حضرت نافع سے روایت ہے کہ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما جب حلق کرتے حج یا عمرہ میں تو اپنی داڑھی اور مونچھ کے بال لیتے۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الْحَجِّ/حدیث: 891]
تخریج الحدیث: «موقوف صحيح، وأخرجه البيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 9498، والبيهقي فى «معرفة السنن والآثار» برقم: 2997 والشافعي فى «الاُم» برقم: 253/7، والشافعي فى «المسنده» برقم: 573/1، فواد عبدالباقي نمبر: 20 - كِتَابُ الْحَجِّ-ح: 187»
حضرت ربیعہ بن ابی عبدالرحمٰن سے روایت ہے کہ ایک شخص آیا قاسم بن محمد کے پاس اور اس نے کہا کہ میں نے طوافِ افاضہ کیا اور میرے ساتھ میری بیوی نے بھی طوافِ افاضہ کیا۔ پھر میں ایک گھاٹی کی طرف گیا تاکہ صحبت کروں اپنی بیوی سے، وہ بولی کہ میں نے ابھی بال نہیں کتروائے، میں نے دانتوں سے اس کے بال کترے اور اس سے صحبت کی۔ قاسم بن محمد ہنسے اور کہا کہ حکم کر اپنی عورت کو کہ بال کترے قینچی سے۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الْحَجِّ/حدیث: 892]
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ میرے نزدیک اولیٰ یہ ہے کہ وہ مرد ایک قربانی کرے، کیونکہ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: جو شخص ارکانِ حج سے کوئی رکن بھول جائے، تو وہ ایک قربانی کرے۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الْحَجِّ/حدیث: 892B]
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما اپنے عزیزوں میں سے ایک شخص سے ملے جس کا نام مجبر تھا (وہ بھتیجے تھے سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے، سیدنا عبدالرحمٰن بن عمر رضی اللہ عنہما کے بیٹے) انہوں نے طوافِ افاضہ کر لیا تھا اور نہ حلق کیا نہ قصر نادانی سے، تو حکم کیا ان کو سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے لوٹ جانے کا اور حلق یا قصر کر کے اور طواف الزیارۃ دوبارہ کرنے کا۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الْحَجِّ/حدیث: 893]
تخریج الحدیث: «موقوف صحيح، انفرد به المصنف من هذا الطريق، فواد عبدالباقي نمبر: 20 - كِتَابُ الْحَجِّ-ح: 189»
امام مالک رحمہ اللہ کو پہنچا کہ سالم بن عبداللہ بن عمر جب ارادہ کرتے احرام کا تو قینچی منگاتے اور مونچھ اور داڑھی کے بال لیتے قبل سواری کے اور قبل لبیک کہنے کے احرام باندھ کر۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الْحَجِّ/حدیث: 894]
تخریج الحدیث: «مقطوع ضعيف، انفرد به المصنف من هذا الطريق، فواد عبدالباقي نمبر: 20 - كِتَابُ الْحَجِّ-ح: 190»
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے فرمایا: جو شخص بال گوندھے (احرام کے وقت) وہ سر منڈوا دے احرام کھولتے وقت، اور اس طرح بال نہ گوندھو کہ تلبید سے مشابہت ہو جائے۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الْحَجِّ/حدیث: 895]
تخریج الحدیث: «موقوف صحيح، وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم:5914، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 9582، 9682، 9683، 9684، وأحمد فى «مسنده» برقم: 6135، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 14724، 14727، والطبراني فى "الكبير"، 13062، فواد عبدالباقي نمبر: 20 - كِتَابُ الْحَجِّ-ح: 191»
حضرت سعید بن مسیّب سے روایت ہے کہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے فرمایا: جو شخص جوڑا باندھے یا گوندھ لے یا تلبید کرے بالوں کو (احرام کے وقت) تو واجب ہو گیا اس پر سر منڈانا۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الْحَجِّ/حدیث: 896]
تخریج الحدیث: «موقوف صحيح، وأخرجه البيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 9586، 9682، 9683، 9684، وأحمد فى «مسنده» برقم: 6135، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 14724، 14727، والطبراني فى "الكبير"، 13062، فواد عبدالباقي نمبر: 20 - كِتَابُ الْحَجِّ-ح: 192»
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم داخل ہوئے کعبہ شریف کے اندر اور اُن کے ساتھ سیدنا اُسامہ بن زید رضی اللہ عنہ اور سیدنا بلال بن رباح رضی اللہ عنہ اور سیدنا عثمان بن طلحہ رضی اللہ عنہ تھے، تو دروازہ بند کر لیا۔ اور وہاں ٹھہرے رہے۔ سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے سیدنا بلال رضی اللہ عنہ سے پوچھا جب نکلے کہ کیا کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے؟ تو کہا: انہوں نے ایک ستون کو بائیں طرف کیا اور دو ستون داہنی طرف اور تین ستون پیچھے اپنے، اور خانۂ کعبہ میں ان دنوں چھ ستون تھے، پھر نماز پڑھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الْحَجِّ/حدیث: 897]
تخریج الحدیث: «مرفوع صحيح، وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 397، 468، 504، 505، 506، 1167، 1598، 1599، 2988، 4289، 4400، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1329، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 2942، 3008، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 2220، 3200، 3201، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 5866، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 693، 750، 2907، وأبو داود فى «سننه» برقم: 2023، والدارمي فى «مسنده» برقم: 1908، 1909، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 3063، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 3851، 3852، وأحمد فى «مسنده» برقم: 4550، 4985، 5148، والحميدي فى «مسنده» برقم: 149، 709، 710، فواد عبدالباقي نمبر: 20 - كِتَابُ الْحَجِّ-ح: 193»
حضرت سالم بن عبداللہ بن عمر سے روایت ہے کہ لکھا عبدالملک بن مروان نے (جب وہ خلیفہ تھا) حجاج بن یوسف (ثقفی ظالم خونخوار کو جب وہ آیا تھا سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ سے لڑنے کو اور ان کو شہید کر کے حاکم بنا تھا مکہ کا) کہ نہ خلاف کرنا سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کا کسی بات میں حج کے کاموں میں سے۔ کہا سالم نے: جب عرفہ کا روز ہوا تو سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما زوال ہوتے ہی آئے اور میں بھی ان کے ساتھ تھا اور پکارا حجاج کے خیمہ کے پاس کہ کہاں ہے حجاج، تو نکلا حجاج ایک چادر کسم میں رنگی ہوئی اوڑھے ہوئے اور کہا: اے ابا عبدالرحمٰن! کیا ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ اگر سنّت کی پیروی چاہتا ہے تو چل۔ حجاج بولا: ابھی؟ انہوں نے کہا: ہاں ابھی، حجاج نے کہا: مجھے تھوڑی مہلت دو کہ میں نہا لوں، پھر نکلتا ہوں۔ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سواری سے اُتر پڑے، پھر حجاج نکلا سو میرے اور میرے باپ سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ کے بیچ میں آ گیا، میں نے اس سے کہا: اگر تجھ کو سنّت کی پیروی منظور ہو تو آج کے روز خطبہ کو کم کر اور نماز جلدی پڑھ، وہ سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ کی طرف دیکھنے لگا تاکہ اُن سے سنے، جب سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ نے یہ دیکھا تو کہا: سچ کہا سالم نے۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الْحَجِّ/حدیث: 898]
تخریج الحدیث: «مرفوع صحيح، وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 1660، 1663، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 2810، 2814، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 3007، 3011، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 3984، 3989، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 9560، فواد عبدالباقي نمبر: 20 - كِتَابُ الْحَجِّ-ح: 194»
نافع سے روایت ہے کہ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نماز پڑھتے تھے ظہر اور عصر اور مغرب اور عشاء کی منیٰ میں۔ پھر صبح کو جب آفتاب نکل آتا تو عرفات کو جاتے۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الْحَجِّ/حدیث: 899]
تخریج الحدیث: «موقوف صحيح، وأخرجه البيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 9440، والبيهقي فى «معرفة السنن والآثار» برقم: 3014، 3015، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 14763، والشافعي فى «المسنده» برقم: 561/1، فواد عبدالباقي نمبر: 20 - كِتَابُ الْحَجِّ-ح: 195»