401. اس بات کا بیان کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیشہ دعا قنوت نازلہ نہیں پڑھی بلکہ آپ (صرف اس وقت) قنوت کرتے تھے جب کسی کے حق میں یا کسی کے خلاف دعا فرماتے
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم صرف اسی وقت قنوت نازلہ کرتے تھے جب کسی کے لئے دعا کرنا ہوتی یا کسی کو بد دعا دینی ہوتی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب «سَمِعَ اللهُ لِمَنْ حَمِدَهُ» کہتے تو «رَبَّنَا وَلَكَ الحَمْدُ» کہنے کے بعد دعا مانگتے، ”اے اللہ (فلاں کو) نجات دیدے۔“ پھر پوری حدیث بیان کی۔ [صحيح ابن خزيمه/جُمَّاعُ أَبْوَابِ الْأَذَانِ وَالْإِقَامَةِ/حدیث: 619]
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم (مسلسل و ہمیشہ) قنوت نہیں پڑھا کرتے تھے مگر جب کسی قوم کے حق میں دعائے خیر کرنا ہوتی یا کسی قوم کو بد دعا دینی ہوتی (تو قنوت کرتے تھے۔ [صحيح ابن خزيمه/جُمَّاعُ أَبْوَابِ الْأَذَانِ وَالْإِقَامَةِ/حدیث: 620]
اور اس بات کی دلیل کا بیان کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جس مصیبت کے نازل ہونے کی وجہ سے قنوت کر رہے تھے اس کے ختم ہونے پر ایک ماہ کے بعد قنوت چھوڑ دی تھی۔ قنوت کے منسوخ ہونے کی وجہ سے نہیں چھوڑی تھی۔ اور نہ اس لیے چھوڑی تھی جیساکہ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ ایک ماہ سے زائد قنوت جائز نہیں ہے۔ [صحيح ابن خزيمه/جُمَّاعُ أَبْوَابِ الْأَذَانِ وَالْإِقَامَةِ/حدیث: Q621]
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ماہ تک نماز میں قنوت نازلہ پڑھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی دعا میں یہ فرماتے، «اللهمَّ أَنْجِ عَيَّاش بن أبي ربيعة، اللهمَّ أَنْجِ سَلَمَة بنَ هشام، اللهم أَنْجِ الوليد بن الوليد، اللهم أَنْجِ المستضعفين من المؤمنين، اللهمَّ اشْدُدْ وَطْأَتَك على مُضَر، اللهمَّ اجعلها سنين كسِنِي يوسف» ”اے اللہ، ولید بن الولید کو نجات عطا فرما، اے اللہ، سلمہ بن ہشام کو رہائی نصیب فرما، اے اﷲ، عیاش بن ابی ربیعہ کو آزادی دیدے، اے ﷲ کمزور مومنوں کو نجات عطا فرما دے، اے اﷲ، مضر پر اپنا سخت عذاب نازل فرما، اے اللہ، ان پر سیدنا یوسف علیہ السلام کے زمانے کے قحط کی طرح کا قحط مسلط کر دے۔“ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک روز صبح کے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لئے دعا نہ کی تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یاد دلایا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تم نے اُنہیں دیکھا نہیں کہ وہ (آزادی پانے کے بعد) آچکے ہیں (لہٰذا اب قنوت کی ضرورت باقی نہیں رہی) ۔ [صحيح ابن خزيمه/جُمَّاعُ أَبْوَابِ الْأَذَانِ وَالْإِقَامَةِ/حدیث: 621]
اور نہ قنوت کے متعلق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی تمام احادیث کا احاطہ کیا ہے، تواس شخص نے ان احادیث سے استدال کیا ہے اور کا گمان ہے کہ نماز میں قنوت کرنا منسوخ اور منع ہے [صحيح ابن خزيمه/جُمَّاعُ أَبْوَابِ الْأَذَانِ وَالْإِقَامَةِ/حدیث: Q622]
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو فجر کی نماز میں سنا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آخری رکعت میں جب رُکوع سے اپنا سر مبارک اُٹھایا تو «رَبَّنَا وَلَكَ الحَمْدُ» پڑھا، پھر یہ دعا مانگی، ”اے اللہ فلاں فلاں شخص پر لعنت فرما۔“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ منافقین کو بد دعا دی تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرما دی۔ «لَيْسَ لَكَ مِنَ الْأَمْرِ شَيْءٌ أَوْ يَتُوبَ عَلَيْهِمْ أَوْ يُعَذِّبَهُمْ فَإِنَّهُمْ ظَالِمُونَ» [ سورة آل عمران ]”اے نبی آپ کا اس معاملے میں کچھ اختیار نہیں، اللہ چاہے تو ان کی توبہ قبول کرلے، چاہے تو انہیں عذاب دے کیونکہ وہ ظالم ہیں۔“[صحيح ابن خزيمه/جُمَّاعُ أَبْوَابِ الْأَذَانِ وَالْإِقَامَةِ/حدیث: 622]
سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چار افراد پر بد دعا کیا کرتے تھے، تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرما دی «لَيْسَ لَكَ مِنَ الْأَمْرِ شَيْءٌ أَوْ يَتُوبَ عَلَيْهِمْ أَوْ يُعَذِّبَهُمْ فَإِنَّهُمْ ظَالِمُونَ» [ سورة آل عمران ]”اے نبی آپ کا اس معاملے میں کچھ اختیار نہیں، اللہ چاہے تو ان کی توبہ قبول کر لے چاہے تو انہیں عذاب دے کیونکہ وہ ظالم ہیں۔“ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں اسلام کی ہدایت نصیب فرما دی۔ امام ابوبکر رحمہ الله فرماتے ہیں کہ یہ حدیث بھی غریب ہے۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عرب کے کچھ قبائل کو بددعا دیا کرتے تھے، تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمادی، «لَيْسَ لَكَ مِنَ الْأَمْرِ شَيْءٌ أَوْ يَتُوبَ عَلَيْهِمْ أَوْ يُعَذِّبَهُمْ فَإِنَّهُمْ ظَالِمُونَ» [ سورة آل عمران ]”(اے نبی) آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کو اِس معاملے میں کچھ اختیار نہیں، اللہ چاہے تو ان کی توبہ قبول فرما لے چاہے تو ان کو عذاب دے دے کیونکہ وہ ظالم ہیں۔“ فرماتے ہیں کہ پھر (اللہ تعالیٰ نے) انہیں اسلام کی ہدایت عطا فرما دی۔ امام ابوبکر رحمہ الله فرماتے ہیں کہ ان احادیث میں اس بات کی دلیل ہے کہ اس آیت کے ساتھ (کفار پر) لعنت کرنا منسوخ ہو گیا، لیکن وہ دعا منسوخ نہیں ہوئی جسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اہل مکّہ کے پاس قید مسلمانوں کی آزادی کے لئے کیا کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ ان (کمزور مسلمانوں) کو ان سے نجات عطا فرما دے۔ کیونکہ یہ ممکن نہیں کہ یہ آیت «أَوْ يَتُوبَ عَلَيْهِمْ أَوْ يُعَذِّبَهُمْ فَإِنَّهُمْ ظَالِمُونَ» [ سورة آل عمران ] اُن مؤمنوں کے بارے میں نازل ہوئی ہو، جوکفار کے پاس ان کے ظلم و ستم کا نشانہ بنے ہوئے تھے۔ بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے یہ آیت «أَوْ يَتُوبَ عَلَيْهِمْ أَوْ يُعَذِّبَهُمْ فَإِنَّهُمْ ظَالِمُونَ» [ سورة آل عمران ] ان کافروں اور منافقوں کے متعلق نازل فرمائی ہے جن پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بددعا کرتے ہوئے لعنت کیا کرتے تھے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتا دیا کہ جن لوگوں کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی دعائے قنوت میں لعنت کرتے ہیں ان کے معاملے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کچھ اختیار نہیں ہے۔ اور اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر دے دی کہ اگر اللہ چاہے تو ان کی توبہ قبول کر کے اُنہیں اسلام کی ہدایت نصیب فرما دے یا اُنہیں ان کے کفر و نفاق کی وجہ سے عذاب سے دو چارکردے تو وہ اپنے کفر اور نفاق کی حالت میں ظالم ہیں۔ اس سے مراد وہ مؤمن لوگ نہیں ہیں جن کے متعلق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دعا کیا کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ انہیں کفار کے ظلم و ستم سے آزادی نصیب فرما دے۔ اس لیے ولید بن الولید، سلم بن ہشام، عیاش بن ابی ربیعہ اور اہل مکہ میں سے کمزور مسلمان ان دشمن کفار کے قبضہ سے ان کی نجات کے لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کفار مکّہ کی قید سے ان کی رہائی تک ان کی آزادی کی دعا ترک نہیں کی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے حق میں دعا اس آیت کے نزول کی وجہ سے ترک نہیں کی جو کفار اور منافقین کے بارے میں نازل ہوئی۔ جو ظالم تھے، مظلوم نہیں تھے۔ کیا آپ نے یحییٰ بن ابی کثیر کی حضرت ابوسلمہ کے واسطے سے سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ، کی حدیث نہیں سنی کہ ایک دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صبح کی نماز میں ان کے لئے دعا نہ کی تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یاد دلایا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تم انہیں دیکھ نہیں رہے کہ وہ (آزادی پانے کے بعد مدینہ منوّرہ) آچکے ہیں؟“”اے نبی، آپ کا اس معاملے میں کچھ اختیار نہیں، اللہ چاہے تو ان کی توبہ قبول کر لے چاہے تو انہیں عذاب دے کیونکہ وہ ظالم ہیں۔“ فرماتے ہیں کہ تو اللہ تعالیٰ نے انہیں اسلام کی ہدایت نصیب فرما دی۔ امام ابوبکر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث بھی غریب ہے۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عرب کے کچھ قبائل کو بد دعا دیا کرتے تھے، تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرما دی: «لَيْسَ لَكَ مِنَ الْأَمْرِ شَيْءٌ أَوْ يَتُوبَ عَلَيْهِمْ أَوْ يُعَذِّبَهُمْ فَإِنَّهُمْ ظَالِمُونَ» [ سورة آل عمران ]”اے نبی آپ کو اس معاملے میں کچھ اختیار نہیں، اللہ چاہے تو ان کی توبہ قبول فرما لے چاہے تو انکو عذاب دے دے۔ کیونکہ وہ ظالم ہیں۔“ فرماتے ہیں کہ پھر (اللہ تعالیٰ نے) اُنہیں اسلام کی ہدایت عطا فرما دی۔ امام ابوبکر رحمہ اﷲ فرماتے ہیں کہ ان احادیث میں اس بات کی دلیل ہے کہ اس آیت کے ساتھ لہٰذا جو میں نے بیان کیا اسے خوب سمجھ لو، اور اپنے خالق ومالک کی توفیق سے یقین کرلو کہ جس شخص نے ان احادیث سے یہ استدال کیا ہے کہ صبح کی نماز میں قنوت کرنا اس آیت کے ساتھ منسوخ ہو چکا ہے، اس کا استدلال غلط ہے۔ [صحيح ابن خزيمه/جُمَّاعُ أَبْوَابِ الْأَذَانِ وَالْإِقَامَةِ/حدیث: 623]
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سجدے کے لئے جُھکتے وقت «اللهُ أَكْبَرُ» کہا کرتے تھے۔ [صحيح ابن خزيمه/جُمَّاعُ أَبْوَابِ الْأَذَانِ وَالْإِقَامَةِ/حدیث: 624]
جناب عطا بیان کرتے ہیں کہ میں نے سیدنا ابوحمید الساعدی رضی اللہ عنہ کو دس صحابہ کرام کی موجودگی میں، جن میں سیدنا ابوقتادہ رضی اللہ عنہ بھی شامل ہیں، سنا کہ سیدنا ابوحمید رضی اللہ عنہ نے فرمایا، میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کو تم سے زیادہ جا نتا ہوں۔ بیشک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز کے لئے کھڑے ہوتے۔ پھر حدیث کا کچھ حصّہ بیان کیا۔ اور کہا کہ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم «اللهُ أَكْبَرُ» کہتے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم زمین کی طرف جُھکتے اور اپنے دونوں بازو اپنے دونوں پہلوؤں سے الگ رکھتے۔ جناب محمد بن یحییٰ نے (اپنی روایت میں یہ الفاظ بیان کیے) فرمایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے دونوں بازو اپنے دونوں پہلوؤں سے دور رکھتے ہوئے زمین کی طرف جُھکتے۔ محمد بن یحییٰ نے یہ اضافہ کیا کہ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سجدہ کرتے۔ تمام صحابہ کرام نے کہا کہ آپ نے سچ کہا ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اسی طرح نماز پڑھا کرتے تھے۔ [صحيح ابن خزيمه/جُمَّاعُ أَبْوَابِ الْأَذَانِ وَالْإِقَامَةِ/حدیث: 625]
406. جب نمازی سجدہ کرے تو ہاتھوں سے پہلے دونوں گھٹنے زمین پر رکھنے کا بیان۔
حدیث نمبر: Q626
کیونکہ یہ عمل اس عمل کے مخالف نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل اور حکم کے لیے ناسخ ہے [صحيح ابن خزيمه/جُمَّاعُ أَبْوَابِ الْأَذَانِ وَالْإِقَامَةِ/حدیث: Q626]