سیدنا مہاجر بن قنفذ بن عمر بن جدعان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم وضو کر رہے تھے، اُنہوں نے آپکو سلام کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُسے سلام کا جواب نہ دیا حتیٰ کہ وضو کر لیا (اور سلام کا جواب دیا) اس سے معذرت کی اور فرمایا: ”میں نے ناپسند کیا کہ میں بغیر طہارت کے اللہ تعالیٰ کا ذکر کروں۔“ حضرت حسن بصری رحمہ اللہ اس حدیث کے مطابق عمل کرتے تھے۔ یعنی سلام کا جواب با وضو حالت میں دیتے تھے۔ [صحيح ابن خزيمه/جُمَّاعُ أَبْوَابِ فُضُولِ التَطْهِيرِ وَالِاسْتِحْبَابِ مِنْ غَيْرِ إِيجَابٍ/حدیث: 206]
اس لیے تھا کہ طہارت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنا افضل ہے، اس لیے نہیں کہ بغیر طہارت کے اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنا جائز نہیں ہے۔ کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تو ہر وقت اللہ تعالیٰ کا ذکر کیا کرتے تھے [صحيح ابن خزيمه/جُمَّاعُ أَبْوَابِ فُضُولِ التَطْهِيرِ وَالِاسْتِحْبَابِ مِنْ غَيْرِ إِيجَابٍ/حدیث: Q207]
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر وقت اللہ تعالی کا ذکر کیا کرتے تھے۔ یہ ابو کریب کی حدیث کے الفاظ ہیں۔ [صحيح ابن خزيمه/جُمَّاعُ أَبْوَابِ فُضُولِ التَطْهِيرِ وَالِاسْتِحْبَابِ مِنْ غَيْرِ إِيجَابٍ/حدیث: 207]
حضرت عمرو بن مرہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عبداللہ بن سلمہ رحمہ اللہ کو سنا، اُنہوں نے فرمایا کہ میں اور دوسرے افراد سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے پاس گئے، ایک آدمی ہم سے (یعنی ہمارے قبیلے کا فرد) اور ایک بنی اسد سے تھا۔ میرا خیال ہے کہ اُنہوں نے اُن دونوں کو ایک سمت (علاقے عامل یا گورنر بنا کر) بھیجا اور فرمایا کہ دونوں خوب صحت مند اور طاقتور ہو لہٰذا اپنے فرض کو خوب اچھی طرح انجام دینا۔ پھر آپ بیت الخلاء میں داخل ہوئے پھر (قضائے حاجت سے فارغ ہوکر باہر) نکلے، پھر ایک چُلّو پانی لیا اور (اپنے ہاتھوں کو) دھویا، پھر (ہمارے پاس) آئے، اور قرآن مجید کی کچھ تلاوت کی، توہم نےاُسے ناپسند کیا، تو سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیت الخلاء میں داخل ہو کر قضائے حاجت کیا کرتے تھے۔ پھر باہر تشریف لاتے تو ہمارے ساتھی روٹی اور گوشت کھاتے اور قرآن مجید کی تلاوت کرتے اور جنابت کے سوا کوئی چیز بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو قرآن کی تلاوت سے نہیں روکتی تھی۔ امام ابوبکر رحمہ اللہ نے یہ حدیث امام شعبہ رحمہ اللہ سے بھی روایت کی ہے۔ امام شعبہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث میرے اصل مال (یعنی علم) کا تہائی حصّہ ہے۔ امام ابوبکر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں کتاب البیوع میں بیان کرچُکا ہوں کہ مکروہ اور حرام کے درمیان فرق ہے۔ میں نے اُن دونوں میں فرق کے لئے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان سے دلیل لی ہے «ان الله كره لكم ثلاثا و حرم عليكم ثلاثا...» اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے تین چیزوں کو ناپسند فرمایا ہے اور تین چیزوں کو تم پر حرام قرار دیا ہے۔ تمہارے لئے قبل وقال (بے مقصد گفتگو)، کثرتِ سوال اور مال ضائع کرنےکو مکروہ اور ناپسند کیا ہے۔ ماؤں کی نافرمانی، بیٹیوں کو زندہ درگور کرنے اور بخل و لالچ کوتم پر حرام قرار دیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےمہاجربن قنفذ کی حدیث میں اپنےاس فرمان سےمکروہ اور حرام میں فرق کیا ہے۔ «كرهت ان اذكر الله على طهر» (میں نے بغیر طہارت کے اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنے کو نا پسند کیا۔) یہ ممکن ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُسے اس لئے نا پسند کیا ہو کہ طہارت کی حالت میں اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنا افضل ہے، اس لئے نہیں کہ بغیر طہارت ذکر کرنا حرام ہے، کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بغیر طہارت کے قرآن مجید پڑھا کرتے تھے اور قرآن مجید کی تلاوت افضل ترین ذکر ہے، اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہر حالت میں اللہ تعالیٰ کا ذکر کیا کرتے تھے، جیسا کہ ہمیں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث بیان کی گئی ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ بغیر وضو کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر کو مکروہ سمجھنا اس لیے ہو کہ اس ذکر سے مراد وہ ذکر ہو جو مسلمان پر نفل کی بجائے فرض ہوتا ہے۔ اور جو ذکر الٰہی فرض ہو وہ بغیر طہارت کے ادا نہیں ہوتا۔ بلکہ اسے طہارت حاصل کرکے ہی ادا کر نا چا ہیے. کیونکہ اکثرعلما ئے کرام کے نزدیک سلام کا جواب دینا فرض ہے، اسی لیے رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے بغیر طہارت کے سلام کا جواب نہیں دیا تھا حتیٰ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےطہارت حاصل کر کے سلام کا جواب دیا لیکن اگرکوئی شخص نفلی ذکر کر رہا ہو اور ناپاکی کی حالت میں اسے ترک کر دیتا ہے تو اُس پر اس ذکر کا اعادہ کرنا ضروری نہیں ہے۔ لہٰذا اُس کے لئے نفلی ذکر کرنا جائز ہے اگرچہ وہ پاک (باوضو) نہ ہو۔ [صحيح ابن خزيمه/جُمَّاعُ أَبْوَابِ فُضُولِ التَطْهِيرِ وَالِاسْتِحْبَابِ مِنْ غَيْرِ إِيجَابٍ/حدیث: 208]
سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ بیان کرتےہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کےساتھ روانہ ہوئے حتیٰ کہ جب ہم سقیا مقام پر سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کی پھتریلی سیاہ زمین پر پہنچے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میرے لئے وضو کا) پانی لاؤ“ پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کرلیا تو قبلہ کی طرف مُنہ کر کے کھڑے ہوئے، پھر «اللهُ أَكْبَرُ» کہا اور پھر کہا «أبِي إِبْرَاهِيمُ كَانَ عَبْدُكَ وَخَلِيلُكَ، وَدَعَاكِ لِأهْلِ مؐكّةَ وَأَنَا مُحَمَّدٌ، عَبْدُكَ وَرَسُوْلُكَ، أَدْعُوكَ لِأَهْلِ الْمَدِينَةِ أَنْ تَبَارَكْ لَهُمْ فِي مُدِّهِمْ وَصَاعِهِمْ مِثْلَ مَا بَارَكْتَ لِأَهْلِ مَكَّةَ مَعَ الْبَرَكَةِ بَرَكَتَيْنِ» ”(اے اللہ) میرے باپ ابراہیم تیرے بندے اور تیرے خلیل تھے اور انہوں نے تجھہ سے اہل مکہ کے لئے دعا کی تھی، اور میں محمد تیرا بندہ اور رسول ہوں، میں تجھ سے اہل مدینہ کے لئے دعا کرتا ہوں کہ تُو ان کے مد اور صاع میں اسی طرح برکت عطا فرما جس طرح تُو نے اہل مکہ کو برکت عطا فرمائی تھی، برکت دو برکتوں کےساتھ (عطا فرما)۔“[صحيح ابن خزيمه/جُمَّاعُ أَبْوَابِ فُضُولِ التَطْهِيرِ وَالِاسْتِحْبَابِ مِنْ غَيْرِ إِيجَابٍ/حدیث: 209]
سیدنا ابو قتادہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کیا، پھر سیدنا سعد رضی اللہ عنہ کی زمین میں نماز ادا کی۔ پھر باقی قصّہ بیان کیا۔ [صحيح ابن خزيمه/جُمَّاعُ أَبْوَابِ فُضُولِ التَطْهِيرِ وَالِاسْتِحْبَابِ مِنْ غَيْرِ إِيجَابٍ/حدیث: 210]
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اُنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا، کیا ہم میں سے کوئی شخص جنابت کی حالت میں سو سکتا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سو سکتا ہے، اگر چاہے تو وضو کرلے۔ “[صحيح ابن خزيمه/جُمَّاعُ أَبْوَابِ فُضُولِ التَطْهِيرِ وَالِاسْتِحْبَابِ مِنْ غَيْرِ إِيجَابٍ/حدیث: 211]
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سےروایت ہےکہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا، کیا ہم میں سے کوئی شخص جنابت کی حالت میں سو جائے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب وہ سونے کا ارادہ کرے تو اُسے چاہیے کہ وضو کر لے۔“[صحيح ابن خزيمه/جُمَّاعُ أَبْوَابِ فُضُولِ التَطْهِيرِ وَالِاسْتِحْبَابِ مِنْ غَيْرِ إِيجَابٍ/حدیث: 212]
166. اس بات کی دلیل کا بیان کہ جنبی شخص کو سونے کے لیے جس وضو کا حکم دیا گیا ہے وہ نماز کے وضو جیسا ہے کیونکہ عرب دونوں ہاتھ دھونے کو بھی وضو کہہ دیتے ہیں
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب جنابت کی حالت میں سونے کا ارادہ کرتے تو نماز جیسا وضو کر لیتے۔ [صحيح ابن خزيمه/جُمَّاعُ أَبْوَابِ فُضُولِ التَطْهِيرِ وَالِاسْتِحْبَابِ مِنْ غَيْرِ إِيجَابٍ/حدیث: 213]
حضرت عبداللہ بن دینار رحمہ اللہ کہتےہیں کہ میں نے سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کو فرماتے ہوئے سنا کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نےرسول رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ میں رات کو جنبی ہو جاتا ہوں، تو میں کیا کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اپنی شرم گاہ دھو لو اور وضو کرلو پھر سو جاؤ۔“[صحيح ابن خزيمه/جُمَّاعُ أَبْوَابِ فُضُولِ التَطْهِيرِ وَالِاسْتِحْبَابِ مِنْ غَيْرِ إِيجَابٍ/حدیث: 214]