ابو صالح سمان رحمہ اللہ نے بیان کیا کہ میں نے سیّدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کو جمعہ کے دن نماز پڑھتے ہوئے دیکھا آپ کسی چیز کی طرف منہ کئے ہوئے لوگوں کے لئے اسے آڑ بنائے ہوئے تھے ابو معیط کے بیٹوں میں سے ایک جوان نے چاہا کہ آپ کے سامنے سے ہو کر گذر جائے ابو سعید رضی اللہ عنہ نے اس کے سینہ پر دھکا دے کر باز رکھنا چاہا جوان نے چاروں طرف نظر دوڑائی لیکن کوئی راستہ سوائے سامنے سے گذرنے کے نہ ملا اس لئے وہ پھر اسی طرف سے نکلنے کے لئے لوٹا اب ابو سعید نے پہلے بھی زیادہ زور سے دھکا دیا اسے ابو سعید سے شکایت ہوئی اور وہ اپنی یہ شکایت مروان کے پاس لے گیا اس کے بعد ابو سعید بھی تشریف لے گئے مروان نے کہا اے ابو سعید رضی اللہ عنہ پ میں اور آپ کے بھتیجے میں کیا معاملہ پیش آیا آپ نے فرمایا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے سنا ہے کہ جب کوئی شخص نماز کسی چیز کی طرف منہ کر کے پڑھے اور اس چیز کو آڑ بنا رہا ہو پھر بھی اگر کوئی سامنے سے گذرے تو اسے روک دینا چاہئے اگر اب بھی اسے اصرار ہو تو اس سے لڑنا چاہیے کیونکہ وہ شیطان ہے۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الصلاة/حدیث: 283]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 8 كتاب الصلاة: 100 باب يرد المصلِّي مَن مرَّ بين يديه»
بسر بن سعید نے کہا کہ زید بن خالد نے انہیں سیّدنا ابو جھیم عبداللہ انصاری رضی اللہ عنہ کی خدمت میں ان سے یہ بات پوچھنے کے لئے بھیجا کہ انہوں نے نماز پڑھنے والے کے سامنے سے گذرنے والے کے متعلق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا سنا ہے سیّدنا ابو جھیم رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ اگر نمازی کے سامنے سے گذرنے والا جانتا کہ اس کا کتنا بڑا گناہ ہے تو اس کے سامنے سے گذرنے پر چالیس تک وہیں کھڑے رہنے کو ترجیح دیتا۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الصلاة/حدیث: 284]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 8 كتاب الصلاة: 101 باب إثم المارّ بين يدي المصلي»
151. باب دنو المصلي من السترة
151. باب: نمازی کے سترہ کے قریب کھڑے ہونے کا بیان
حدیث نمبر: 285
285 صحيح حديث سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ قَالَ: كَانَ بَيْنَ مُصَلَّي رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَبَيْنَ الْجِدَارِ مَمَرُّ الشَّاةِ
سیّدنا سہل بن سعد رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سجدہ کرنے کی جگہ اور دیوار کے درمیان ایک بکری کے گزر سکنے کا فاصلہ رہتا تھا۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الصلاة/حدیث: 285]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 8 كتاب الصلاة: 91 باب قدركم ينبغي أن يكون بين المصلِّي والسترة»
حدیث نمبر: 286
286 صحيح حديث سَلَمَةَ، قَالَ: كَانَ جِدَارُ الْمَسْجِدِ عِنْدَ الْمِنْبَرِ مَا كَادَتِ الشَّاةُ تَجُوزُهَا
سیّدنا سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ مسجد کی دیوار اور منبر کے درمیان بکری کے گذر سکنے کے فاصلہ کے برابر جگہ تھی۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الصلاة/حدیث: 286]
تخریج الحدیث: «صحیح، _x000D_ أخرجه البخاري في: 8 كتاب الصلاة: 91 باب قدركم ينبغي أن يكون بين المصلِّي والسترة»
حضرت یزید بن ابی عبید رحمہ اللہ نے بیان کیا کہ میں سیّدنا سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ کے ساتھ (مسجد نبوی) میں حاضر ہوا کرتا تھا سیّدنا سلمہ ہمیشہ اس ستون کو سامنے کر کے نماز پڑھتے جہاں قرآن شریف رکھا رہتا تھا میں نے ان سے کہا کہ اے ابو مسلم میں دیکھتا ہوں کہ آپ ہمیشہ اسی ستون کو سامنے کر کے نماز پڑھتے ہیں انہوں نے فرمایا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا آپ خاص طور سے اسی ستون کو سامنے کر کے نماز پڑھا کرتے تھے۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الصلاة/حدیث: 287]
تخریج الحدیث: «صحیح، _x000D_ أخرجه البخاري في: 8 كتاب الصلاة: 95 باب الصلاة إلى الأسطوانة»
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہافرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر کے بچھونے پر نماز پڑھتے اور میں آپ کے اور قبلہ کے درمیان اس طرح لیٹی ہوتی جیسے (نماز کے لئے) جنازہ رکھا جاتا ہے۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الصلاة/حدیث: 288]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 8 كتاب الصلاة: 22 باب الصلاة على الفراش»
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہافرماتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھتے رہتے اور میں (آپ کے سامنے) بچھونے پر آڑی سوتی ہوئی پڑی ہوتی جب آپ وتر پڑھنا چاہتے تو مجھے بھی جگا دیتے اور میں بھی وتر پڑھ لیتی تھی۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الصلاة/حدیث: 289]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 8 كتاب الصلاة: 103 باب الصلاة خلف النائم»
مسروق رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہاکے سامنے ان چیزوں کو ذکر ہوا جو نماز کو توڑ دیتی ہیں یعنی کتا گدھا اور عورت اس پر سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ تم لوگوں نے ہمیں گدھوں اور کتوں کے برابر کر دیا حالانکہ اللہ کی قسم خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس طرح نماز پڑھتے تھے کہ میں چارپائی پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اور قبلہ کے بیچ میں لیٹی رہتی تھی مجھے کوئی ضرورت پیش آتی اور چونکہ یہ بات مجھے پسند نہ تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے (جب کہ آپ نماز پڑھ رہے ہوں) بیٹھوں اور اس طرح آپ کو تکلیف ہو اس لئے میں آپ کے پاؤں کی طرف سے خاموشی کے ساتھ نکل جاتی تھی۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الصلاة/حدیث: 290]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 8 كتاب الصلاة: 105 باب من قال لا يقطع الصلاة شيء»
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہانے بیان کیا کہ تم لوگوں نے ہم عورتوں کو کتوں اور گدھوں کے برابر بنا دیا حالانکہ میں چارپائی پر لیٹی ہوتی تھی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لاتے اور چارپائی کے بیچ میں آ جاتے (یا چارپائی کو اپنے اور قبلہ کے بیچ میں کر لیتے) پھر نماز پڑھتے مجھے آپ کے سامنے پڑے رہنا برا معلوم ہوتا اس لئے میں پائینتی کی طرف سے کھسک کر لحاف سے باہر نکل جاتی۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الصلاة/حدیث: 291]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 8 كتاب الصلاة: 99 باب الصلاة إلى السرير»
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہانے فرمایا کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے سو جایا کرتی تھی میرے پاؤں آپ کے سامنے (پھیلے ہوئے) ہوتے جب آپ سجدہ کرتے تو پاؤں کو ہلکے سے دبا دیتے اور میں انہیں سکیڑ لیتی پھر جب قیام فرماتے تو میں انہیں پھیلا لیتی تھی اس زمانہ میں گھروں کے اندر چراغ نہیں ہوتے تھے۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الصلاة/حدیث: 292]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 8 كتاب الصلاة: 104 باب التطوع خلف المرأة»