ہم نے مسواک کے ذکر سے ابتداء کی ہے، وضو کی کیفیت بیان کرنے سے پہلے، کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر میں داخل ہوتے وقت وضو سے پہلے مسواک سے ابتداء فرماتے تھے۔ [صحيح ابن خزيمه/جماع أَبْوَابِ سُنَنِ السِّوَاكِ وَفَضَائِلِهِ/حدیث: Q134]
حضرت شریح بیان کرتے ہیں کہ میں نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم گھر داخل ہوتے تھے تو کس چیز سے ابتدا کرتے تھے؟ اُنہوں نے فرمایا کہ مسواک سے۔ یوسف کی روایت میں «اِذَا دَخَلَ بَيْتَهُ» ”جب آپ اپنے گھر داخل ہوتے“ کے الفاظ ہیں۔ [صحيح ابن خزيمه/جماع أَبْوَابِ سُنَنِ السِّوَاكِ وَفَضَائِلِهِ/حدیث: 134]
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مسواک مُنہ کی صفائی اور رب تعالیٰ کی رضا (کے حصول) کا ذریعہ ہے۔“[صحيح ابن خزيمه/جماع أَبْوَابِ سُنَنِ السِّوَاكِ وَفَضَائِلِهِ/حدیث: 135]
سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تہجّد کے لیے جب رات کو بیدار ہوتے تو اپنے مُنہ کو مسواک سے خوب صاف کرتے۔ یہ ہارون بن اسحاق کی حدیث کے الفاظ ہیں۔ ابو موسٰی اور سعید بن عبدالرحمان نے «للتھجّد» ”تہجد کے لیے“ نہیں بیان کیا۔ [صحيح ابن خزيمه/جماع أَبْوَابِ سُنَنِ السِّوَاكِ وَفَضَائِلِهِ/حدیث: 136]
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نماز کے لیے مسواک کی جائے وہ اُس نماز سے ستر گناہ افضل ہے جس کے لیے مسواک نہ کی جائے۔“ اما م ابوبکر رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں نے اس حدیث کی صحت کو مستثنی قرار دیا ہے کیونکہ مجھے خدشہ ہے کہ محمد بن اسحاق نے یہ روایت محمد بن مسلم سے نہیں سنی بلکہ اس سے تدلیس کی ہے۔ [صحيح ابن خزيمه/جماع أَبْوَابِ سُنَنِ السِّوَاكِ وَفَضَائِلِهِ/حدیث: 137]
جناب محمد بن یحیٰی سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عبداللہ بن عبداللہ بن عمر سے پوچھا کہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کا پاکی یا ناپاکی (با وضو ہونے یا بے وضو ہونے) کی ہر حالت میں ہر نماز کے لئے وضو کرنا کس سے مروی ہے؟ اُنہوں نے فرمایا کہ انہیں حضرت اسماء بنتِ زید بن خطاب نے بیان کیا کہ انہیں عبداللہ بن حنظلہ بن ابی عامر نے حدیث بیان کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو با وضو ہونے یا بے وضو ہونے،ہر حالت میں ہر نماز کے لیے وضو کرنے کا حکم دیا گیا تھا پھر جب یہ کام آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر گراں گزرا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہر نماز کے لیے مسواک کرنے کا حکم دے دیا گیا۔ لٰہذا سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کا خیال تھا کہ وہ ہر نماز کے لیے نیا وضو کرنے کی طاقت رکھتے ہیں۔ اس لیے وہ ہر نماز کے لیے (نیا) وضو نہیں چھوڑا کرتے تھے۔ [صحيح ابن خزيمه/جماع أَبْوَابِ سُنَنِ السِّوَاكِ وَفَضَائِلِهِ/حدیث: 138]
اگر مسواک کرنے کا حُکم فرض ہوتا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اُمّت کو اس کا حُکم دے دیتے خواہ اُن پر ہی مشکل ہوتا یا نہ ہوتا۔ جبکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ”وہ اُمت کے لیے مشقّت کا باعث نہ سمجھتے تو انہیں ہر نماز کے لیے اس کا حُکم دیتے۔“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان دلالت کرتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مسواک کرنے کا حُکم افضلیت کے لیے ہے۔ اور حُکم اس کے لیے ہے جو اسے آسانی سمجھے مشکل سمجھنے والے کے لیے نہیں۔ [صحيح ابن خزيمه/جماع أَبْوَابِ سُنَنِ السِّوَاكِ وَفَضَائِلِهِ/حدیث: Q139]
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”اگر مجھے یہ خیال نہ ہوتا کہ میں اپنی اُمّت کومشقّت میں ڈال دوں گا تومیں اُنہیں عشاء کی نماز تاخیر سےادا کرنےاور ہر نماز کے وقت مسواک کرنے کا حکم دیتا۔ مخزومی نے عشاء کی تا خیر کی تاکید بیان نہیں کی۔ [صحيح ابن خزيمه/جماع أَبْوَابِ سُنَنِ السِّوَاكِ وَفَضَائِلِهِ/حدیث: 139]
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”اگر یہ خوف نہ ہوتا کہ میں اپنی اُمّت پر مشقّت ڈال دوں گا تو میں اُنہیں ہر وضو کے ساتھ مسواک کرنے کا حکم دیتا۔ امام ابوبکر رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ یہ حدیث موطا میں سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے اس طرح مروی ہے، اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمت پر مشکل نہ ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اُنہیں ہر وضو کے وقت مسواک کرنے کا حُکم دیتے۔ اما م شافعی رحمہ اللہ اور بشر بن عمر نے روح کی روایت کی طرح بیان کیا ہے۔ [صحيح ابن خزيمه/جماع أَبْوَابِ سُنَنِ السِّوَاكِ وَفَضَائِلِهِ/حدیث: 140]
سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسواک کر رہے تھے اور مسواک کا کنارہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک پر تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ”عا عا“ کی آواز نکال رہے تھے۔ [صحيح ابن خزيمه/جماع أَبْوَابِ سُنَنِ السِّوَاكِ وَفَضَائِلِهِ/حدیث: 141]