1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:


صحيح ابن خزيمه
جماع أَبْوَابِ ذِكْرِ أَفْعَالٍ اخْتَلَفَ النَّاسُ فِي إِبَاحَتِهِ لِلْمُحْرِمِ، نَصَّتْ سُنَّةُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَوْ دَلَّتْ عَلَى إِبَاحَتِهَا
ایسے افعال کے ابواب کا مجموعہ کے محرم کے لئے، جنہیں کرنے کے جواز میں علماء کا اختلاف ہے ¤ جبکہ سنّت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ان کے جواز اور اباحت پر دلالت کرتی ہے
1879. ‏(‏138‏)‏ بَابُ ذِكْرِ الدَّلِيلِ عَلَى أَنَّ كَعْبًا أَمَرَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِحَلْقِ رَأْسِهِ وَيَفْتَدِي بِصِيَامٍ أَوْ صَدَقَةٍ أَوْ نُسُكٍ،
1879. اس بات کی دلیل کا بیان کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا کعب رضی اللہ عنہ کو سر منڈوا کر روزے رکھنے یا صدقہ کرنے یا قربانی کرنے کا حُکم
حدیث نمبر: Q2677
قَبْلَ أَنْ يُبَيِّنَ لَهُمْ أَنَّهُمْ يَحْلِقُونَ بِالْحُدَيْبِيَةِ وَيَرْجِعُونَ إِلَى الْمَدِينَةِ مِنْ غَيْرِ وُصُولٍ إِلَى مَكَّةَ
اس وضاحت سے پہلے دیا تھا کہ وہ حدیبیہ ہی میں سر منڈوائیں گے اور مکّہ مکرّمہ پہنچے بغیر ہی مدینہ منوّرہ واپس لوٹ جائیںگے [صحيح ابن خزيمه/جماع أَبْوَابِ ذِكْرِ أَفْعَالٍ اخْتَلَفَ النَّاسُ فِي إِبَاحَتِهِ لِلْمُحْرِمِ، نَصَّتْ سُنَّةُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَوْ دَلَّتْ عَلَى إِبَاحَتِهَا/حدیث: Q2677]
تخریج الحدیث:

حدیث نمبر: 2677
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ ، وَالثَّوْرِيُّ , عَنِ ابْنِ أَبِي نَجِيحٍ ، عَنْ مُجَاهِدٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى ، عَنْ كَعْبِ بْنِ عُجْرَةَ ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَرَّ بِهِ وَهُوَ يُوقِدُ تَحْتَ بُرْمَةٍ، أَوْ قَالَ: تَحْتَ قِدْرٍ، وَالْقَمْلُ تَتَسَاقَطُ عَلَى وَجْهِهِ، فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَيُؤْذِيكَ هَذِهِ؟" فَقَالَ: نَعَمْ، يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَنَزَلَتْ فَفِدْيَةٌ مِنْ صِيَامٍ أَوْ صَدَقَةٍ أَوْ نُسُكٍ سورة البقرة آية 196، فَأَمَرَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُمْ بِالْحُدَيْبِيَةِ، وَلَمْ يُبَيِّنْ لَهُمْ أَنَّهُمْ يَحْلِقُونَ بِهَا وَهُمْ عَلَى طَمَعٍ أَنْ يَدْخُلُوا مَكَّةَ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: الْفِدْيَةَ،" فَأَمَرَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَحْلِقَ وَيَصُومَ ثَلاثَةَ أَيَّامٍ، أَوْ يُطْعِمَ فَرَقًا بَيْنَ سِتَّةِ مَسَاكِينٍ، أَوْ يَذْبَحَ شَاةً" ، قَالَ أَبُو بَكْرٍ: خَبَرُ شِبْلٍ، عَنِ ابْنِ أَبِي نَجِيحٍ مِنْ هَذَا الْبَابِ أَيْضًا، خَرَّجْتُهُ فِي الْبَابِ الَّذِي يَلِي هَذَا
سیدنا کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اُن کے پاس سے گزرے جبکہ وہ ہنڈیا کے نیچے آگ جلا رہے تھے۔ اُس وقت اُن کی جوئیں اُن کے چہرے پر گر رہی تھیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تمہیں یہ جوئیں تکلیف دے رہی ہیں؟ انہوں نے عرض کیا کہ جی ہاں، اے اللہ کے رسول۔ تو یہ آیت نازل ہوئی «‏‏‏‏فَفِدْيَةٌ مِّن صِيَامٍ أَوْ صَدَقَةٍ أَوْ نُسُكٍ» ‏‏‏‏ [ سورة البقرة: 196 ] (جوشخص حالت احرام میں سر منڈوائے) تو وہ فدیے میں روزے رکھے یا صدقہ کرے یا قربانی کرے۔ لہٰذا نبی نے اُنہیں حُکم دیا کہ جبکہ ابھی صحابہ کرام حدیبیہ ہی میں تھے۔ اور آپ نے انہیں یہ نہیں بتایا تھا کہ وہ حدیبیہ ہی میں سر منڈوائیں گے، صحابہ کرام کی خواہش تو یہ تھی کہ وہ مکّہ مکرّمہ میں داخل ہوںگے (اور عمرہ ادا کریںگے) چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فدیہ والی آیت نازل فرمادی تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نےسیدنا کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ کو حُکم دیا کہ وہ اپنا سر منڈوالیں اور تین روزے رکھیں یا ایک فرق (تین صاع) اناج چھ مسکینوں کو کھلا دیں یا ایک بکری ذبح کردیں (اور غرباء میں تقسیم کردیں)۔ [صحيح ابن خزيمه/جماع أَبْوَابِ ذِكْرِ أَفْعَالٍ اخْتَلَفَ النَّاسُ فِي إِبَاحَتِهِ لِلْمُحْرِمِ، نَصَّتْ سُنَّةُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَوْ دَلَّتْ عَلَى إِبَاحَتِهَا/حدیث: 2677]
تخریج الحدیث: انظر الحديث السابق

1880. ‏(‏139‏)‏ بَابُ ذِكْرِ الدَّلِيلِ عَلَى أَنَّ فِي قَوْلِهِ تَعَالَى‏:‏ ‏[‏وَلَا تَحْلِقُوا رُءُوسَكُمْ حَتَّى يَبْلُغَ الْهَدْيُ مَحِلَّهُ فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ مَرِيضًا أَوْ بِهِ أَذًى مِنْ رَأْسَهُ فَفِدْيَةٌ مِنْ صِيَامٍ أَوْ صَدَقَةٍ‏]‏ ‏[‏الْبَقَرَةِ‏:‏ 196‏]‏
1880. اس بات کی دلیل کا بیان کہ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد «‏‏‏‏وَلَا تَحْلِقُوا رُءُوسَكُمْ----مِّن صِيَامٍ أَوْ صَدَقَةٍ» ‏‏‏‏ [ سورة البقرة:196 ] ”اور تم اپنے سروں کو نہ منڈواوَ کہ قربانی کا جانور اپنی قربان گاہ میں پہنچ جائے، پس تم میں سے جو شخص بیمار ہو یا اس کے سر میں کوئی تکلیف ہوتو وہ روزے رکھ کر، صدقہ دیکر یا قربانی کرکے فدیہ دے“ ”میں کلام مختصر ہے
حدیث نمبر: Q2678
[صحيح ابن خزيمه/جماع أَبْوَابِ ذِكْرِ أَفْعَالٍ اخْتَلَفَ النَّاسُ فِي إِبَاحَتِهِ لِلْمُحْرِمِ، نَصَّتْ سُنَّةُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَوْ دَلَّتْ عَلَى إِبَاحَتِهَا/حدیث: Q2678]
تخریج الحدیث:

حدیث نمبر: 2678
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَعْمَرٍ الْقَيْسِيُّ ، حَدَّثَنَا رَوْحٌ ، حَدَّثَنَا شِبْلٌ ، عَنِ ابْنِ أَبِي نَجِيحٍ ، عَنْ مُجَاهِدٍ ، قَالَ: حَدَّثَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي لَيْلَى ، عَنْ كَعْبِ بْنِ عُجْرَةَ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَآهُ، وَقَمْلُهُ يَسْقُطُ عَلَى وَجْهِهِ، فَقَالَ: " أَيُؤْذِيكَ هَوَامُّكَ"، قَالَ: نَعَمْ، فَأَمَرَهُ أَنْ يَحْلِقَ وَهُوَ بِالْحُدَيْبِيَةِ لَمْ يُبَيِّنْ لَهُمْ أَنْ يَحِلُّوا بِهَا وَهُمْ عَلَى طَمَعٍ أَنْ يَدْخُلُوا مَكَّةَ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ الْفِدْيَةَ، فَأَمَرَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يُطْعِمَ فَرَقًا بَيْنَ سِتَّةٍ، أَوِ الْهَدْيَ شَاةً، أَوْ يَصُومَ ثَلاثَةَ أَيَّامٍ" ، قَالَ أَبُو بَكْرٍ: قَدْ بَيَّنْتُ فِي كِتَابِ الأَيْمَانِ وَالْكَفَّارَاتِ مَبْلَغَ الْفَرَقِ، وَأَنَّهُ ثَلاثَةُ آصُعٍ، وَبَيَّنْتُ أَنَّ الصَّاعَ أَرْبَعَةُ أَمْدَادٍ، وَأَنَّ الْفَرَقَ سِتَّةَ عَشَرَ رِطْلا، وَأَنَّ الصَّاعَ ثُلُثُهُ، إِذِ الْفَرَقُ ثَلاثَةُ آصُعٍ، وَالصَّاعُ خَمْسَةُ أَرْطَالٍ وَثُلُثٌ بِدَلائِلِ أَخْبَارِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَهَذِهِ الآيَةُ مِنَ الْجِنْسِ الَّذِي يَقُولُ إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ أَجْمَلَ فَرِيضَةً، وَبَيَّنَ مَبْلَغَهُ عَلَى لِسَانِ نَبِيِّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، إِذِ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ أَمَرَ بِالْفِدْيَةِ فِي حَلْقِ الرَّأْسِ فِي كِتَابِهِ بِصِيَامٍ لَمْ يَذْكُرْ فِي الْكِتَابِ عَدَدَ أَيَّامِ الصِّيَامِ، وَلا مَبْلَغَ الصَّدَقَةِ، وَلا عَدَدَ مَنْ يُصَدَّقُ بِصَدَقَةِ الْفِدْيَةِ عَلَيْهِمْ، وَلا وَصَفَ النُّسُكَ، فَبَيَّنَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الَّذِي وَلاهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ بَيَانَ مَا أَنْزَلَ عَلَيْهِ مِنْ وَجْهِ أَنَّ الصِّيَامَ ثَلاثَةُ أَيَّامٍ، وَالصَّدَقَةَ ثَلاثَةُ آصُعٍ عَلَى سِتَّةِ مَسَاكِينٍ، وَأَنَّ النُّسُكَ شَاةٌ، وَذِكْرُ النُّسُكِ فِي هَذَا الْخَبَرِ هُوَ مِنَ الْجِنْسِ الَّذِي يَقُولُ: إِنَّ الْحُكْمَ بِالْمِثْلِ وَالشَّبَهِ وَالنَّظِيرِ وَاجِبٌ، فَسُبْعُ بَقَرَةٍ، وَسُبْعُ بَدَنَةٍ فِي فِدْيَةِ حَلْقِ الرَّأْسِ جَائِزٌ أَوْ سُبْعُ بَقَرَةٍ، وَسُبْعُ بَدَنَةٍ يَقُومُ مَقَامَ شَاةٍ فِي الْفِدْيَةِ، وَفِي الأُضْحِيَّةِ وَالْهَدْيِ، وَلَمْ يَخْتَلِفِ الْعُلَمَاءُ أَنَّ سُبْعَ بَدَنَةٍ، وَسُبْعَ بَقَرَةٍ يَقُومُ كُلُّ سُبْعٍ مِنْهَا مَقَامَ شَاةٍ فِي هَدْيِ التَّمَتُّعِ، وَالْقِرَانِ، وَالأُضْحِيَةِ لَمْ يَخْتَلِفُوا فِي ذَلِكَ الأَمْرِ، زَعَمَ أَنَّ الْقِرَانَ لا يَكُونُ إِلا بِسَوْقِ بَدَنَةٍ أَوْ بَقَرَةٍ، قَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ: إِنَّ عُشْرَ بَدَنَةٍ يَقُومُ مَقَامَ شَاةٍ فِي جَمِيعِ ذَلِكَ، فَمَنْ أَجَازَ عُشْرَ بَدَنَةٍ فِي ذَلِكَ كَانَ لِسُبْعِهِ أَجُوزَ إِذِ السُّبْعُ أَكْثَرُ مِنَ الْعُشْرِ، وَقَدْ كُنْتُ أَمْلَيْتُ عَلَى بَعْضِ أَصْحَابِنَا مَسْأَلَةً فِي هَذِهِ الآيَةِ، وَبَيَّنْتُ أَنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ قَدْ يُوجِبُ الشَّيْءَ فِي كِتَابِهِ بِمَعْنًى، وَقَدْ يَجِبُ ذَلِكَ الشَّيْءُ بِغَيْرِ ذَلِكَ الْمَعْنَى الَّذِي أَوْجَبَهُ اللَّهُ فِي الْكِتَابِ إِمَّا عَلَى لِسَانِ نَبِيِّهِ الْمُصْطَفي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَوْ عَلَى لِسَانِ أُمَّتِهِ، لأَنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ إِنَّمَا أَوْجَبَ فِي هَذِهِ الآيَةِ عَلَى مَنْ أَصَابَهُ فِي رَأْسِهِ، أَوْ كَانَ بِهِ مَرَضٌ فَحَلَقَ رَأْسَهُ، وَقَدْ تَجِبُ عِنْدَ جَمِيعِ الْعُلَمَاءِ هَذِهِ الْفِدْيَةُ عَلَى حَالِقِ الرَّأْسِ وَإِنْ لَمْ يَكُنْ بِهِ أَذًى مِنْ رَأْسِهِ، وَلا كَانَ مَرِيضًا، وَكَانَ عَاصِيًا بِحَلْقِ رَأْسِهِ إِذَا لَمْ يَكُنْ بِرَأْسِهِ أَذًى، وَلا كَانَ بِهِ مَرِضٌ، فَبَيَّنْتُ فِي ذَلِكَ الْمَوْضِعِ أَنَّ الْحُكْمَ بِالنَّظِيرِ وَالشَّبِيهِ فِي هَذَا الْمَوْضِعِ وَاجِبٌ، وَلَوْ لَمْ يَجُزِ الْحُكْمُ للْمَثَلِ وَالشَّبِيهِ وَالنَّظِيرِ لَمْ يَجِبْ عَلَى مَنْ جَزَّ شَعْرَ رَأْسِهِ بِمِقْرَاضٍ أَوْ فِدْيَةٍ، إِذِ اسْمُ الْحِلَقِ لا يَقَعُ عَلَى الْجَزِّ وَلَكِنْ إِذَا وَجَبَ الْحُكْمُ بِالنَّظِيرِ وَالشَّبِيهِ وَالْمَثَلِ كَانَ عَلَى جَازِّ شَعْرَ الرَّأْسِ فِي الإِحْرَامِ مِنَ الْفِدْيَةِ مَا عَلَى الْحَالِقِ، وَهَذِهِ مَسْأَلَةٌ طَوِيلَةٌ قَدْ أَمْلَيْتُهَا فِي ذَلِكَ الْمَوْضِعِ
سیدنا کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُنہیں دیکھا جب کہ اُن کی جوئیں اُن کے چہرے پر گر رہی تھیں۔ تو آپ نے پوچھا: کیا تمہیں تمہاری جوئیں تکلیف دے رہی ہیں؟ اُنہوں نے عرض کیا کہ جی ہاں۔ پس آپ نے اُنہیں حُکم دیا کہ وہ اپنا سر منڈوائیں حالانکہ وہ حدیبیہ ہی میں تھے، آپ نے صحابہ کرام کو ابھی یہ نہیں بتایا تھا کہ وہ حدیبیہ میں سر منڈوا دیںگے جب کہ صحابہ کرام کی خواہش تھی کہ وہ مکّہ مکرّمہ میں داخل ہوںگے (اور عمرہ ادا کریںگے) تو اللہ تعالیٰ نے فدیہ کا حُکم نازل فرما دیا۔ پس رسول اللہ نے اُنہیں حُکم دیا کہ وہ ایک فرق (تین صاع) اناج چھ مسکینوں کو کھلا دیں یا ایک بکری ذبح کردیں یا تین روزے رکھ لیں۔ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ میں نے کتاب الایمان اور کفارات میں فرق کی مقدار بیان کردی ہے کہ وہ تین صاع ہوتا ہے۔ اور میں نے یہ بیان کردیا ہے کہ ایک صاع چار مد ہوتا ہے اور ایک فرق سولہ رطل ہوتا ہے۔ اور ایک صاع ایک تہائی فرق ہوتا ہے کیونکہ ایک فرق تین صاع ہوتا ہے۔ اور ایک صاع پانچ رطل اور تہائی رطل کے برابر ہوتا ہے۔ میں نے یہ مقدار نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنّت کے دلائل سے بیان کی ہیں۔ اور یہ آیت کریمہ بھی اس قسم کے متعلق ہے جس کے بارے میں ہم کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ایک فریضہ مجمل بیان کیا ہے اور اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کی زبانی اس کی مقدار بیان کی ہے۔ کیونکہ الله تعالیٰ نے سر منڈوانے پر روزہ رکھ کر فدیہ دینے کا حُکم اپنی کتاب میں دیا ہے لیکن قرآن مجید میں ان روزوں کی تعداد صدقے کی مقدار، صدقے کے تحت لوگوں کی تعداد اور قربانی کا وصف بیان نہیں فرمایا۔ لہٰذا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جنہیں اللہ تعالیٰ نے اپنی وحی کی وضاحت کرنے کی ذمہ داری سونپی ہے، اُنہوں نے بیان فرمایا کہ فدیے میں تین روزے رکھنے ہوںگے، اور صدقے میں تین صاع اناج چھ مسکینوں کو کھلانا ہوگا اور قربانی میں ایک بکری ذبح کرنی ہوگی۔ اس حدیث میں قربانی کا ذکر اسی قسم سے ہے جس کے بارے میں ہم کہتے ہیں کہ ایک جیسی، ملتی جلتی اور مشابه اشیاء میں ایک جیسا حُکم لگانا واجب ہے۔ لہٰذا سر منڈوانے کے فدیے میں ایک بکری کی قربانی کی جگہ گائے یا اونٹ کا ساتواں حصّہ فدیہ دینا جائز ہوگا۔ علمائے کرام کا اس بارے میں کوئی اختلاف نہیں کہ حج تمتع، حج قران اور عام قربانی میں گائے یا اونٹ کا ساتواں میں ایک چیز، ایک اعتبار سے واجب قرار دیتا ہے اور کبھی وہی چیز بغیر اس اعتبار کے بھی واجب قرار دے دیتا ہے۔ یا تو وہ چیز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی واجب قرار پاتی ہے یا علمائے اُمّت کی زبان سے اس کے وجوب کا اظہار ہوتا ہے۔ کیونکہ الله تعالیٰ نے اس آیت کریمہ میں اس محرم پر فدیہ واجب کیا ہے جو بیماری یا سر میں تکلیف کی وجہ سے سر منڈواتا ہے۔ اور تمام علمائے کرام کے نزدیک یہ فدیہ اس محرم پربھی واجب ہوگا جو بغیر کسی بیماری یا سر کی تکلیف کے سر منڈوا دیتا ہے۔ اس صورت میں وہ گناہ گار ہوگا۔ اس موقع پر میں نے یہ مسئلہ واضح کیا کہ ملتے جلتے، مشابہ مسائل میں ایک جیسا حُکم لگانا واجب ہے۔ اگر اس جگہ ایک جیسے مشابه مسائل میں ایک جیسا حُكم لگانا واجب نہ ہوتا تو اس شخص پر فدیہ واجب نہیں ہونا چاہیے تھا جو اپنے بال قینچی کے ساتھ کٹوا لیتا ہے۔ کیونکہ بال کٹوانے پر سر منڈوانے کا اطلاق نہیں ہوتا۔ لیکن جب ایک جیسے اور ملتے جلتے افعال پر ایک جیسا حُکم لگانا واجب تھا تو بال کٹوانے والے پر بھی وہی فدیہ لگایا جاتا جو سر منڈوانے والے پر لگایا گیا تھا۔ یہ ایک طویل مسئلہ ہے جسے میں نے اس آیت کے تحت ذکر کیا ہے۔ [صحيح ابن خزيمه/جماع أَبْوَابِ ذِكْرِ أَفْعَالٍ اخْتَلَفَ النَّاسُ فِي إِبَاحَتِهِ لِلْمُحْرِمِ، نَصَّتْ سُنَّةُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَوْ دَلَّتْ عَلَى إِبَاحَتِهَا/حدیث: 2678]
تخریج الحدیث: تقدم۔۔۔

1881. ‏(‏140‏)‏ بَابُ الرُّخْصَةِ فِي أَدَبِ الْمُحْرِمِ عَبْدَهُ إِذَا ضَيَّعَ مَالَ الْمَوْلَى فَاسْتَحَقَّ الْأَدَبَ عَلَى ذَلِكَ
1881. محرم حالت احرام میں اپنے غلام کو سزا دے سکتا ہے جبکہ غلام نے مالک کا سامان ضائع کردیا ہو اور وہ اس پر سزا کا مستحق ہو
حدیث نمبر: 2679
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ الأَشَجُّ ، وَسَلْمُ بْنُ جُنَادَةَ ، قَالَ سَلْمٌ: حَدَّثَنَا ابْنُ إِدْرِيسَ، وَقَالَ الأَشَجُّ: حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ إِدْرِيسَ ، وَكَتَبَهَا لِي وَأَخْرَجَهَا إِلَيَّ قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ ، عَنْ يَحْيَى بْنِ عَبَّادِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ ، قَالَتْ: خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حُجَّاجًا، وَأَنَّ زَمَالَةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَزَمَالَةَ أَبِي بَكْرٍ وَاحِدَةٌ، فَنَزَلْنَا الْعَرْجَ، وَكَانَتْ زَمَالَتُنَا مَعَ غُلامِ أَبِي بَكْرٍ، قَالَتْ: فَجَلَسَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَجَلَسَتْ عَائِشَةُ إِلَى جَنْبِهِ، وَجَلَسَ أَبُو بَكْرٍ إِلَى جَنْبِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ الشِّقِّ الآخَرِ، وَجَلَسْتُ إِلَى جَنْبِ أَبِي نَنْتَظِرُ غُلامَهُ وَزِمَالَتَنَا مَتَى يَأْتِينَا، فَطَلَعَ الْغُلامُ يَمْشِي مَا مَعَهُ بَعِيرُهُ، قَالَ: فَقَالَ لَهُ أَبُو بَكْرٍ: أَيْنَ بَعِيرُكَ؟ قَالَ: أَضَلَّنِي اللَّيْلَةَ، قَالَ:" فَقَامَ إِلَيْهِ أَبُو بَكْرٍ يَضْرِبُهُ، وَيَقُولُ: بَعِيرٌ وَاحِدٌ أَضْلَلْتَ وَأَنْتَ رَجُلٌ فَمَا يَزِيدُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى أَنْ يَتَبَسَّمَ، وَيَقُولُ:" انْظُرُوا إِلَى هَذَا الْمُحْرِمِ، وَمَا يَصْنَعُ" ، هَذَا حَدِيثُ الأَشَجِّ، قَالَ سَلِمٌ: وَكَانَتْ زَامِلَتُنَا وَزَامِلَةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الدَّوْرَقِيُّ ، وَيُوسُفُ بْنُ مُوسَى ، قَالا: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ إِدْرِيسَ ، أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ ، نَحْوَهُ. قَالَ الدَّوْرَقِيُّ: وَكَانَتْ زَمَالَةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَزَمَالَةُ أَبِي بَكْرٍ، وَقَالَ يُوسُفُ: وَكَانَتْ زَامِلَةُ أَبِي بَكْرٍ وَزَامِلَةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
سیدہ اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حج کے لئے نکلے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کا زادراہ والا اونٹ ایک ہی تھا۔ پس ہم عرج مقام پر آرام کے لئے ٹھہرے جبکہ ہمارا سامان سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے غلام کے پاس تھا۔ سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھ گئے اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا آپ کے پہلو میں بیٹھ گئیں۔ آپ کی دوسری جانب سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ بیٹھ گئے۔ اور میں بھی اپنے والد گرامی کے پہلو میں بیٹھ گئی، ہم سب آپ کے غلام اور اپنے سامان کا انتظار کرنے لگے کہ غلام کب لیکر آتا ہے۔ پھر غلام نمودار ہوا تو وہ اکیلا ہی اونٹ کے بغیر چلا آرہا تھا۔ تو سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اُس سے پوچھا کہ تمہارا اونٹ کدھر ہے؟ اُس نے جواب دیا کہ وہ آج رات مجھ سے گُم ہوگیا ہے۔ اس پر سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اُٹھ کر اُسے مارنا شروع کر دیا اور فرمایا کہ تمہارے پاس صرف ایک ہی اونٹ تھا اور تم نے مرد ہوتے ہوئے بھی اسے گُم کردیا۔ جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (یہ منظر دیکھ کر) بس مسکرا دیئے اور فرمایا: اس محرم کو دیکھو یہ کیا کر رہا ہے؟ یہ جناب الاشج کی روایت ہے۔ اور جناب سلم کی روایت میں ہے کہ ہمارا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بار بردار اونٹ ایک ہی تھا۔ جناب الدورقی کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کا سامان سفر ایک ہی تھا۔ جناب یوسف کی روایت کے الفاظ ہیں کہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا سامان اُٹھانے والا اونٹ ایک ہی تھا۔ [صحيح ابن خزيمه/جماع أَبْوَابِ ذِكْرِ أَفْعَالٍ اخْتَلَفَ النَّاسُ فِي إِبَاحَتِهِ لِلْمُحْرِمِ، نَصَّتْ سُنَّةُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَوْ دَلَّتْ عَلَى إِبَاحَتِهَا/حدیث: 2679]
تخریج الحدیث: اسناده ضعيف

1882. ‏(‏141‏)‏ بَابُ الرُّخْصَةِ فِي إِنْشَادِ الْمُحْرِمِ الشَّعْرَ وَالرَّجَزَ
1882. محرم حالت احرام میں رجزیہ اشعار اور دیگر اشعار پڑھ سکتا ہے
حدیث نمبر: 2680
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا جَعْفَرُ بْنُ سُلَيْمَانَ الضُّبَعِيُّ ، عَنْ ثَابِتٍ الْبُنَانِيِّ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، قَالَ:" دَخَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَكَّةَ مُعْتَمِرًا قَبْلَ أَنْ يَفْتَحْهَا، وَابْنُ رَوَاحَةَ يَمْشِي بَيْنَ يَدَيْهِ، وَهُوَ يَقُولُ: خَلُّوا بَنِي الْكُفَّارِ عَنْ سَبِيلِهِ الْيَوْمَ نَضْرِبُكُمْ عَلَى تَنْزِيلِهِ ضَرْبًا يُزِيلُ الْهَامَ عَنْ مَقِيلِهِ وَيُذْهِلُ الْخَلِيلَ عَنْ خَلِيلِهِ، فَقَالَ عُمَرُ: يَا ابْنَ رَوَاحَةَ، فِي حَرَمِ اللَّهِ، وَبَيْنَ يَدَيْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَقُولُ هَذَا الشِّعْرَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" خَلِّ عَنْهُ يَا عُمَرُ فَوَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، لَكَلامُهُ أَشَدُّ عَلَيْهِمْ مِنْ وَقْعِ النَّبْلِ"
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فتح مکّہ سے پہلے عمرے کے لئے مکّہ مکرّمہ میں داخل ہوئے تو سیدنا ابن رواحہ رضی اللہ عنہ آپ کے آگے آگے چل رہے تھے اور یہ شعر پڑھ رہے تھے، اے کفار کے بیٹو، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے راستے سے ہٹ جاؤ، آج ہم اللہ کے حُکم پر تمہیں ایسی مار ماریںگے جس سے کھوپڑیاں اُڑ جائیںگی اور دوست دوست کو بھول جائیگا۔ تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اے ابن رواحہ الله تعالیٰ کے حرم شریف اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے شعر پڑھ رہے ہو؟ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے عمر، اسے پڑھنے دو، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، اس کے شعر ان کافروں پر تیروں کی مار سے زیادہ سخت چوٹ لگا رہے ہیں۔ [صحيح ابن خزيمه/جماع أَبْوَابِ ذِكْرِ أَفْعَالٍ اخْتَلَفَ النَّاسُ فِي إِبَاحَتِهِ لِلْمُحْرِمِ، نَصَّتْ سُنَّةُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَوْ دَلَّتْ عَلَى إِبَاحَتِهَا/حدیث: 2680]
تخریج الحدیث: اسناده صحيح

1883. ‏(‏142‏)‏ بَابُ الرُّخْصَةِ فِي لُبْسِ الْمُحْرِمِ السَّرَاوِيلَ عِنْدَ الْإِعْوَازِ مِنَ الْإِزَارِ وَالْخُفَّيْنِ عِنْدَ عَدَمِ وُجُودِ النَّعْلَيْنِ،
1883. محرم چادر نہ ملنے پر شلوار اور جوتے نہ ملنے کی صورت میں موزے پہن سکتا ہے۔
حدیث نمبر: Q2681
بِلَفْظٍ مُجْمَلٍ غَيْرِ مُفَسَّرٍ فِي ذِكْرِ الْخُفَّيْنِ عِنْدَ عَدَمِ وُجُودِ النَّعْلَيْنِ
جوتے نہ ملنے پر موزے پہننے کے بارے میں ایک مجمل غیر مفسر روایت کا بیان [صحيح ابن خزيمه/جماع أَبْوَابِ ذِكْرِ أَفْعَالٍ اخْتَلَفَ النَّاسُ فِي إِبَاحَتِهِ لِلْمُحْرِمِ، نَصَّتْ سُنَّةُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَوْ دَلَّتْ عَلَى إِبَاحَتِهَا/حدیث: Q2681]
تخریج الحدیث: صحيح بخاري

حدیث نمبر: 2681
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ الضَّبِّيُّ ، وَعِمْرَانُ بْنُ مُوسَى الْقَزَّازُ ، وَأَحْمَدُ بْنُ الْمِقْدَامِ الْعِجْلِيُّ ، قَالُوا: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ ، حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ دِينَارٍ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ زَيْدٍ ، أَنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَهُوَ يَخْطُبُ وَيَقُولُ: " السَّرَاوِيلُ لِمَنْ لا يَجِدُ الإِزَارَ، وَالْخُفَّانِ لِمَنْ لا يَجِدُ النَّعْلَيْنِ" ، قَالَ أَحْمَدُ بْنُ الْمِقْدَامِ: عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خطبہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا، آپ فرما رہے تھے۔ جس شخص کو (احرام کے لئے) چادر نہ ملے وہ شلوار پہن ہے۔ اور جسے جوتے نہ ملیں وہ موزے پہن لے۔ [صحيح ابن خزيمه/جماع أَبْوَابِ ذِكْرِ أَفْعَالٍ اخْتَلَفَ النَّاسُ فِي إِبَاحَتِهِ لِلْمُحْرِمِ، نَصَّتْ سُنَّةُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَوْ دَلَّتْ عَلَى إِبَاحَتِهَا/حدیث: 2681]
تخریج الحدیث:

1884. ‏(‏143‏)‏ بَابُ ذِكْرِ الْخَبَرِ الْمُفَسِّرِ لِلَّفْظَةِ الْمُجْمَلَةِ الَّتِي ذَكَرْتُهَا فِي إِبَاحَةِ لُبْسِ الْخُفَّيْنِ لِمَنْ لَا يَجِدُ النَّعْلَيْنِ
1884. جوتے نہ ملنے کی صورت میں موزے پہننے کے بارے میں گزشتہ مجمل روایت کی مفسر روایت کا بیان
حدیث نمبر: Q2682
[صحيح ابن خزيمه/جماع أَبْوَابِ ذِكْرِ أَفْعَالٍ اخْتَلَفَ النَّاسُ فِي إِبَاحَتِهِ لِلْمُحْرِمِ، نَصَّتْ سُنَّةُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَوْ دَلَّتْ عَلَى إِبَاحَتِهَا/حدیث: Q2682]
تخریج الحدیث:

حدیث نمبر: 2682
سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا جبکہ آپ فلاں مقام پر تھے، اس نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم محرم کون سے کپڑے پہن سکتا ہے؟ آپ نے فرمایا: محرم قمیص، شلوار، پگڑی اور موزے نہ پہنے ہاں اگر اسے جوتے ملیں تو موزے ٹخنوں سے نیچے تک کاٹ کر انہیں پہن لے۔ اور جن کپڑوں کو ورس بوٹی یا زعفران سے رنگ دیا گیا ہو، اور ٹوپی والا کوٹ نہ پہنے۔ [صحيح ابن خزيمه/جماع أَبْوَابِ ذِكْرِ أَفْعَالٍ اخْتَلَفَ النَّاسُ فِي إِبَاحَتِهِ لِلْمُحْرِمِ، نَصَّتْ سُنَّةُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَوْ دَلَّتْ عَلَى إِبَاحَتِهَا/حدیث: 2682]
تخریج الحدیث: تقدم۔۔۔


Previous    1    2    3    4    5    6    7    8    9    Next