سیدنا طارق محاربی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول الله صل اللہ علیہ وسلم کو دیکھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ذی مجاز بازار سے گزرے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سرخ جوڑا زیب تن کیے ہوئے تھے- اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے، ”لوگو «لَا اِلٰه اِلَّا اللهُ» کہو، کامیاب ہو جاؤ گے۔ اور ایک شخص آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے پیچھے آ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پتھر مار رہا تھا اور اُس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ٹخنوں اور ایڑیوں کو خون آلود کر دیا تھا، اور وہ کہ رہا تھا کہ اے لوگو، اس کی فرماں برداری نہ کرنا کیونکہ یہ بہت جھوٹا ہے۔ میں نے پوچھا کہ یہ کون ہے؟ لوگوں نے جواب دیا کہ عبدالمطلب کے خاندان کا لڑکا ہے۔ میں نے دریافت کیا کہ ان کے پیچھے پیچھے آ کر انہیں پتھر مارنے والا کون ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ یہ عبدالعزیٰ ابولہب ہے۔ امام ابوبکر رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ اس حدیث میں بھی اس بات کی دلیل ہے کہ ٹخنے سے مراد قدم کے دونوں جانب ابھری ہوئی ہڈی ہے۔ کیونکہ پتھر چلنے والے کے پیچھے سے آئے تو وہ قدم کو نہیں لگتا، کیونکہ پنڈلی (پیچھے سے) پھینکی ہوئی چیز کو پاوں پر لگنے سے روکتی ہے۔ [صحيح ابن خزيمه/جُمَّاعُ أَبْوَابِ الْوُضُوءِ وَسُنَنِهِ/حدیث: 159]
سیدنا نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ، بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہماری طرف اپنے چہرہ انور کے ساتھ متوجہ ہوئے اور فرمایا: ”اپنی صفیں سیدھی کرلو، تین بار فرمایا: ”اللہ کی قسم، تم ضرور اپنی صفوں کو سیدھا کرلو وگرنہ اللہ تعالی تمہارے دلوں میں مخالفت ڈال دے گا۔ (سیدنا نعمان) فرماتے ہیں کہ (آپ کےارشاد کی تعمیل میں) میں نےدیکھا کہ ایک شخص کا ٹخنہ اپنے ساتھی کے ٹخنے کے ساتھ، اس کا گھٹنا اس کے ساتھی کے گھٹنے کے ساتھ اور اس کا کندھا اس کے ساتھی کے کندھے کے ساتھ ملا ہوتا تھا۔ یہ وکیع کی حدیث کے الفاظ ہیں۔ امام ابو بکر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ ابو قاسم قبیلہ قیس کے حسین بن حجاج بن ارطاۃ اور عطاء بن سائب نے روایت کی ہے۔ ابو القاسم کا شمار کوفی راویوں میں ہوتا ہے۔ اس حدیث میں ایسی دلیل ہے جس نے شک و شبہ کوختم کردیاہے کہ ٹخنہ پاؤں کی ایک جانب ابھری ہوئی وہ ہڈی ہے جسے نماز پڑھنےوالا اپنے پہلو میں کھڑے نمازی کے ٹخنے کے ساتھ ملا سکتا ہے۔ عقل مند لوگوں کے نزدیک یہ بات مسلم ہے کہ نمازی جب صف میں کھٹرے ہوتے ہیں تو ان میں سے کسی کے لیے یہ ممکن نہیں ہوتا کہ وہ اپنے قدم کے بالائی حصّے کو کسی دوسرے شخص کے قدم کے بالائی حصّے سے ملا لے، یہ نا ممکن ہے۔ لہذا جو چیز ناممکن ہوعقل مند اس کے ممکن ہونے کا خیال نہیں کرتا۔ [صحيح ابن خزيمه/جُمَّاعُ أَبْوَابِ الْوُضُوءِ وَسُنَنِهِ/حدیث: 160]
اور اس بات کی دلیل کا بیان کہ دونوں قدم جب ننگے ہوں اور موزوں یا جُرابوں وغیرہ سے ڈھکے ہوئے نہ ہوں تو اُنہیں دھونا فرض ہے نہ کہ اُن کا مسح کرنا، رافضیوں کے قول کے برعکس جو یہ کہتے ہیں کہ قدموں کا مسح کرنا فرض ہے، دھونا فرض نہیں، کیونکہ اگر قدموں پرمسح کرنے والا شخص فرض کی ادائیگی کرنے والا ہوتا ہے تو افضلیت کے تارک شخص کو تباہی و بربادی یا جہنّم کی وعید سنانا جائز نہ ہوتا حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایڑیوں کے لیے آگ کا عذاب ہے۔“(آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُس وقت فرمایا تھا جب وضو کرنے والوں نے ایڑیاں اچھی طرح نہ دھوئی تھیں۔)[صحيح ابن خزيمه/جُمَّاعُ أَبْوَابِ الْوُضُوءِ وَسُنَنِهِ/حدیث: Q161]
سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مکّہ مکرمہ سے مدینہ منوّرہ واپس آئے، حتیٰ کہ جب ہم راستے میں پانی (کے ایک مقام یا چشمے وغیرہ) پر تھے تو لوگوں نے عصر کے وقت وضو کرتے ہوئے جلدی کی اور وہ جلدی میں تھے۔ ہم اُن کے پاس پہنچے تو اُن کی ایڑیاں سفید خشک دکھائی دے رہی تھیں۔ اُنہیں پانی نہیں لگا تھا، تو رسول رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایڑیوں کے لیے آگ کا عذاب ہے، مکمّل وضو کرو۔“[صحيح ابن خزيمه/جُمَّاعُ أَبْوَابِ الْوُضُوءِ وَسُنَنِهِ/حدیث: 161]
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”(خشک رہ جانے والی) ایڑیوں کے لیے آگ کا عذاب ہے۔“[صحيح ابن خزيمه/جُمَّاعُ أَبْوَابِ الْوُضُوءِ وَسُنَنِهِ/حدیث: 162]
اس میں بھی دلیل ہے کہ قدموں کے بالائی حصّے پرمسح کرنے والا فرض ادا نہیں کرتا، رافضیوں کے خیال کے برعکس جو یہ کہتے ہیں کہ پورے قدموں کو دھونا فرض نہیں ہے بلکہ اُن کے اوپر والے حصّے پر مسح کرنا فرض ہے۔ [صحيح ابن خزيمه/جُمَّاعُ أَبْوَابِ الْوُضُوءِ وَسُنَنِهِ/حدیث: Q163]
سیدنا عبداللہ بن حارث بن جزءِ زبیدی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو سنا، آپ نے فرمایا: ”(خشک رہ جانے والی) ایڑیوں اور تلوں کے لئے آگ کا عذاب ہے۔“[صحيح ابن خزيمه/جُمَّاعُ أَبْوَابِ الْوُضُوءِ وَسُنَنِهِ/حدیث: 163]
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص وضو کر کے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور اُس نے اپنے قدم کے بالائی حصّے پر ناخن کے برابر جگہ خشک چھوڑ دی تھی۔ تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا: ”واپس جاؤ اور اپنا وضواچھی طرح کرو۔“ اما م ابوبکر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ہمیں احمد بن عبدالرحمان بن وہب نے بیان کیا، وہ کہتے ہیں کہ ہمیں میرے چچا نے اسی طرح حدیث بیان کی۔ [صحيح ابن خزيمه/جُمَّاعُ أَبْوَابِ الْوُضُوءِ وَسُنَنِهِ/حدیث: 164]
129. اس بات کی دلیل کا بیان کہ اللہ عزوجل نے اپنے فرمان: ﴿وَأَرْجُلَکُمْ إِلَی الْکَعْبَیْنِ﴾ ”پاؤں ٹخنوں سمیت“ میں رافضیوں اور خارجیوں کے دعوے کے برعکس قدموں کو دھونے کا حکم دیا ہے مسح کرنے کا نہیں
اور علامہ مطلبی رحمہ اللہ کی تفسیر کے صحیح ہونے کی دلیل کا بیان کہ آیت کے معنی تقدیم و تاخیر ہے یعنی «فَاغْسِلُوا وُجُوهَكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ إِلَى الْمَرَافِقِ وَامْسَحُوا بِرُءُوسِكُمْ» [ سورة المائدة ]”اپنے چہروں، اپنے ہاتھوں اور اپنے قدموں کو دھولو اور اپنے سروں کا مسح کرو۔“ یعنی آیت میں مسح کا ذکر پاؤں کے ذکر سے پہلے کیا گیا ہے جیسا کہ سیدنا ابن مسعود، ابن عباس اور عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہم نے فرمایا ہے کہ «وَأَرْجُلَكُمْ إِلَى الْكَعْبَيْنِ» ”اپنے پاؤں ٹخنوں سمیت “ میں حُکم دھونے کی طرف لوٹتا ہے۔ [صحيح ابن خزيمه/جُمَّاعُ أَبْوَابِ الْوُضُوءِ وَسُنَنِهِ/حدیث: Q165]
حضرت ابو امامہ بیان کرتے ہیں کہ ہمیں سیدنا عمرو بن عبسہ رضی اللہ عنہ نے اپنے اسلام لانے کی کیفیت کے بارے میں طویل حدیث بیان کی، اور کہا کہ میں نے عرض کی کہ اے اللہ کے رسول، مجھے وضو کے متعلق ارشاد فرمایئے۔ پھر طویل حدیث بیان کی، اور کہا کہ (آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا)”پھر (وضو کرنے والا) اللہ تعالی کے حکم کے مطابق اپنے دونوں پاؤں ٹخنوں سمیت دھوتا ہے تو اُس کے قدموں کے گناہ اُس کی اُنگلیوں کے کناروں سے پانی کے ساتھ نکل جاتے ہیں۔“[صحيح ابن خزيمه/جُمَّاعُ أَبْوَابِ الْوُضُوءِ وَسُنَنِهِ/حدیث: 165]