1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:


اللؤلؤ والمرجان
كتاب المساجد ومواضع الصلاة
کتاب: مسجدوں اور نمازوں کی جگہوں کا بیان
حدیث نمبر: 378
378 صحيح حديث جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ، قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي الظُّهْرَ بِالْهَاجِرَةِ، وَالْعَصْرَ وَالشَّمْسُ نَقِيَّةٌ، وَالْمَغْرِبَ إِذَا وَجَبَتْ، وَالْعِشَاءَ أَحْيَانًا وَأَحْيَانًا: إِذَا رَآهُمُ اجْتَمَعُوا عَجَّلَ، وَإِذَا رَآهُمْ أَبْطَوْا أَخَّرَ؛ وَالصُّبْحَ كَانُوا، أَوْ، كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّيها بِغَلَسٍ
سیّدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ظہر کی نماز ٹھیک دوپہر میں پڑھایا کرتے تھے ابھی سورج صاف اور روشن ہوتا تھا تو نماز عصر پڑھاتے نماز مغرب وقت آتے ہی پڑھاتے اور نماز عشاء کو کبھی جلدی پڑھاتے اور کبھی دیر سے جب دیکھتے کہ لوگ جمع ہو گئے ہیں تو جلدی پڑھا دیتے اور اگر لوگ جلدی جمع نہ ہوتے تو نماز میں دیر کرتے (اور لوگوں کا انتظار کرتے) اور صبح کی نماز صحابہ یا (یہ کہا کہ) نبی صلی اللہ علیہ وسلم اندھیرے میں پڑھتے تھے۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب المساجد ومواضع الصلاة/حدیث: 378]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 9 كتاب مواقيت الصلاة: 27 باب وقت الفجر»

حدیث نمبر: 379
379 صحيح حديث أَبِي بَرْزَةَ الأَسْلَمِيِّ، وَقَدْ سُئِلَ عَنْ وَقْتِ الصَّلَوَاتِ، قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي الظُّهْرَ حِينَ تَزُولُ الشَّمْسُ، وَالْعَصْرَ، وَيَرْجِعُ الرَّجُلُ إِلَى أَقْصى الْمَدِينَةِ وَالشَّمْسُ حَيَّةٌ (قَالَ الرَّاوِي عَنْ أَبِي برْزَةَ: وَنَسِيتُ مَا قَالَ فِي الْمَغْرِبِ) وَلاَ يُبَالِي بِتَأخِيرِ الْعِشَاءِ إِلَى ثُلُثِ اللَّيْلِ، وَلاَ يُحِبُّ النَّوْمَ قَبْلَهَا وَلاَ الْحَدِيثَ بَعْدَهَا، وَيُصَلِّي الصُّبْحَ، فَيَنْصَرِفُ الرَّجُلُ فَيَعْرِفُ جَلِيسَهُ؛ وَكَانَ يَقْرَأُ فِي الرَّكْعَتَيْنِ أَوْ إِحْدَاهُمَا مَا بَيْنَ السِّتِّينَ إِلَى الْمِائَةِ
سیّدنا ابو برزہ اسلمی رضی اللہ عنہ سے اوقات نماز کے متعلق پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ظہر کی نماز سورج ڈھلنے پر پڑھتے تھے عصر جب پڑھتے تو مدینہ کے انتہائی کنارہ تک ایک شخص چلا جاتا لیکن سورج اب بھی باقی رہتا مغرب کے متعلق جو کچھ آپ نے کہا وہ مجھے یاد نہیں رہا اور عشاء کے لئے تہائی رات تک دیر کرنے میں کوئی حرج محسوس نہیں کرتے تھے اور آپ اس سے پہلے سونے کو اور اس کے بعد بات چیت کرنے کو نا پسند کرتے تھے جب نماز صبح سے فارغ ہوتے تو ہر شخص اپنے قریب بیٹھے ہوئے کو پہچان سکتا تھا آپ دونوں رکعات میں یا ایک میں ساٹھ سے لے کر سو تک آیتیں پڑھتے۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب المساجد ومواضع الصلاة/حدیث: 379]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 10 كتاب الأذان: 104 باب القراءة في الفجر»

191. باب فضل صلاة الجماعة وبيان التشديد في التخلف عنها
191. باب: نماز باجماعت کی فضیلت اور تارکین جماعت کے لیے وعید
حدیث نمبر: 380
380 صحيح حديث أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: تَفْضُلُ صَلاَةُ الْجَمِيعِ صَلاَةَ أَحَدِكُمْ وَحْدَهُ بِخَمْسٍ وَعِشْرِينَ جُزْءًا، وتَجْتَمِعُ مَلاَئِكَةُ اللَّيْلِ وَمَلاَئِكَةُ النَّهَارِ فِي صَلاَةِ الْفَجْرِ ثُمَّ يَقُولُ أَبُو هُرَيْرَةَ: فَاقْرَءُوا إِنْ شِئْتُمْ (إِنَّ قُرْآنَ الْفَجْرِ كَانَ مَشْهُودًا)
سیّدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ نے فرمایا کہ جماعت نماز اکیلے پڑھنے سے پچیس درجہ زیادہ بہتر ہے اور رات دن کے فرشتے فجر کی نماز میں جمع ہوتے ہیں پھر ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اگر تم پڑھنا چاہو تو (بنی اسرائیل۷۸) کی یہ آیت پڑھو یعنی فجر میں قرآن پاک کی تلاوت پر فرشتے حاضر ہوتے ہیں۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب المساجد ومواضع الصلاة/حدیث: 380]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 10 كتاب الأذان: 31 باب فضل صلاة الفجر في جماعة»

حدیث نمبر: 381
381 صحيح حديث عَبْدِ اللهِ بْنِ عُمَرَ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: صَلاَةُ الْجَمَاعَةِ تَفْضُلُ صَلاَةَ الْفَذِّ بِسَبْعٍ وَعِشْرِينَ دَرَجَةً
سیّدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہمانے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جماعت کے ساتھ نماز اکیلے نماز پڑھنے سے ستائیں درجہ زیادہ فضیلت رکھتی ہے۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب المساجد ومواضع الصلاة/حدیث: 381]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 10 كتاب الأذان: 30 باب فضل صلاة الجماعة»

حدیث نمبر: 382
382 صحيح حديث أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَقَدْ هَمَمْتُ أَنْ آمُرَ بِحَطَبٍ فَيُحْطَبَ، ثُمَّ آمُرَ بِالصَّلاَةِ فَيُؤَذَّنَ لَهَا، ثُمَّ آمُرَ ُرَجُلاً فَيَؤُم النَّاسَ، ثُمَّ أُخَالِفَ إِلَى رِجَالٍ فَأُحَرِّقَ عَلَيْهِمْ بُيُوتَهُمْ، وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَوْ يَعْلَمُ أَحَدُهُمْ أَنَّهُ يَجِدُ عَرْقًا سَمِينًا، أَوْ مِرْمَاتَيْنِ حَسَنَتَيْنِ لَشَهِدَ الْعِشَاءَ
سیّدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے میں نے ارادہ کر لیا تھا کہ لکڑیوں کے جمع کرنے کا حکم دوں پھر نماز کے لئے کہوں اس کے لئے اذان دی جائے پھر کسی شخص سے کہوں کہ وہ امامت کرے اور میں ان لوگوں کی طرف جاؤں (جو نماز با جماعت میں حاضر نہیں ہوتے) پھر انہیں ان کے گھروں سمیت جلا دوں اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر یہ جماعت میں نہ شریک ہونے والے لوگ اتنی بات جان لیں کہ انہیں مسجد میں ایک اچھی قسم کی گوشت والی ہڈی مل جائے گی یا دو عمدہ کھر ہی مل جائیں گے تو یہ عشاء کی جماعت کے لئے مسجد میں ضرور حاضر ہو جائیں۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب المساجد ومواضع الصلاة/حدیث: 382]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 10 كتاب الأذان: 29 باب وجوب صلاة الجماعة»

حدیث نمبر: 383
383 صحيح حديث أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَيْسَ صَلاَةٌ أَثْقَلَ عَلَى الْمُنَافِقِينَ مِنَ الْفَجْرِ وَالْعِشَاءِ، وَلَوْ يَعْلَمُونَ مَا فِيهِمَا لأَتَوْهُمَا وَلَوْ حَبْوًا، لَقَدْ هَمَمْتُ أَنْ آمُرَ الْمُؤَذِّنَ فَيُقِيمَ ثُمَّ آمُرَ رَجُلاً يَؤُمُّ النَّاسَ، ثُمَّ آخُذُ شُعَلاً مِنْ نَارٍ فَأُحَرِّقَ عَلَى مَنْ لاَ يَخْرُجُ إِلَى الصَّلاَةِ بَعْدُ
سیّدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ منافقوں پر فجر اور عشاء کی نماز سے زیادہ اور کوئی نماز بھاری نہیں اور اگر انہیں معلوم ہوتا کہ ان کا ثواب کتنا زیادہ ہے (اور وہ چل نہ سکتے) تو گھٹنوں کے بل گھسٹ کر آتے اور میرا تو ارادہ ہو گیا تھا کہ موذن سے کہوں کہ وہ تکبیر کہے پھر میں کسی کو نماز پڑھانے کے لئے کہوں اور خود آگ کی چنگاریاں لے کر ان سب کے گھروں کو جلا دوں جو ابھی تک نماز کے لئے نہیں نکلے۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب المساجد ومواضع الصلاة/حدیث: 383]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 10 كتاب الأذان: 34 باب فضل العِشاء في الجماعة»

192. باب الرخصة في التخلف عن الجماعة بعذر
192. باب: کسی عذر کی وجہ سے جماعت کا معاف ہونا
حدیث نمبر: 384
384 صحيح حديث عِتْبَانَ بْنِ مَالِكٍ، وَهُوَ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، مِمَّنْ شَهِدَ بَدْرًا مِنَ الأَنْصَارِ، أَنَّهُ أَتَى رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ يَا رَسُولَ اللهِ قَدْ أَنْكَرْتُ بَصَرِي، وَأَنَا أُصَلِّي لِقَوْمِي، فَإِذَا كَانَتِ الأَمْطَارُ سَالَ الْوَادِي الَّذِي بَيْنِي وَبَيْنَهُمْ، لَمْ أَسْتَطِعْ أَنْ آتِيَ مَسْجِدَهُمْ، فَأُصَلِّيَ بِهِمْ، وَوَدِدْتُ يَا رَسُولَ اللهِ أَنَّكَ تَأْتِينِي فَتُصَلِّيَ فِي بَيْتِي فَأَتَّخِذَهُ مُصَلًّى قَالَ، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: سَأَفْعَلُ إِنْ شَاءَ اللهُ قَالَ عِتْبَانُ: فَغَدَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبُو بَكْرٍ حِينَ ارْتَفَعَ النَّهَارُ، فَاسْتَأْذَنَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَذِنْتُ لهُ، فَلَمْ يَجْلِسْ حَتَّى دَخَلَ الْبَيْتَ، ثُمَّ قَالَ: أَيْنَ تُحِبُّ أَنْ أُصلِّيَ مِنْ بَيْتِكَ قَالَ، فَأَشَرْتُ لَه إِلَى نَاحِيَةٍ مِنَ الْبَيْتِ فَقَامَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَكَبَّرَ، فَقُمْنَا فَصَفَّنَا فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ ثُمَّ سَلَّمَ؛ قَالَ وَحَبَسْنَاهُ عَلَى خَزِيرَةٍ صَنَعْنَاهَا لَهُ، قَالَ، فَثَابَ فِي الْبَيْتِ رِجَالٌ مِنْ أَهْلِ الدَّارِ ذَوُو عَدَدٍ، فَاجْتَمَعُوا؛ فَقَالَ قَائِلٌ مِنْهُمْ: أَيْنَ مَالِكُ بْنُ الدُّخَيْشِنِ أَوِ ابْنُ الدُّخْشُنِ فَقَالَ بَعْضُهُمْ: ذلِكَ مُنَافِقٌ لاَ يُحِبُّ اللهَ وَرَسُولَهُ فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لاَ تَقُلْ ذلِكَ، أَلاَ تَرَاهُ قَدْ قَالَ لاَ إِلهَ إِلاَّ اللهُ، يُرِيدُ بِذلِكَ وَجْهَ اللهِ قَالَ: اللهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ: فَإِنَّا نَرَى وَجْهَهُ وَنَصِيحَتَهُ إِلَى الْمُنَافِقِينَ؛ فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: فَإِنَّ اللهَ قَدْ حَرَّمَ عَلَى النَّارِ مَنْ قَالَ لاَ إِلهَ إِلاَّ اللهُ، يَبْتَغِي بِذَلِكَ وَجْهَ اللهِ
سیّدنا عتبان بن مالک انصاری رضی اللہ عنہ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی اور انصار کی طرف سے غزوہ بدر میں شریک تھے وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا یا رسول اللہ میری بینائی میں کچھ فرق آ گیا ہے اور میں اپنی قوم کے لوگوں کو نماز پڑھایا کرتا ہوں لیکن جب برسات کا موسم آتا ہے تو میرے اور میری قوم کے درمیان جو وادی ہے وہ بھر جاتی ہے اور بہنے لگ جاتی ہے اور میں انہیں نماز پڑھانے کے لئے مسجد تک نہیں جا سکتا یا رسول اللہ میری خواہش ہے کہ آپ میرے گھر تشریف لائیں اور (کسی جگہ) نماز پڑھ دیں تا کہ میں اسے نماز پڑھنے کی جگہ بنا لوں راوی نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عتبان سے فرمایا انشاء اللہ تعالیٰ میں تمہاری اس خواہش کو پورا کروں گا عتبان نے کہا کہ (دوسرے دن) جب دن چڑھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور سیّدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ دونوں تشریف لے آئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اندر آنے کی اجازت چاہی میں نے اجازت دے دی جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم گھر میں تشریف لائے تو بیٹھے بھی نہیں اور پوچھا کہ تم اپنے گھر کے کس حصہ میں مجھ سے نماز پڑھنے کی خواہش رکھتے ہو؟ حضرت عتبان نے کہا کہ میں نے گھر میں ایک کونے کی طرف اشارہ کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (اس جگہ) کھڑے ہوئے اور تکبیر کہی ہم بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے کھڑے ہو گئے اور صف باندھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو رکعت (نفل) نماز پڑھائی پھر سلام پھیرا عتبان نے کہا کہ ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تھوڑی دیر کے لئے روکا اور آپ کی خدمت میں حلیم پیش کیا جو آپ ہی کے لئے تیار کیا گیا تھا عتبان نے کہا کہ محلہ والوں کا ایک مجمع گھر میں لگ گیا مجمع میں سے ایک شخص بولا کہ مالک بن دخیشن یا (یہ کہا) ابن دخشن دکھائی نہیں دیتا اس پر کسی دوسرے نے کہہ دیا کہ وہ تو منافق ہے جسے اللہ اور رسول سے کوئی محبت نہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سن کر فرمایا ایسا مت کہو کیا تم دیکھتے نہیں کہ اس نے لا الہ الا اللہ کہا ہے اور اس سے مقصود خالص خدا کی رضا مندی حاصل کرنا ہے تب منافقت کا الزام لگانے والا بولا کہ اللہ اور اس کے رسول کو زیادہ علم ہے ہم تو بظاہر اس کی توجہات اور دوستی منافقوں ہی کے ساتھ دیکھتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے لا الہ الا اللہ کہنے والے پر اگر اس کا مقصد صرف اور صرف خدا کی رضا حاصل کرنا ہو دوزخ کی آگ حرام کر دی ہے۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب المساجد ومواضع الصلاة/حدیث: 384]
تخریج الحدیث: «صحیح، _x000D_ أخرجه البخاري في: 8 كتاب الصلاة: 46 باب المساجد في البيوت»

حدیث نمبر: 385
385 صحيح حديث مَحْمُودِ بْنِ الرَّبِيعِ زَعَمَ أَنَّهُ عَقَلَ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَعَقَلَ مَجَّةً مَجَّهَا مِنْ دَلْوٍ كَانَ فِي دَارِهِمْ، ثُمَّ حَدَّثَ عَنْ عِتْبَانَ حَدِيثَهُ السَّابِقَ
سیّدنا محمود بن ربیع رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پوری طرح یاد ہیں اور آپ کا میرے گھر کے ڈول سے کلی کرنا بھی یاد ہے (جو آپ نے میرے منہ میں ڈالی تھی) پھر انہوں نے سیّدنا عتبان بن مالک انصاری رضی اللہ عنہ سے سابقہ حدیث روایت کی۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب المساجد ومواضع الصلاة/حدیث: 385]
تخریج الحدیث: «صحیح، _x000D_ أخرجه البخاري في: 10 كتاب الأذان: 154 باب من لم ير ردّ السلام على الإمام واكتفى بتسليم الصلاة»

193. باب جواز الجماعة في النافلة والصلاة على حصير وخمرة وثوب وغيرها من الطاهرات
193. باب: باجماعت نفلی نماز اور بورئیے وغیرہ پر نماز پڑھنے کا بیان
حدیث نمبر: 386
386 صحيح حديث مَيْمُونَةَ، قَالَتْ: كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي وَأَنَا حِذَاءَهُ، وَأَنَا حَائِضٌ، وَرُبَّمَا أَصَابَنِي ثَوْبُهُ إِذَا سَجَدقَالَتْ: وَكَانَ يُصَلِّي عَلَى الْخَمْرَةِ
سیدہ میمونہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھتے اور حائضہ ہونے کے باوجود میں آپ کے سامنے ہوتی اکثر جب آپ سجدہ کرتے تو آپ کا کپڑا مجھے چھو جاتا اور آپ (کھجور کے پتوں سے بنے ہوئے ایک چھوٹے سے) مصلے پر نماز پڑھتے تھے۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب المساجد ومواضع الصلاة/حدیث: 386]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 8 كتاب الصلاة: 19 باب إذا أصاب ثوب المصلّى امرأته إذا سجد»

194. باب فضل صلاة الجماعة وانتظار الصلاة
194. باب: جماعت کی نماز کی فضیلت اور جماعت کے لیے انتظار کا بیان
حدیث نمبر: 387
387 صحيح حديث أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: صَلاَةُ الْجَمِيعِ تَزِيدُ عَلَى صَلاَتِهِ فِي بَيْتِهِ وَصَلاَتِهِ فِي سُوقِهِ خَمْسًا وَعِشْرِينَ دَرَجَةً، فَإِنَّ أَحَدَكُمْ إِذَا تَوَضَّأَ فَأَحْسَنَ، وَأَتَى الْمَسْجِدَ لاَ يُرِيدُ إِلاَّ الصَّلاَةَ، لَمْ يَخْطُ خَطْوَةً إِلاَّ رَفَعَهُ اللهُ بِهَا دَرَجَةً، وَحَطَّ عَنْهُ خَطِيئَةً حَتَّى يَدْخُلَ الْمَسْجِدَ، وَإِذَا دَخَلَ الْمَسْجِدَ كَانَ فِي صَلاَةٍ مَا كَانَتْ تَحْبِسُهُ، وَتُصَلِّي عَلَيْهِ الْمَلاَئِكَةُ مَا دَامَ فِي مَجْلِسِهِ الَّذِي يُصَلِّي فيهِ: اللهُمَّ اغْفِرْ لَهُ، اللهُمَّ ارْحَمْهُ، مَا لَمْ يُحْدِثْ فِيهِ
سیّدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے میں گھر کے اندر یا بازار میں نماز پڑھنے سے پچیس گنا ثواب زیادہ ملتا ہے کیونکہ جب کوئی شخص تم میں سے وضو کرے اور اس کے تمام آداب کا لحاظ رکھے پھر مسجد میں صرف نماز کی غرض سے آئے تو اس کے ہر قدم پر اللہ تعالیٰ اس کا ایک درجہ بلند کرتا ہے اور ایک گناہ اس سے معاف کرتا ہے اس طرح وہ مسجد کے اندر آئے گا مسجد میں آنے کے بعد جب تک نماز کے انتظار میں رہے گا اسے نماز ہی کی حالت میں شمار کیا جائے گا اور جب تک اس جگہ بیٹھا رہے جہاں اس نے نماز پڑھی ہے تو فرشتے اس کے لئے رحمت خداوندی کی دعائیں کرتے ہیں کہ اے اللہ اس کو بخش دے اے اللہ اس پر رحم کر جب تک کہ ریاح خارج کر کے (وہ فرشتوں کو) تکلیف نہ دے۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب المساجد ومواضع الصلاة/حدیث: 387]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 8 كتاب الصلاة: 87 باب الصلاة في مسجد السوق»


Previous    5    6    7    8    9    10    Next