سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے کہ ”کوئی آدمی کوکھ (پہلوؤں) پر ہاتھ رکھ کر نماز پڑھے۔“ جبکہ جناب اسماعیل کی روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ ”بیشک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز میں کوکھ پر ہاتھ رکھنے سے منع فرمایا ہے۔“[صحيح ابن خزيمه/جُمَّاعُ أَبْوَابِ الْأَفْعَالِ الْمَكْرُوهَةِ فِي الصَّلَاةِ الَّتِي قَدْ نُهِيَ عَنْهَا الْمُصَلِّي/حدیث: 908]
کیونکہ یہ جہنّمیوں کے آرام کرنے کا طریقہ و انداز ہے، ہم اللہ تعالی سے جہنّم کی آگ سے پناہ مانگتے ہیں [صحيح ابن خزيمه/جُمَّاعُ أَبْوَابِ الْأَفْعَالِ الْمَكْرُوهَةِ فِي الصَّلَاةِ الَّتِي قَدْ نُهِيَ عَنْهَا الْمُصَلِّي/حدیث: Q909]
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نماز میں کوکھ (پہلو) پر ہاتھ رکھنا جہنّمیوں کے آرام و راحت کا طریقہ ہے۔“[صحيح ابن خزيمه/جُمَّاعُ أَبْوَابِ الْأَفْعَالِ الْمَكْرُوهَةِ فِي الصَّلَاةِ الَّتِي قَدْ نُهِيَ عَنْهَا الْمُصَلِّي/حدیث: 909]
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کے آزاد کردہ غلام کریب بیان کرتے ہیں کہ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے عبداللہ بن حارث کو اس حال میں نماز پڑھتے دیکھا کہ اُن کے سر (کے بالوں) جوڑا گردن کے پیچھے بنا ہوا تھا - تو وہ کھڑے ہوئے اور ان کے ایک جوڑے کو کھول دیا اور ایک رہنے دیا اور عبداللہ بن حارث نماز میں ہی مشغول رہے (یعنی آگے سے کوئی حرکت نہیں کی) پھر جب نماز مکمّل کر لی تو وہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کی خدمت میں آئے اور کہنے لگے کہ آپ نے میرے سر (کے بالوں) کو کیوں کھولا؟ تو انہوں نے فرمایا، بیشک میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ”بلاشبہ اس کی مثال اس شخص کی ہے جو دست بستہ حالت میں نماز پڑھتا ہے۔“ جناب یونس کی روایت میں ہے کہ ”اور ان کا سر گوندھا ہوا تھا۔ تو سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے اُن کے پیچھے کھڑے ہو کر چوٹی کھول دی اور اور اس کی دوسری چوٹی باقی رہنے دی- تمام راویوں نے اسی طرح ”اَقَرَّ“ کا لفظ استعمال کیا- امام ابوبکر رحمه الله کہتے ہیں کہ صحیح لفظ ”قَرَّ“ ہے ـ [صحيح ابن خزيمه/جُمَّاعُ أَبْوَابِ الْأَفْعَالِ الْمَكْرُوهَةِ فِي الصَّلَاةِ الَّتِي قَدْ نُهِيَ عَنْهَا الْمُصَلِّي/حدیث: 910]
حضرت ابوسعید مقبری سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے آزاد کردہ غلام سیدنا ابورافع رضی اللہ عنہ کو دیکھا وہ سیدنا حسن بن علی رضی اللہ عنہ کے پاس سے گزرے اور وہ اس حال میں کہ نماز پڑھ رہے تھے کہ انہوں نے اپنے بالوں کی چوٹیاں اپنی گدی میں باندھی ہوئی تھیں۔ چنانچہ سیدنا ابورافع نے رضی اللہ عنہ انہیں کھول دیا، تو سیدنا حسن رضی اللہ عنہ غصّے کے ساتھ اُن کی طرف متوجہ ہوئے سیدنا ابورافع رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اپنی نماز کی طرف توجہ کریں اور غصّہ نہ کریں کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ”یہ شیطان کا حصّہ ہے۔“ فرمایا کہ یہ چوٹیوں کے باندھنے کی جگہ شیطان کا ٹھکانہ ہے۔ [صحيح ابن خزيمه/جُمَّاعُ أَبْوَابِ الْأَفْعَالِ الْمَكْرُوهَةِ فِي الصَّلَاةِ الَّتِي قَدْ نُهِيَ عَنْهَا الْمُصَلِّي/حدیث: 911]
امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ میں تشبیک کے متعلق یہ احادیث لکھوا چکا ہوں۔ [صحيح ابن خزيمه/جُمَّاعُ أَبْوَابِ الْأَفْعَالِ الْمَكْرُوهَةِ فِي الصَّلَاةِ الَّتِي قَدْ نُهِيَ عَنْهَا الْمُصَلِّي/حدیث: 912]
سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم میں سے کوئی شخص نماز میں کھڑا ہوتا ہے رحمتِ الٰہی اس کی طرف متوجہ ہوتی ہے لہٰذا وہ کنکریوں کو نہ چھوئے۔ جناب عبدالجبار نے یہ اضافہ بیان کیا ہے کہ سعد بن ابراھیم نے ان سے پوچھا کہ ابو الاحوص کون ہیں؟ تو اُنہوں نے جواب دیا کہ تم نے وہ بزرگ دیکھے ہیں جن کی یہ یہ صفات ہیں۔ [صحيح ابن خزيمه/جُمَّاعُ أَبْوَابِ الْأَفْعَالِ الْمَكْرُوهَةِ فِي الصَّلَاةِ الَّتِي قَدْ نُهِيَ عَنْهَا الْمُصَلِّي/حدیث: 913]
سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم سے کوئی شخص نماز میں کھڑا ہوتا ہے تو رحمتِ ربانی اس کی طرف متوجہ ہوتی ہے، اس لئے تم کنکریوں کو نہ ہلایا کرو۔“(اپنی توجہ نماز کے علاوہ دیگر کاموں کی طرف نہ کیا کرو۔)[صحيح ابن خزيمه/جُمَّاعُ أَبْوَابِ الْأَفْعَالِ الْمَكْرُوهَةِ فِي الصَّلَاةِ الَّتِي قَدْ نُهِيَ عَنْهَا الْمُصَلِّي/حدیث: 914]