1455. اس بات کی دلیل کا بیان کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ اطلاع دی ہے کہ رمضان المبارک کے روزے اور شوال کے چھ روزے عمر بھر کے روزوں کی مانند ہوں گے کیونکہ اللہ تعالی نے ایک نیکی کا بدلہ دس گنا رکھا ہے یا اگر اللہ چاہے تو اس سے بھی زیادہ عطا کرتا ہے
سیدنا ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”رمضان المبارک کے روزے دس مہینوں کے روزوں کے برابر ہیں اور چھ دنوں کے روزے دو ماہ کے روزوں کے برابر ہوں گے۔ تو یہ رمضان المبارک اور اس کے بعد چھ دن کے روزے سال بھر کے روزے ہوں گے۔“[صحيح ابن خزيمه/حدیث: 2115]
تخریج الحدیث: اسناده صحيح
1456.
1456. پیر اور جمعرات کا روزہ رکھنا مستحب ہے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء میں ان دو روزوں کا اہتمام کرنا چاہیے
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پیر اور جمعرات کے دن روزہ رکھا کرتے تھے۔ [صحيح ابن خزيمه/حدیث: 2116]
تخریج الحدیث: صحيح لغيره
1457.
1457. پیر کا روزہ رکھنا مستحب ہے، کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ولادت باسعادت اس دن ہوئی، اسی دن آپ کی طرف وحی بھیجی گئی اور اسی دن آپ کی وفات ہوئی
سیدنا ابوقتادہ انصاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ اس دوران کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے تھے، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ آپ کی طرف متوجہ ہوئے تو پوچھا کہ اے اللہ کے نبی، پیر کے دن کا روزہ رکھنا کیسا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس دن میری پیدائش ہوئی اور اسی دن میری وفات ہوگی۔“ یہ حدیث قتادہ کی ہے۔ جناب وکیع کی روایت میں ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا، اس میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا ذکر نہیں ہے۔ اور اس میں ہے کہ ”اس دن میں پیدا ہوا، اور اس دن میری طرف وحی گئی۔“[صحيح ابن خزيمه/حدیث: 2117]
امام شعبہ کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ کے روزوں کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ سخت ناراض ہوگئے اور آپ سے پیر اور جمعرات کے دن کے روزے کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پیر والے دن میری ولادت ہوئی اور اس دن مجھے نبوت عطا کی گئی یا فرمایا: ”اسی دن مجھ پر وحی نازل کی گئی۔“[صحيح ابن خزيمه/حدیث: 2118]
تخریج الحدیث: صحيح مسلم
1458.
1458. پیر اور جمعرات کا روزہ رکھنا اس لئے بھی مستحب ہے کیونکہ ان دو دنوں میں اعمال اللہ تعالی کے سامنے پیش کیے جاتے ہیں
سیدنا اسامہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پیر اور جمعرات کے دن کا روزہ رکھتے تھے اور فرماتے تھے: ”ان دو دنوں میں اعمال (اللہ تعالیٰ کے سامنے) پیش کیے جاتے ہیں۔“[صحيح ابن خزيمه/حدیث: 2119]
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”لوگوں کے اعمال ہر ہفتے میں دوبار پیش کیے جاتے ہیں۔ پیر اور جمعرات کے دن۔ لہٰذا ہر مومن کی بخشش ہو جاتی ہے، سوائے اس بندے کے جس کی اپنے بھائی سے دشمنی یا جھگڑا ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ”ان دو کو رہنے دو یا انہیں مہلت دو حتّیٰ کہ (صلح کی طرف) لوٹ آئیں۔“ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ یہ روایت مؤطا امام مالک میں موقوف بیان ہوئی ہے جبکہ مؤطا ابن وہب میں مرفوع صحیح بیان ہوئی ہے۔ [صحيح ابن خزيمه/حدیث: 2120]
تخریج الحدیث: صحيح مسلم
1459.
1459. ہر مہینے ایک دن کا روزہ رکھنے کی فضیلت اور اللہ تعالیٰ کا ایک دن کا روزہ رکھنے والے کو پورے مہینے کا ثواب عطا فرمانا۔
سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ سے روزے کے بارے میں سوال کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہر مہینے میں ایک روزہ رکھ لیا کرو اور تمہیں باقی دنوں کا اجرملے گا۔“[صحيح ابن خزيمه/حدیث: 2121]
تخریج الحدیث: تقدم۔۔۔
1460.
1460. ہر مہینے تین روزے رکھنے کا حُکم استحباب کے لئے ہے وجوب کے لئے نہیں
سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ مجھے میرے خلیل نے تین چیزوں کی وصیت فرمائی تھی، انہیں کبھی نہیں چھوڑوں گا۔ ان شاء اللہ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے چاشت کی نماز پڑھنے، سونے سے پہلے وتر ادا کرنے اور ہر مہینے میں تین روزے رکھنے کی وصیت کی تھی۔ [صحيح ابن خزيمه/حدیث: 2122]
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ مجھے میرے خلیل ابوالقاسم صلی اللہ علیہ وسلم نے تین باتوں کی وصیت فرمائی تھی، ہر مہینے میں تین روزے رکھنے، سونے سے پہلے وتر ادا کرنے اور چاشت کی دو رکعت ادا کرنے کی وصیت فرمائی تھی۔ [صحيح ابن خزيمه/حدیث: 2123]