سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب میری والدہ نے بچّے کو جنم دیا تو میں بچّے کو لیکر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا تاکہ آپ کھجور چبا کر اُس کے تالو کو لگائیں۔ اُس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اونٹوں کے باڑے میں بکریوں کو نشان لگارہے تھے۔ امام شعبہ کہتے ہیں۔ میرے خیال میں جناب ہشام نے یہ کہا تھا کہ آپ بکریوں کے کانوں پرنشان لگارہے تھے۔ [صحيح ابن خزيمه/جماع أَبْوَابِ صَدَقَةِ الْمَوَاشِي مِنَ الْإِبِلِ وَالْبَقَرِ وَالْغَنَمِ/حدیث: 2283]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”میں نے تمہیں گھوڑوں اور غلاموں کی زکوٰۃ معاف کردی ہے، لہٰذا تم اپنے مالوں میں سے ہر چالیس درہم پر ایک درہم زکوٰۃ ادا کرو۔“ سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ”ہر چالیس دینار میں ایک دینار اور ہر بیس دینار زکوٰۃ ہے۔“[صحيح ابن خزيمه/جماع أَبْوَابِ صَدَقَةِ الْمَوَاشِي مِنَ الْإِبِلِ وَالْبَقَرِ وَالْغَنَمِ/حدیث: 2284]
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مرفوع روایت بیان کرتے ہیں کہ ”مسلمان شخص کے گھوڑے اور غلام میں زکوٰۃ نہیں ہے۔“[صحيح ابن خزيمه/جماع أَبْوَابِ صَدَقَةِ الْمَوَاشِي مِنَ الْإِبِلِ وَالْبَقَرِ وَالْغَنَمِ/حدیث: 2285]
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً مروی ہے کہ ”مسلمان پر اس کے گھوڑے اور غلام میں زکوٰۃ نہیں ہے۔“[صحيح ابن خزيمه/جماع أَبْوَابِ صَدَقَةِ الْمَوَاشِي مِنَ الْإِبِلِ وَالْبَقَرِ وَالْغَنَمِ/حدیث: 2286]
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ”مسلمان آدمی کے گھوڑے اور غلام میں زکوٰۃ نہیں ہے۔“[صحيح ابن خزيمه/جماع أَبْوَابِ صَدَقَةِ الْمَوَاشِي مِنَ الْإِبِلِ وَالْبَقَرِ وَالْغَنَمِ/حدیث: 2287]
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مسلمان شخص پر اس کے غلام اور گھوڑے میں کوئی صدقہ واجب نہیں ہے سوائے صدقہ فطر کے۔“[صحيح ابن خزيمه/جماع أَبْوَابِ صَدَقَةِ الْمَوَاشِي مِنَ الْإِبِلِ وَالْبَقَرِ وَالْغَنَمِ/حدیث: 2288]
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”غلام میں سوائے صدقہ فطر کے کوئی زکوٰۃ واجب نہیں ہے۔“[صحيح ابن خزيمه/جماع أَبْوَابِ صَدَقَةِ الْمَوَاشِي مِنَ الْإِبِلِ وَالْبَقَرِ وَالْغَنَمِ/حدیث: 2289]
جناب حارثہ بن مضرب بیان کرتے ہیں کہ کچھ شامی لوگ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے پاس حاضر ہوئے تو اُنہوں نے عرض کی کہ بیشک ہمارے پاس گھوڑے اور غلام موجود ہیں اور ہم پسند کرتے ہیں کہ ہمارے ان اموال میں زکوٰۃ وصول کی جائے۔ اس پر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ یہ کام مجھ سے پہلے میرے دونوں ساتھیوں نے نہیں کیا تو میں کیسے کروں؟ پھر انہوں نے نبی مکرم کے صحابہ کرام سے مشورہ کیا۔ ان میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ بھی تھے تو سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا، یہ بڑی اچھی بات ہے بشرطیکہ یہ مسلسل وصول ہونے والا جزیہ نہ بن جائے۔ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ سنّت نبوی یہ ہے کہ چار اونٹوں میں کوئی زکوٰۃ نہیں ہے الاّیہ کہ ان کا مالک خود اپنی خوشی سے ادا کرنا چاہے تو لے لی جائیگی۔ بکریوں کے بارے میں آپ کا ارشاد گرامی ہے کہ ”جب کسی شخص کی چرنے والی بکریاں چالیس سے ایک بھی کم ہوں تو اس میں زکوٰۃ نہیں الاّیہ کہ ان کا مالک اپنی مرضی سے ادا کرنا چاہے اور چاندی میں چالیسواں حصّہ زکوٰۃ ہے۔ پھر اگر چاندی صرف ایک سو نوے درہم ہو تو اس میں زکٰوۃ نہیں ہے مگر یہ کہ اس کا مالک بخوشی ادا کرنا چاہے۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ جب صاحب مال اپنے مال کی زکوٰۃ بخوشی ادا کرے جبکہ اس میں زکوٰۃ فرض نہ بنتی ہو تو امام ان کی زکوٰۃ وصول کر سکتا ہے۔ اسی طرح جب سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے شامی لوگوں کو آگاہ کردیا کہ ان سے پہلے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے گھوڑوں اور غلاموں کی زکوٰۃ وصول نہیں کی۔ پھر اُنہوں نے اپنی خوشی سے ان کی نفلی زکوٰۃ ادا کرنی چاہی تو سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے لئے ان کے مالوں کی زکوٰۃ وصول کرنا جائز ہوگیا۔ جیسا کہ نبی مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم نے پانچ سے کم اونٹوں، چالیس سے کم بکریوں اور دو سو درہم چاندی سے کم چاندی میں زکوٰۃ وصول کرنا جائز قراردیا ہے۔ [صحيح ابن خزيمه/جماع أَبْوَابِ صَدَقَةِ الْمَوَاشِي مِنَ الْإِبِلِ وَالْبَقَرِ وَالْغَنَمِ/حدیث: 2290]