفراط في السرعة وإباحة سورتين فأكثر في ركعة
234. باب: قرآن ٹھہر ٹھہر کر پڑھنے اور ایک رکعت میں دو سے زیادہ سورتیں پڑھنے کا حکم
ابو وائل رحمہ اللہ نے بیان کیا کہ ایک شخص سیّدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا کہ میں نے رات ایک رکعت میں مفصل کی سورت پڑھی آپ نے فرمایا کہ کیا اس طرح (جلدی جلدی) پڑھی جیسے شعر پڑھے جاتے ہیں میں ان ہم معنی سورتوں کو جانتا ہوں جنہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک ساتھ ملا کر پڑھتے تھے آپ نے مفصل کی بیس سورتوں کا ذکر کیا ہر رکعت کے لئے دو دو سورتیں۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب صلاة المسافرين وقصرها/حدیث: 470]
تخریج الحدیث: «صحیح، _x000D_ أخرجه البخاري في: 10 كتاب الأذان: 106 باب الجمع بين السورتين في الركعة»
235. باب ما يتعلق بالقراءات
235. باب: قراء ت کا بیان
حدیث نمبر: 471
471 صحيح حديث عَبْدِ اللهِ بْنِ مَسْعُودٍ رضي الله عنه، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ كَانَ يَقْرَأُ فَهَلْ مِنْ مُدَّكِرٍ
سیّدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فہل من مدکر پڑھا کرتے تھے۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب صلاة المسافرين وقصرها/حدیث: 471]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 65 كتاب التفسير: 54 سورة اقتربت الساعة: 2 باب تجرى بأعيننا»
ابراہیم نخعی رحمہ اللہ نے بیان کیا کہ سیّدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے کچھ شاگرد سیّدنا ابودرداء رضی اللہ عنہ کے یہاں (شام) آئے سیّدنا ابودرداء نے انہیں تلاش کیا اور پا لیا پھر ان سے پوچھا کہ تم میں کون سیّدنا عبداللہ بن مسعود کی قرات کے مطابق قرات کر سکتا ہے؟ شاگردوں نے کہا کہ ہم سب کر سکتے ہیں پھر پوچھا کسے ان کی قرات زیادہ محفوظ ہے؟ سب نے حضرت علقمہ رحمہ اللہ کی طرف اشارہ کیا انہوں نے دریافت کیا کہ انہیں سورہ واللیل اذا یغشی کی قرات کرتے کس طرح سنا ہے؟ علقمہ نے کہا کہ والذکر والانثی (بغیر ماخلق کے) کہا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ میں نے بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی طرح قرات کرتے ہوئے سنا ہے لیکن یہ لوگ (یعنی شام والے) چاہتے ہیں کہ میں وما خلق الذکر والانثی پڑھوں اللہ کی قسم میں ان کی پیروی نہیں کروں گا۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب صلاة المسافرين وقصرها/حدیث: 472]
تخریج الحدیث: «صحیح، _x000D_ أخرجه البخاري في: 65 كتاب التفسير: 92 سورة والليل: 7 باب وما خلق الذكر والأنثى»
سیّدنا ابن عباس رضی اللہ عنہمانے فرمایا کہ میرے سامنے چند معتبر حضرات نے گواہی دی جن میں سب سے زیادہ معتبر میرے نزدیک سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ تھے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فجر کی نماز کے بعد سورج بلند ہونے تک اور عصر کی نماز کے بعد سورج ڈوبنے تک نماز پڑھنے سے منع فرمایا۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب صلاة المسافرين وقصرها/حدیث: 473]
تخریج الحدیث: «صحیح، _x000D_ أخرجه البخاري في: 9 كتاب مواقيت الصلاة: 30 باب الصلاة بعد الفجر حتى ترتفع الشمس»
سیّدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا کہ فجر کی نماز کے بعد کوئی نماز سورج بلند ہونے تک نہ پڑھی جائے اسی طرح عصر کی نماز کے بعد سورج ڈوبنے تک کوئی نماز نہ پڑھی جائے۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب صلاة المسافرين وقصرها/حدیث: 474]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 9 كتاب مواقيت الصلاة: 31 باب لا يتحرى الصلاة قبل غروب الشمس»
حدیث نمبر: 475
475 صحيح حديث ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لاَ تَحَرَّوْا بِصَلاَتِكُمْ طُلُوعَ الشَّمْسِ وَلاَ غُرُوبَهَا
سیّدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہمانے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نماز پڑھنے کے لئے سورج کے طلوع اور غروب ہونے کے انتظار میں نہ بیٹھے رہو۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب صلاة المسافرين وقصرها/حدیث: 475]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 9 كتاب مواقيت الصلاة: 30 باب الصلاة بعد الفجر حتى ترتفع الشمس»
سیّدنا ابن عمر رضی اللہ عنہمانے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب سورج کا اوپر کا کنارہ نکل آئے تو نماز نہ پڑھو جب تک وہ پوری طرح ظاہر نہ ہو جائے اور جب غروب ہونے لگے تب بھی اس وقت تک کے لئے نماز چھوڑ دو جب تک بالکل غروب نہ ہو جائے۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب صلاة المسافرين وقصرها/حدیث: 476]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 59 كتاب بدء الخلق: 11 باب صفة إبليس وجنوده»
237. باب معرفة الركعتين اللتين كان يصليهما النبي صلی اللہ علیہ وسلم بعد العصر
237. باب: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز عصر کے بعد کی دو رکعت کا بیان
حضرت کریب رحمہ اللہ نے بیان کیا کہ سیّدنا ابن عباس مسور بن مخرمہ اور عبدالرحمن بن ازہر رضی اللہ عنہ نے مجھے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں بھیجا اور کہا سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہاسے ہم سب کا سلام کہنا اور اس کے بعد عصر کے بعد کی دو رکعات کے بارے میں دریافت کرنا انہیں یہ بھی بتا دینا کہ ہمیں خبر ہوئی ہے کہ آپ یہ دو رکعات پڑھتی ہیں حالانکہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ حدیث پہنچی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دو رکعات سے منع کیا ہے اور ابن عباس نے کہا کہ میں نے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے ساتھ ان رکعات کے پڑھنے پر لوگوں کو مارا بھی تھا۔ کریب نے بیان کیا کہ میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہاکی خدمت میںحاضر ہوا اور پیغام پہنچایا اس کا جواب آپ نے یہ دیا کہ ام سلمہ رضی اللہ عنہاسے اس کے متعلق دریافت کر چنانچہ میں ان حضرات کی خدمت میں واپس ہوا اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہاکی گفتگو نقل کر دی انہوں نے مجھے سیدہ ام سلمہ کی خدمت میں بھیجا انہی پیغامات کے ساتھ جن کے ساتھ سیدہ عائشہ کے یہاں بھیجا تھا سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہانے یہ جواب دیا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ آپ عصر کے بعد نماز پڑھنے سے روکتے تھے لیکن ایک دن میں نے دیکھا کہ عصر کے بعد آپ خود یہ دو رکعات پڑھ رہے ہیں (عصر) کے بعد آپ میرے گھر تشریف لائے (اور دو رکعت ادا کرنے لگے) میرے پاس انصار کے قبیلہ بنو حرام کی چند عورتیں بیٹھی ہوئی تھیں اس لئے میں نے ایک باندی کو آپ کی خدمت میں بھیجا میں نے اس سے کہہ دیا کہ وہ آپ کے ایک طرف ہو کر یہ پوچھے کہ ام سلمہ کہتی ہے کہ یا رسول اللہ آپ تو ان دو رکعات سے منع کرتے تھے حالانکہ میں دیکھ رہی ہوں کہ آپ خود انہیں پڑھتے ہیں اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہاتھ سے اشارہ کریں تو تم پیچھے ہٹ جانا باندی نے پھر اسی طرح کیا اور آپ نے ہاتھ سے اشارہ کیا تو پیچھے ہٹ گئی پھر جب آپ (نماز سے) فارغ ہوئے تو (آپ نے ام سلمہ سے) فرمایا کہ اے ابو امیہ کی بیٹی تم نے عصر کے بعد کی دو رکعات کے متعلق پوچھا بات یہ ہے کہ میرے پاس عبدالقیس کے کچھ لوگ آ گئے تھے اور ان کے ساتھ بات کرنے کی وجہ سے ظہر کے بعد دو رکعات نہیں پڑھ سکا تھا سو یہ وہی دو رکعت ہیں۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب صلاة المسافرين وقصرها/حدیث: 477]
تخریج الحدیث: «صحیح، _x000D_ أخرجه البخاري في: 22 كتاب السهو: 8 باب إذا كُلِّم وهو يصلي فأشار بيده واستمع»