سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بیشک شیطان تم میں سے کسی شخص کے پاس آتا ہے جبکہ وہ اپنی نماز پڑھ رہا ہوتا ہے، تو وہ اس کی نماز کو خلط ملط کر دیتا ہے، حتیٰ کہ اُسے پتہ نہیں چلتا کہ اُس نے کتنی رکعتیں پڑھی ہیں - تو جس شخص کو ایسی صورت حال کا سامنا کرنا پڑھے تو وہ بیٹھے بیٹھے دو سجدے کر لے۔“ جناب یحیٰی بن ابی کثیر اور محمد بن عمرو کی روایت کا مفہوم بھی اسی طرح کا ہے کہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”حتیٰ کہ نمازی کی یہ حالت ہو جاتی ہے کہ اسے پتہ ہی نہیں چلتا کہ اس نے کتنی رکعات پڑھی ہیں، تین پڑھی ہیں یا چار؟ تو اسے چاہیے کہ (تشہد میں) بیٹھے بیٹھے دو سجدے کر لے۔“[صحيح ابن خزيمه/جُمَّاعُ أَبْوَابِ السَّهْوِ فِي الصَّلَاةِ/حدیث: 1020]
تخریج الحدیث: صحيح بخاري
حدیث نمبر: 1021
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب وہ (نمازی) بھول جائے اور اسے معلوم نہ ہو کہ اس نے کتنی نماز پڑھی ہے تو وہ دو سجدے کرلے جبکہ وہ (تشہد میں) بیٹھا ہوا ہو ـ“[صحيح ابن خزيمه/جُمَّاعُ أَبْوَابِ السَّهْوِ فِي الصَّلَاةِ/حدیث: 1021]
سیدنا عبداللہ بن جعفر اور سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہما کی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت میں ہے کہ ”جسے اپنی نماز میں شک ہو جائے تو اسے چاہیے کہ وہ تشہد میں بیٹھے بیٹھے دو سجدے کرلے۔“(صاحب کتاب کا بیان ہے کہ) میں نے یہ احادیث ان کی اسانید کے سات کتاب الکبیر میں بیان کی ہیں۔ اور یہ الفاظ مختصر غیر مفصل ہیں۔ [صحيح ابن خزيمه/جُمَّاعُ أَبْوَابِ السَّهْوِ فِي الصَّلَاةِ/حدیث: 1022]
سیدنا ابوسعید خدری رضی اﷲ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” جب تم میں سے کسی کو اپنی نماز میں شک ہو جائے تو وہ شک کو چھوڑ دے اور یقین پر بنا کرے۔ پھر اگر اسے نماز مکمّل ہونے کا یقین ہو جائے تو وہ دو (سہو کے) سجدے کرلے۔ اگر اس کی نماز پوری ہوئی تو اس کی وہ رکعت اور دو سجدے نفل ہوں گے، اور اگر نماز پوری نہ ہوئی تو یہ رکعت اس کی نماز مکمّل کر دے گی اور دو سجدے شیطان کو ذلیل و رسوا کر نے کا باعث ہوں گے۔ [صحيح ابن خزيمه/جُمَّاعُ أَبْوَابِ السَّهْوِ فِي الصَّلَاةِ/حدیث: 1023]
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم میں کسی شخص کو اپنی نماز میں شک ہو جائے اور اسے پتہ نہ چلے کہ اُس نے کتنی رکعات پڑھی ہیں، ایک، دو، تین یا چار پڑھی ہیں؟ تو وہ اتنی رکعات مکمّل کرلے جن میں اسے شک ہو، پھر وہ تشہد میں بیٹھے بیٹھے دو سجے کرلے، چنانچہ اگر اس کی نماز نا مکمّل تھی تو اُس نے اب پوری کرلی اور دو سجدے شیطان کی ذلت و خواری کا سبب ہوں گے، اور اگر اُس نے اپنی نماز مکمّل کرلی تھی تو (یہ زائد) رکعت اور دو سجدے اس کے لئے نفل ہوں گے۔“[صحيح ابن خزيمه/جُمَّاعُ أَبْوَابِ السَّهْوِ فِي الصَّلَاةِ/حدیث: 1024]
امام صاحب فرماتے ہیں کہ امام ربیع نے ہمیں ایک مر تبہ اپنی کتاب سے بیان کر تے ہوئے فرمایا کہ لہٰذا وہ یقین پر بنا کرے، پھر سلام پھیرنے سے پہلے دو سجدے کرے اور جناب ابوموسٰی دورتی اور یونس نے اپنی روایت میں کہا کہ جب تم میں سے کسی شخص کو اپنی نماز میں شک ہو جائے، پھر اسے پتہ نہ چلے کہ اس نے تین رکعات پڑھی ہیں یا چار، تو اسے ایک رکعت پڑھ لینی چاہیے اور سلام پھیرنے سے پہلے دو سجدے کرلے۔ ان کی باقی روایت جناب ربیع کی روایت کی طرح ہی ہے۔ امام ابوبکر رحمه الله نے فرمایا کہ اس حدیث میں میرے نزدیک اس بات کی دلیل ہے کہ مالدار شخص کا مال جب اس کے پاس موجود نہ ہو (تجارت وغیرہ کی غرض سے کسی علاقے میں بیٹھا ہوا ہو) پھر وہ اس کی زکوٰۃ نکال کر صدقے کے حق داروں کو پہنچادے اور اس کی نیت یہ ہو کہ اگر اس کا مال صحیح سلامت ہوا تو یہ اس کی زکوٰۃ ہے اور اگر اس کا مال ہلاک و تباہ ہو چکا ہوا تو یہ نفلی صدقہ ہے، پھر اسے صحیح اطلاع مل گئی کہ اس کا مال صحیح سلامت ہے تو اس کا وہ مال جو اُس نے اپنے غیر موجود مال کی فرض زکوٰۃ کے طور پر صدقہ و زکوٰۃ کے حق داروں کو پہنچایا تھا وہ جائز اور درست ہو گا۔ کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نمازی کی ایک رکعت کو جائز قرار دیا ہے۔ جو اُس نے دو طرح کی نیت سے ادا کی تھی۔ کہ اگر اس کی ادا شدہ نماز تین رکعات ہوئی تو یہ اس کی چوتھی فرض رکعت ہوگی، اور اگر اس کی نماز مکمّل ہو چکی تھی تو یہ رکعت نفل ہوگی۔ اور اس کی یہ رکعت فرض نماز سے کفایت کرجائے گی حالانکہ اس نے یہ رکعت فرض یا نفل کی نیت سے ادا کی تھی۔ [صحيح ابن خزيمه/جُمَّاعُ أَبْوَابِ السَّهْوِ فِي الصَّلَاةِ/حدیث: 1025]
سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم میں سے کوئی شخص نماز پڑھے اور اسے یہ پتہ نہ چلے کہ اس نے کتنی نماز پڑھی ہے، تین رکعات یا چار؟ تو اسے چاہیے کہ ایک رکعت پڑھ لے، اس کے رکوع و سجود خوب سنوار کر ادا کرے اور (آخر میں) دو سجدے کر لے۔“ محمد بن یحییٰ بیان کرتے ہیں کہ میں نے یہ روایت ایوب کی کتاب میں ایک اور جگہ پر موقوف بھی دیکھی ہے۔ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ عمر بن محمد، وہ زید بن عبداللہ بن عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا بیٹا ہے اور عاصم اور واقد کا بڑا بھائی ہے۔“ وہ فرماتے ہیں کہ میں نے احمد بن سعید الداری رحمه الله کو فرماتے ہوئے سنا کہ عاصم، عمر، زید، واقد، ابوبکر اور فرقد یہ سب بھائی ہیں۔ اور عاصم وہ محمد بن زید بن عبداللہ بن عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا بیٹا ہے۔ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ امام درامی نے ہمیں یہ بات اپنی روایت کے بعد بیان کی۔ [صحيح ابن خزيمه/جُمَّاعُ أَبْوَابِ السَّهْوِ فِي الصَّلَاةِ/حدیث: 1026]