1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:


اللؤلؤ والمرجان
کِتَابُ الْاِیْمَانِ
کتاب: ایمان کا بیان
2. باب الإیمان ما ہو وبیان خصالہ
2. باب: ایمان اور اس کے خصائل کا بیان
حدیث نمبر: 5
5 صحيح حديث أبي هُرَيْرَةَ قال كان النبيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بارزًا يومًا للناسِ فأَتاه رجلٌ فقال: ما الإيمان قال: الإيمان أن تؤمنَ بالله وملائكتِهِ وبلقائِهِ وبرسلِهِ وتؤمَن بالبعثِ قال: ما الإسلامُ قال: الإسلامُ أن تعبدَ اللهَ ولا تشركَ به وتقيمَ الصلاةَ وتؤدِّيَ الزكاةَ المفروضةَ وتصومَ رمضانَ قال: ما الإحسان قال: أن تعبدَ الله كأنك تراهُ، فإِن لم تكن تراه فإِنه يراك قال: متى الساعةُ قال: ما المسئولُ عنها بأَعْلَم مِنَ السائل، وسأُخبرُكَ عن أشراطِها؛ إِذا وَلَدَتِ الأَمَةُ رَبَّهَا، وَإِذا تطاولَ رُعاةُ الإبِلِ البَهْمُ في البنيان، في خمسٍ لا يعلمهنَّ إِلاَّ الله ثم تلا النبيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ (إِنَّ الله عنده علم الساعة) الآية: ثم أدبر فقال: رُدُّوه فلم يَرَوْا شيئاً فقال: هذا جبريل جاءَ يُعَلِّمُ الناسَ دينَهم
سیّدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ایک دن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں میں تشریف فرما تھے کہ آپ کے پاس ایک شخص آیا اور پوچھنے لگا کہ ایمان کسے کہتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایمان یہ ہے کہ تم اللہ پاک کے وجود اور اس کی وحدانیت پر ایمان لائو اور اس کے فرشتوں کے وجود پر اور اس (اللہ) کی ملاقات کے برحق ہونے پر اور اس کے رسولوں کے برحق ہونے پر اور مرنے کے بعد دوبارہ اٹھنے پر ایمان لائو پھر اس نے پوچھا کہ اسلام کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر جواب دیا کہ اسلام یہ ہے کہ تم خالص اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شرک نہ بنائو اور نماز قائم کرو اور زکو فرض ادا کرو رمضان کے روزے رکھو پھر اس نے احسان کے متعلق پوچھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا احسان یہ کہ تم اللہ کی عبادت اس طرح کرو گویا تم اسے دیکھ رہے ہو اگر یہ درجہ نہ حاصل ہو تو پھر یہ تو سمجھو کہ وہ تم کو دیکھ رہا ہے پھر اس نے پوچھا کہ قیامت کب آئے گی؟ آپ نے فرمایا اس کے بارے میں جواب دینے والا پوچھنے والے سے کچھ زیادہ نہیں جانتا (البتہ) میں اس کی نشانیاں بتا سکتا ہوں وہ یہ ہیں کہ جب لونڈی اپنے آقا کو جنے گی اور جب سیاہ اونٹوں کے چرانے والے (دیہاتی لوگ ترقی کرتے کرتے) مکانات کی تعمیر میں ایک دوسرے سے ترقی لے جانے کی کوشش کریں گے (یاد رکھو) قیامت کا علم ان پانچ چیزوں میں ہے جن کو اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت پڑھی کہ اللہ ہی کو قیامت کا علم ہے کہ وہ کب ہو گی (آخر آیت تک) پھر وہ پوچھنے والا پیٹھ پھیر کر جانے لگا پھر آپ نے فرمایا کہ اسے واپس بلا کر لائو لوگ دوڑ پڑے مگر وہ کہیں نظر نہیں آیا آپ نے فرمایا کہ یہ جبرئیل g تھے جو لوگوں کو ان کا دین سکھانے آئے تھے۔ [اللؤلؤ والمرجان/کِتَابُ الْاِیْمَانِ/حدیث: 5]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 2 كتاب الإيمان: 37 باب سؤال جبريل النبي صلی اللہ علیہ وسلم عن الإيمان والإسلام»

3. باب بيان الصلوات التي هي أحد أركان الإسلام
3. باب: نماز کا بیان جو ارکان اسلام میں ہے
حدیث نمبر: 6
6 صحيح حديث طَلْحَةَ بن عُبَيْد الله قال: جاءَ رجلٌ إِلى رسولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ من أهل نجْدٍ ثائرُ الرأسِ يُسْمَعُ دوِيُّ صوتِهِ ولا يُفْقَهُ ما يقول، حتى دنا فإِذا هو يسأَل عن الإسلام؛ فقال رسول الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: خمسُ صلواتٍ في اليومِ والليلةِ فقال: هل عليّ غيرُها قال: لا إِلاَّ أَنْ تَطَوَّعَ قال رسول الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: وصيامُ رمضانَ قال: هل عليّ غيره قال: لا إِلاَّ أَن تَطَوَّعَ قال، وذكر له رسول الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الزكاةَ قال هل عليَّ غيرُها قال لا إِلاَّ أَنْ تَطَوَّعَ قال فأَدبر الرجل وهو يقول: والله لا أزيد على هذا ولا أَنْقصُ قال رسول الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَفْلَحَ إِنْ صَدَقَ
سیّدنا طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نجد والوں میں سے ایک شخص نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، سر پریشان یعنی بال بکھرے ہوئے تھے، ہم اس کی آواز کی بھنبھناہٹ سنتے تھے، اور ہم سمجھ نہیں پا رہے تھے، کہ وہ کیا کہہ رہا ہے۔ یہاں تک کہ وہ نزدیک آن پہنچا، تو معلوم ہوا کہ وہ اسلام کے بارے میں پوچھ رہا ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسلام دن رات میں پانچ نمازیں پڑھنا ہے۔ اس نے کہا بس اس کے سوا تو اور کوئی نماز مجھ پر نہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں مگر تو نفل پڑھے (تو اور بات ہے) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اور رمضان کے روزے رکھنا۔ اس نے کہا اور تو کوئی روزہ مجھ پر نہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں مگر تو نفلی روزے رکھے (تو اور بات ہے) سیّدنا طلحہ رضی اللہ عنہ نے کہا اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے زکوٰۃ کا بیان کیا۔ وہ کہنے لگا بس اور تو کوئی صدقہ مجھ پر نہیں ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں مگر یہ کہ تو نفل صدقہ دے (تو اور بات ہے) راوی نے کہا پھر وہ شخص پیٹھ موڑ کر چلا گیا اور یوں کہتا جا رہا تھا، اللہ کی قسم میں نہ اس سے بڑھاؤں گا نہ گھٹاؤں گا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر یہ سچا ہے تو اپنی مراد کو پہنچ گیا۔ [اللؤلؤ والمرجان/کِتَابُ الْاِیْمَانِ/حدیث: 6]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 2 كتاب الإيمان: 34 باب الزكاة من الإسلام»

4. باب بيان الإيمان الذي يدخل به الجنة
4. باب: ایمان کا بیان جس سے جنت میں داخل ہوگا
حدیث نمبر: 7
7 صحيح حديث أبي أيوبَ الأَنصاريّ رضي الله عنه أَنَّ رجلاً قال: يا رسول الله أخبرني بعمل يُدْخِلُني الجنة، فقال القوم: مَا لَهُ مَالَه فقال رسولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَرَبٌ مَّا لَهُ فقال النبيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: تعبُدُ اللهَ لا تُشْرِكُ بهِ شيئًا وتُقيمُ الصَّلاةَ وَتُؤْتِي الزكاةَ وَتَصِلُ الرَّحِمَ ذرْها قَال كأنّه كانَ عَلى رَاحِلَتِهِ
سیّدنا ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ایک صاحب نے کہا یا رسول اللہ کوئی ایسا عمل بتلائیں جو مجھے جنت میں لے جائے؟ اس پر لوگوں نے کہا کہ اسے کیا ہو گیا ہے؟ اسے کیا ہو گیا ہے؟ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیوں کیا ہو گیا ہے اس کی ضرورت ہے اس لیے پوچھتا ہے اس کے بعد آپ نے ان سے فرمایا کہ اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی اور کو شریک نہ کرو نماز قائم کرو زکوۃ دیتے رہو اور صلہ رحمی کرتے رہو بس یہ اعمال تجھ کو جنت میں لے جائیں گے چل اب نکیل چھوڑ دے۔ [اللؤلؤ والمرجان/کِتَابُ الْاِیْمَانِ/حدیث: 7]
تخریج الحدیث: «صحیح، _x000D_ أخرجه البخاري في: 78 كتاب الأدب: 10 باب فضل صلة الرحم»

حدیث نمبر: 8
8 صحيح حديث أَبي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه أَنَّ أَعْرابِيًّا أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقالَ: دُلَّني عَلى عَمَلٍ إِذا عَمِلْتُهُ دَخَلْتُ الجنة قَالَ: تَعْبُدُ اللهَ لا تُشْرِكُ بِهِ شَيْئًا، وَتُقيمُ الصَّلاةَ المَكْتُوبَةَ، وَتُؤَدِّي الزَّكَاةَ الْمفْروضَة وَتَصُومُ رَمَضانَ قَالَ وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لاَ أَزِيدُ عَلى هذا فَلَمّا وَلّى، قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ سَرَّهُ أَنْ يَنْظُرَ إِلَى رَجُلٍ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ فَلْيَنْظُرْ إِلى هَذا
سیّدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ایک دیہاتی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آیا اور عرض کی کہ آپ مجھے کوئی ایسا کام بتلائیے جس پر اگر میں ہمیشگی کروں تو جنت میں داخل ہو جاؤں آپ نے فرمایا کہ اللہ کی عبادت کر اس کا کسی کو شریک نہ ٹھہرا فرض نماز قائم کر فرض زکوۃ دے اور رمضان کے روزے رکھ دیہاتی نے کہا اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ان عملوں پر میں کوئی زیادتی نہیں کروں گا جب وہ پیٹھ موڑ کر جانے لگا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر کوئی ایسے شخص کو دیکھنا چاہے جو جنت والوں میں سے ہو تو وہ اس شخص کو دیکھ لے۔ [اللؤلؤ والمرجان/کِتَابُ الْاِیْمَانِ/حدیث: 8]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في 24 كتاب الزكاة: 1 باب وجوب الزكاة»

5. باب قول النبي صلی اللہ علیہ وسلم بُني الإسلام على خمس
5. باب: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان کہ اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے
حدیث نمبر: 9
9 صحيح حديث ابْنِ عُمَرَ رضي الله عنهما قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: بُنِيَ الإِسْلامُ عَلى خَمْسٍ: شَهادَةِ أَنْ لاَ إِلهَ إِلاَّ اللهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللهِ وَإِقامِ الصَّلاةِ وَإِيتاءَ الزَّكاةِ وَالْحَجِّ وَصَوْمِ رَمَضَانَ
سیّدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہماسے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر قائم کی گئی ہے۔ اول گواہی دینا کہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی معبود نہیں اور بے شک سیّدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے سچے رسول ہیں اور نماز قائم کرنا اور زکوٰۃ ادا کرنا اور حج کرنا اور رمضان کے روزے رکھنا۔ [اللؤلؤ والمرجان/کِتَابُ الْاِیْمَانِ/حدیث: 9]
تخریج الحدیث: «صحیح، _x000D_ أخرجه البخاري في: 2 كتاب الإيمان: 2 باب دعاؤكم إيمانكم»

6. باب الأمر بالإيمان بالله ورسوله وشرائع الدين والدعاء إليه
6. باب: اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے کا حکم اور دین کے احکامات وشرائع اور اس کی دعوت دینا
حدیث نمبر: 10
10 صحيح حديث ابْنِ عَبّاس قَالَ إِنَّ وَفْدَ عَبْدِ الْقَيْسِ لَمّا أَتَوُا النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: مَنِ الْقَوْمُ أَوْ مَنِ الْوَفْدُ قَالُوا: رَبِيعَةَ قَالَ: مَرْحَبًا بِالْقَوْمِ أَوْ بِالْوَفْدِ غَيْرَ خَزايا وَلاَ نَدَامَى فَقالُوا: يا رَسُولَ اللهِ إِنَّا لاَ نَسْتَطِيعُ أَنْ نَأْتِيَكَ إِلاَّ في الشَّهْرِ الْحَرامِ، وَبَيْنَنَا وَبَيْنَكَ هَذا الْحَيُّ مِنْ كُفّارِ مُضَرَ، فَمُرْنَا بِأَمْرٍ فَصْلٍ نُخْبِرْ بِهِ مَنْ وَرَاءَنا وَنَدْخُلْ بِهِ الْجَنَّةَ وَسَأَلُوهُ عَنِ الأَشْرِبَةِ فَأَمَرَهُمْ بِأَرْبَعٍ وَنَهاهُمْ عَنْ أَرْبَعٍ: أَمَرَهُمْ بِالإِيمانِ بِاللهِ وَحْدَهُ، قَالَ: أَتَدْرُونَ مَا الإِيمانُ بِاللهِ وَحْدَهُ قَالُوا: اللهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ: شَهادَةُ أَنْ لاَ إِلهَ إِلاّ اللهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللهِ، وَإِقامُ الصَّلاةِ وَإِيتاءُ الزَّكاةِ وَصِيامُ رَمَضَانَ وَأَنْ تُعْطُوا مِنَ الْمغنَمِ الْخُمُسَ وَنَهاهُمْ عَنْ أَرْبَعٍ: عَنِ الْحَنْتَمِ وَالدُّبَّاءِ وَالنَّقِيرِ وَالمُزَفَّتِ وَرُبَّما قَالَ المُقَيَّرِ وَقالَ: احْفَظُوهُنَّ وَأَخْبِرُوا بِهِنَّ مَنْ وَراءَكُمْ
سیّدناابن عباس رضی اللہ عنہمانے بیان کیا کہ عبدالقیس کا وفد جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا تو آپ نے پوچھا کہ کس قوم کے لوگ ہیں یا یہ وفد کہاں کا ہے؟ انہوں نے کہا کہ ربیعہ خاندان کے لوگ ہیں آپ نے فرمایا مرحبا (خوش آمدید)اس قوم کو یا اس وفد کو نہ ذلیل ہونے والے نہ شرمندہ ہونے والے (یعنی ان کا آنا بہت خوب ہے) وہ کہنے لگے اے اللہ کے رسول ہم آپ کی خدمت میں صرف ان حرمت والے مہینوں میں آ سکتے ہیں کیونکہ ہمارے اور آپ کے درمیان مضر کے کافروں کا قبیلہ آباد ہے پس آپ ہم کو ایک ایسی قطعی بات بتلا دیجئے جس کی خبر ہم اپنے پچھلے لوگوں کو بھی کر دیں جو یہاں نہیں آئے اور اس پر عمل درآمد کر کے ہم جنت میں داخل ہو جائیں اس کے علاوہ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے برتنوں کے بارے میں بھی پوچھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو چار باتوں کا حکم دیا اور چار قسم کے برتنوں کو استعمال میں لانے سے منع فرمایا ان کو حکم دیا کہ ایک اکیلے خدا پر ایمان لاؤ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ جانتے ہو ایک اکیلے خدا پر ایمان لانے کا مطلب کیا ہے؟ انہوں نے کہا کہ اللہ اور اس کے رسول کو ہی معلوم ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور یہ کہ سیّدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے سچے رسول ہیں اور نماز قائم کرنا اور زکوۃ ادا کرنا اور رمضان کے روزے رکھنا اور مال غنیمت سے جو ملے اس کا پانچواں حصہ (مسلمانوں کے بیت المال میں) داخل کرنا نیز چار برتنوں کے استعمال سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو منع فرمایا سبز لاکھی مرتبان سے، کدو کے بنائے ہوئے برتن سے، لکڑی کے کھودے ہوئے برتن سے اور روغنی برتن سے اور فرمایا کہ ان باتوں کو حفظ کر لو اور ان لوگوں کو بھی بتلا دینا جو تم سے پیچھے ہیں اور یہاں نہیں آئے ہیں۔ [اللؤلؤ والمرجان/کِتَابُ الْاِیْمَانِ/حدیث: 10]
تخریج الحدیث: «صحیح، _x000D_ أخرجه البخاري في: 2 كتاب الإيمان: 40 باب أداء الخمس من الإيمان»

حدیث نمبر: 11
11 صحيح حَدْيث ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمَّا بَعَثَ مُعَاذاً رضي الله عنه عَلى الْيَمنِ قَالَ: إِنَّكَ تَقْدَمُ عَلى قَوْمِ أَهْلِ كِتَابٍ، فَلْيَكُنْ أَوَّلَ مَا تَدْعُوهُمْ إِلَيْهِ عِبادَةُ اللهِ، فَإِذَا عَرَفُوا اللهَ فَأَخْبِرْهُمْ أَنَّ اللهَ قَدْ فَرَضَ عَلَيْهِمْ خَمْسَ صَلَواتٍ في يَوْمِهِمْ وَلَيْلَتِهِمْ، فَإِذا فَعَلُوا فَأَخْبِرْهُمْ أَنَّ اللهَ فَرَضَ عَلَيْهِمْ زَكاةً مِنْ أَمْوالِهِمْ وَتَردُّ عَلى فُقَرائِهِمْ فَإِذا أَطَاعُوا بِها فَخُذْ مِنْهُمْ وَتَوَقَّ كَرائِم أَمْوالِ النَّاسِ
سیّدنا ابن عباس رضی اللہ عنہمانے بیان کیا کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیّدنا معاذ رضی اللہ عنہ کو یمن بھیجا تو ان سے فرمایا کہ دیکھو تم ایک ایسی قوم کے پاس جا رہے ہو جو اہل کتاب (عیسائی یہودی) ہیں اس لیے سب سے پہلے انہیں اللہ کی عبادت کی دعوت دینا جب وہ اللہ تعالیٰ کو پہچان لیں (یعنی اسلام قبول کر لیں) تو انہیں بتانا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے دن اور رات میں پانچ نمازیں فرض کی ہیں جب وہ اسے بھی ادا کریں تو انہیں بتانا کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر زکوۃ فرض قرار دی ہے جو ان کے سرمایہ داروں سے لی جائے گی (جو صاحب نصاب ہوں گے) اور انہیں کے فقیروں میں تقسیم کر دی جائے گی جب وہ اسے بھی مان لیں تو ان سے زکوۃ وصول کرنا البتہ ان کی عمدہ چیزیں (زکوۃ کے طور پر لینے سے) پرہیز کرنا۔ [اللؤلؤ والمرجان/کِتَابُ الْاِیْمَانِ/حدیث: 11]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 24 كتاب الزكاة: 41 باب لا تؤخذ كرائم أموال الناس في الصدقة»

حدیث نمبر: 12
12 صحيح حديث ابْنُ عَبّاسٍ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعَثَ مُعاذًا إِلى الْيَمَنِ فَقالَ: اتَّقِ دَعْوَةَ المَظْلُومِ فَإِنَّها لَيْسَ بَيْنَها وَبَيْنَ اللهِ حِجابٌ
سیّدنا ابن عباس رضی اللہ عنہمانے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیّدنا معاذ رضی اللہ عنہ کو جب (عامل بنا کر) یمن بھیجا تو آپ نے انہیں ہدایت فرمائی کہ مظلوم کی بددعا سے ڈرتے رہنا کہ اس کے اور اللہ تعالیٰ کے درمیان کوئی پردہ نہیں ہوتا۔ [اللؤلؤ والمرجان/کِتَابُ الْاِیْمَانِ/حدیث: 12]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 46 كتاب المظالم: 9 باب الاتقاء والحذر من دعوة المظلوم»

7. باب الأمر بقتال الناس حتى يقولوا لا إِله إِلا الله محمد رسول الله
7. جو لوگ لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ نہیں کہتے ان سے جنگ کرنے کا حکم ہے
حدیث نمبر: 13
13 صحيح حديث أَبي بَكْر وَعُمَر قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ: لَمّا تُوُفِّيَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَكانَ أَبُو بَكْرٍ رضي الله عنه، وَكَفَرَ مَنْ كَفَرَ مِنَ الْعَرَب، فَقالَ عُمَرُ رضي الله عنه: كَيْفَ تُقاتِلُ النَّاسَ وَقَدْ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أُمِرْتُ أَنْ أُقاتِلَ النَّاسَ حَتّى يَقُولوا لا إِلهَ إِلاَّ اللهُ، فَمَنْ قالَها فَقَدْ عَصَمَ مِنِّي مَالَهُ وَنَفْسَهُ إِلاَّ بِحَقِّهِ، وَحِسابُهُ عَلى اللهِ فَقالَ أَبُو بَكْرٍ: وَاللهِ لأُقاتِلَنَّ مَنْ فَرَّقَ بَيْنَ الصَّلاةِ وَالزَّكاةِ، فَإِنَّ الزَّكاةَ حَقُّ الْمالِ، وَاللهِ لَوْ مَنَعُوني عَناقًا كَانوا يُؤَدُّونَها إِلى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَقاتَلْتُهُمْ عَلى مَنْعِها قالَ عُمَر رضي الله عنه: فَواللهِ ما هُوَ إِلاَّ أَنْ قَدْ شَرَحَ اللهُ صَدْرَ أَبي بَكْرٍ رضي الله عنه فَعَرَفْتُ أَنَّهُ الْحَقُّ
سیّدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہو گئے اور سیّدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ خلیفہ ہوئے تو عرب کے کچھ قبائل کافر ہو گئے (اور کچھ نے زکوۃ سے انکار کر دیا اور سیّدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ان سے لڑنا چاہا) تو سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کی موجودگی میں کیونکر جنگ کر سکتے ہیں کہ مجھے حکم ہے کہ میں لوگوں سے اس وقت تک جنگ کروں جب تک کہ وہ لا الہ الا اللہ کی شہادت نہ دے دیں اور جو شخص اس کی شہادت دے دے تو میری طرف سے اس کا مال و جان محفوظ ہو جائے گا سوائے اسی کے حق کے (یعنی قصاص وغیرہ کی صورتوں کے) اور اس کا حساب اللہ کے ذمہ ہو گا اس پر سیّدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ قسم اللہ کی میں ہر اس شخص سے جنگ کروں گا جو زکوۃ اور نماز میں تفریق کرے گا (یعنی نماز تو پڑھے مگر زکوۃ کے لئے انکار کر دے) کیونکہ زکوۃ مال کا حق ہے خدا کی قسم اگر انہوں نے زکوۃ میں چار مہینے کے بچے کے دینے سے بھی انکار کیا جسے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیتے تھے تو میں ان سے لڑوں گا سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ بخدا یہ بات اس کا نتیجہ تھی کہ اللہ تعالیٰ نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کا سینہ اسلام کے لئے کھول دیا تھا اور بعد میں میں بھی اس نتیجہ پر پہنچا کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ ہی حق پر تھے۔ [اللؤلؤ والمرجان/کِتَابُ الْاِیْمَانِ/حدیث: 13]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 24 كتاب الزكاة: 1 باب وجوب الزكاة»

حدیث نمبر: 14
14 صحيح حديث أَبي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أُمِرْتُ أَنْ أُقاتِلَ النَّاسَ حَتّى يَقُولُوا لا إِلهَ إِلاّ اللهُ، فَمَنْ قَالَ لا إِلهَ إِلاّ اللهُ فَقَدْ عَصَمَ مِنّي نَفْسَهُ وَمالَهُ إِلاَّ بِحَقِّهِ، وَحِسابُهُ عَلى اللهِ
سیّدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے اس وقت تک جنگ کرتا رہوں یہاں تک کہ وہ اس کا اقرار کر لیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں پس جس نے اقرار کر لیا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں تو اس کی جان اور مال ہم سے محفوظ ہے سوائے اس حق کے جس کی بناء پر قانوناً اس کی جان و مال زد میں آئے اور اس کا حساب اللہ کے ذمہ ہے۔ [اللؤلؤ والمرجان/کِتَابُ الْاِیْمَانِ/حدیث: 14]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 56 كتاب الجهاد: 102 باب دعاء النبي صلی اللہ علیہ وسلم إلى الإسلام والنبوة»


1    2    3    4    5    Next