امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ یہ جو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ آخری عبادت طواف ہے خانۂ کعبہ کا، اس سے مقصود یہ ہے کہ اللہ جل جلالہُ فرماتا ہے: ”جو شخص تعظیم کرے اللہ جل جلالہُ کی نشانیوں کی تو یہ دلوں کے خوف کی وجہ سے ہے۔“ پھر فرماتا ہے: ”بازگشت ان کی خانۂ کعبہ کی طرف ہے۔“ تو تمام ارکان اور عباداتِ حج کی انتہاء خانۂ کعبہ پر ہے۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الْحَجِّ/حدیث: 820B1]
حضرت یحییٰ بن سعید سے روایت ہے کہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے ایک شخص کو مر الظہران سے (ایک موضع ہے مکہ سے اٹھارہ میل کے فاصلے پر) پھیر دیا، اس واسطے کہ اس نے طواف الوداع نہیں کیا تھا۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الْحَجِّ/حدیث: 821]
حضرت عروہ بن زبیر نے کہا کہ جس شخص نے طواف الافاضہ (طواف الزیارہ) ادا کیا اس کا حج اللہ نے پورا کر دیا۔ اب اگر اس کا کوئی امر مانع نہیں آیا تو چاہیے کہ رخصت کے وقت طواف الوداع کرے، اور اگر کوئی مانع یا عارضہ درپیش ہو تو حج تو پورا ہو چکا۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الْحَجِّ/حدیث: 822]
تخریج الحدیث: «مقطوع صحيح، انفرد به المصنف من هذا الطريق، فواد عبدالباقي نمبر: 20 - كِتَابُ الْحَجِّ-ح: 122»
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ اگر کسی شخص کو یہ مسئلہ طواف الوداع کا معلوم نہ تھا، اور وہ بدون طواف الوداع کیے ہوئے مکہ سے واپس چلا گیا، تو اس پر لوٹ آنا لازم نہیں، مگر اس صورت میں کہ قریب ہو مکہ سے، تو لوٹ آئے اور طواف کرے بشرطیکہ طواف الزیارۃ کر چکا ہو۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الْحَجِّ/حدیث: 822B1]
اُم المؤمنین سیدہ اُم سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ میں نے شکایت کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنی بیماری کی، سو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مردوں کے پیچھے سوار ہو کر تو طواف کر لے۔“ سیدہ اُم سلمہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ میں نے طواف کیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت نماز پڑھ رہے تھے ایک گوشے کی طرف خانۂ کعبہ کے، اور پڑھ رہے تھے سورہ «﴿وَالطُّورِ وَكِتَابٍ مَسْطُورٍ﴾» ۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الْحَجِّ/حدیث: 823]
تخریج الحدیث: «مرفوع صحيح، وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 464، 1619، 1633، 4853، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1276، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 523، 2776، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 3830، 3833، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 2928، 2929، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 3889، 3929، 11464، وأبو داود فى «سننه» برقم: 1882، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 2961، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 9339، 9482، وأحمد فى «مسنده» برقم: 27128، 27357، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 6976، وعبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 9021، والطبراني فى "الكبير"، 804، 805، فواد عبدالباقي نمبر: 20 - كِتَابُ الْحَجِّ-ح: 123»
سیدنا ابوماعز اسلمی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ بیٹھے تھے سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے ساتھ، اتنے میں ایک عورت آئی مسئلہ پوچھنے اُن سے، تو کہا اس عورت نے کہ میں نے قصد کیا خانۂ کعبہ کے طواف کا، جب مسجد کے دروازے پر آئی تو مجھے خون آنے لگا، سو میں چلی گئی، جب خون موقوف ہوا تو پھر آئی، جب مسجد کے دروازے پر پہنچی تو خون آنے لگا، تو میں چلی گئی، جب خون موقوف ہوا پھر آئی، جب مسجد کے دروازے پر پہنچی تو خون آنے لگا۔ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا: یہ لات ہے شیطان کی، تو غسل کر پھر کپڑے سے شرمگاہ کو باندھ اور طواف کر۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الْحَجِّ/حدیث: 824]
تخریج الحدیث: «موقوف ضعيف، وأخرجه البيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 9404، وعبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 1195، فواد عبدالباقي نمبر: 20 - كِتَابُ الْحَجِّ-ح: 124»
امام مالک رحمہ اللہ کو پہنچا کہ سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ جب مکہ میں آتے اور نویں تاریخ قریب ہوتی تو عرفات کو چلے جاتے قبل طواف اور سعی کے، پھر جب وہاں سے پلٹتے تو طواف اور سعی کرتے۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الْحَجِّ/حدیث: 825]
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا: کہ یہ (طواف قدوم کا ترک کرنا تنگئی وقت کے پیش نظر) جائز ہے۔ ان شاء اللہ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الْحَجِّ/حدیث: 825B1]
امام مالک رحمہ اللہ سے سوال ہوا کہ طواف واجب کرنے میں کسی سے باتیں کرنے کو ٹھہر جانا درست ہے؟ جواب دیا کہ میں اس کو پسند نہیں کرتا۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الْحَجِّ/حدیث: 825B2]
امام مالک رحمہ اللہ نے فر مایا کہ کوئی طواف نہ کرے خانۂ کعبہ کا اور نہ سعی صفا و مروہ کے درمیان میں مگر باوضو۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الْحَجِّ/حدیث: 825B3]