سیدنا انس بن مالک انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اس دوران کہ مسلمان پیر والے دن نماز فجر ادا کر رہے تھے اور سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ اُنہیں نماز پڑھا رہے تھے، تو اچانک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے حجرے کا پردہ اُٹھا کر اُنہیں دیکھا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک پر ایک دلکش مسکراہٹ پھیل گئی تو سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ صف میں کھڑے ہونے کے لئے اپنی ایڑھیوں کے بل پیچھے ہٹے، اُنہیں خیال ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے لئے تشریف لانا چاہتے ہیں اور سیدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اور مسلمانوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد پر خوشی کی وجہ سے اپنی نمازوں کو توڑنے کا قصد کرلیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُنہیں اشارہ کیا کہ اپنی نماز مکمّل کرو - پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم حجرہ میں واپس تشریف لے گئے اور اپنے اور اُن کے درمیان پردہ لٹکالیا۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسی روز وفات پا گئے۔ یہ روایت جناب محمد عزیر کی ہے اور اُنہوں نے باقی راویوں کی نسبت بہترین سیاق سے اور مکمّل حدیث بیان کی ہے - امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ جناب عبدالوارث بن سعید کی روایت میں ہے کہ ” رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تین روز تک ہمارے پاس (نماز کے لئے) تشریف نہیں لائے۔ میں نے یہ روایت کتاب الکبیر میں بیان کر دی ہے۔ [صحيح ابن خزيمه/جِمَاعُ أَبْوَابِ الْعُذْرِ الَّذِي يَجُوزُ فِيهِ تَرْكُ إِتْيَانِ الْجَمَاعَةِ/حدیث: 1650]
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب کھانا حاضر ہو اور نماز کھڑی ہو جائے تو پہلے کھانا کھاؤ۔ یہ روایت جناب عبدالجبارکی ہے۔ [صحيح ابن خزيمه/جِمَاعُ أَبْوَابِ الْعُذْرِ الَّذِي يَجُوزُ فِيهِ تَرْكُ إِتْيَانِ الْجَمَاعَةِ/حدیث: 1651]
سیدنا عروہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ سیدنا عبداللہ بن ارقم سفر کرتے تھے تو لوگ اُن کے ساتھ ہوتے اور اُن کی اقتداء کرتے ـ اور وہ اپنے ساتھیوں کے لئے اذان دیتے اور اُن کی امامت بھی کرتے۔ فرماتے ہیں کہ ایک دن نماز کے لئے اذان ہوگئی تو اُنہوں نے فرمایا کہ تم میں سے کوئی شخص جماعت کرا دے کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ”جب تم میں سے کوئی شخص قضائے حاجت کرنا چاہتا ہو اور نماز کھڑی ہو جائے تو اُسے چاہئے کہ پہلے قضائے حاجت کرے۔“[صحيح ابن خزيمه/جِمَاعُ أَبْوَابِ الْعُذْرِ الَّذِي يَجُوزُ فِيهِ تَرْكُ إِتْيَانِ الْجَمَاعَةِ/حدیث: 1652]
جناب محمود بن ربیع بیان کرتے ہیں کہ سیدنا عتبان بن مالک رضی اللہ عنہ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی ہیں اور جنگ بدر میں شرکت کا شرف حاصل کرنے والے انصار میں سے ایک ہیں، وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے تو عرض کی کہ اے اللہ کے رسول، میری نظر کمزور ہوگئی ہے اور میں اپنی قوم کو نماز پڑھاتا ہوں- پس جب بارشوں کا موسم آتا ہے تو میرے اور اُن کے درمیان وقع وادی بہنے لگتی ہے۔ تو اُن کی مسجد میں جاکر اُنہیں نماز نہیں پڑھا سکتا۔ اس لئے میری خواہش ہے کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ، آپ تشریف لائیں اور میرے گھر میں نماز ادا کریں تا کہ میں اُس جگہ کو اپنی نماز گاہ بنا لوں - تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں عنقریب (تمھاری یہ خواہش پوری) کروں گا - ان شاء اللہ۔ سیدنا عتبان بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں، تو دوسرے دن سورج چڑھنے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ تشریف لائے - رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اجازت چاہی تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اجازت دے دی (آپ کو خوش آمدید کہا) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف فرما ہوئے بغیر گھر میں داخل ہوئے پھر پوچھا: ”تم اپنے گھر میں کس جگہ چاہتے ہو کہ میں نماز پڑھوں؟“ کہتے ہیں کہ میں نے گھر کے ایک کونے کی طرف اشارہ کیا۔ لہٰذا رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وسلم (اُس جگہ) کھڑے ہوئے اور تکبیر کہی۔ ہم نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے کھڑے ہو کر صف بنالی توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو رکعات ادا کر کے سلام پھیرا۔ پھر ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ کے لئے خزیر (گوشت اور آٹے سے تیار کردہ خاص قسم کا کھانا) کے لئے آپ کو بٹھا لیا، فرماتے ہیں کہ (اس درمیان) محلّے کے لوگ مسلسل آتے رہے حتّیٰ کہ ہمارے گھر میں لوگوں کی کافی تعداد جمع ہوگئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”مالک بن دخیشن کہاں ہے؟“ ایک شخص نے جواب دیا کہ وہ تو منافق آدمی ہے، وہ اللہ اور اس کے رسول سے محبت نہیں کر تا (اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد پر حاضر نہیں ہوا)۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اُس کے بارے میں ایسا مت کہو، کیا تمہیں معلوم نہیں کہ وہ اللہ کی رضا کے لئے «لَا إِلٰهَ إِلَّا الله» کا اقرار کر تا ہے؟ تو اُس شخص نے کہا کہ اللہ اور اُس کا رسول ہی بہترجانتے ہیں۔ ہم تو اس کی تعلق داری اور سچی دوستی و محبت منافقوں ہی کے ساتھ دیکھتے ہیں۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بیشک اللہ تعالیٰ نے آگ پر اُس شخص کو حرام کر دیا جو خالص اللہ کی رضا کے لئے «لَا إِلٰهَ إِلَّا الله» کا اقرار کرتا ہے - امام محمد زہری رحمه الله فرماتے ہیں کہ میں نے حصین بن محمد انصاری سے، جو کہ بنی سالم کے ایک سردار ہیں، حضرت محمود بن ربیع کی حدیث کے بارے میں پوچھا تو اُنہوں نے ان کی تصدیق کی۔“[صحيح ابن خزيمه/جِمَاعُ أَبْوَابِ الْعُذْرِ الَّذِي يَجُوزُ فِيهِ تَرْكُ إِتْيَانِ الْجَمَاعَةِ/حدیث: 1653]
جناب معمر کی امام زہری سے روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ بیشک میری نظر کمزور ہوگئی ہے۔ یہ الفاظ اس شخص پر بولے جاتے ہیں جس کی بینائی میں نقص و کمزوری ہو اگرچہ اسے تھوڑا سا دکھائی بھی دیتا ہو - اور یہ بھی ممکن ہے کہ وہ مکمّل نابینا ہو چکے ہوں اور اُنہیں کچھ دکھائی نہ دیتا ہو- مجھے اس بارے میں کوئی شک نہیں ہے کہ وہ بعد میں مکمّل بینائی سے محروم ہوگئے تھے، وہ بالکل دیکھ نہیں سکتے تھے۔ لیکن جب اُنہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سوال کیا تھا تو اُس وقت اُن کی بینائی میں کچھ نقص تھا (مکمّل نابینا نہ تھے) حتّیٰ کہ مجھے اس روایت کے الفاظ سے یقین ہوگیا (کہ واقعی وہ سوال کے وقت مکمّل نابینا نہ تھے)۔ جناب معمر کی روایت میں الفاظ ہیں۔ سیدنا عتبان بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی، بلاشبہ میری نظر کمزور ہوگئی ہے اور سیلاب میرے اور میری قوم کی مسجد کے درمیان حائل ہو جاتا ہے۔ (اس لئے) میری خواہش ہے کہ آپ تشریف لائیں اور میرے گھر کسی جگہ نماز ادا کریں جسے میں اپنے لئے جائے نماز بنا لوں۔ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں (تمہاری یہ خواہش پوری) کروں گا ان شاء اللہ۔“ پھر مکمْل حدیث بیان کی۔ [صحيح ابن خزيمه/جِمَاعُ أَبْوَابِ الْعُذْرِ الَّذِي يَجُوزُ فِيهِ تَرْكُ إِتْيَانِ الْجَمَاعَةِ/حدیث: 1654]
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ اُنہوں نے نماز کے لئے اذان دی پھر یہ کلمات پکارے: «صَلُّوا فِيْ رِحَالِكُمْ» ”اپنے ٹھکانوں اور گھروں میں نماز ادا کرو۔“ پھر انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سفر میں بارش اور سردی والی رات ایسا ہی کرتے تھے - امام ابوبکر رحمه اللہ فرماتے ہیں کہ اس لفظ ”بارش اور سردی والی رات“ کے دو معنی ہیں، ایک یہ کہ اس سے مراد ایسی رات ہو جس میں بارش اور سردی دونوں ہوں - اور یہ بھی ممکن ہے کہ اُن کی مراد بارش والی رات اور سردی والی رات (الگ الگ) ہو - اگرچہ دونوں علتیں ایک ہی رات میں جمع نہ ہوں اور جناب حماد بن زید کی روایت میں اس بات کی دلیل ہے کہ اُن کی مراد کوئی ایک معنی ہے - بارش والی رات یا سردی والی رات۔“[صحيح ابن خزيمه/جِمَاعُ أَبْوَابِ الْعُذْرِ الَّذِي يَجُوزُ فِيهِ تَرْكُ إِتْيَانِ الْجَمَاعَةِ/حدیث: 1655]
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ جب ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کسی سفر میں ہوتے اور رات اندھیری یا بارش والی ہوتی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مؤذن اذان دیتا یا منادی پکارتا ـ «أَن صَلُّوا فِيْ رِحَالِكُمْ» ”نماز اپنے اپنے ٹھکانوں اور۔ خیموں میں پڑھ لو۔“[صحيح ابن خزيمه/جِمَاعُ أَبْوَابِ الْعُذْرِ الَّذِي يَجُوزُ فِيهِ تَرْكُ إِتْيَانِ الْجَمَاعَةِ/حدیث: 1656]
1101. سفر کے دوران نماز باجماعت ترک کرنا جائز ہے۔ گزشتہ باب میں مذکور حدیث جیسی حدیث کے ساتھ، تھوڑی اور غیر تکلیف دہ بارش میں نماز گھروں اور ٹھکانوں پر پڑھنے کا حُکم