سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ سیدنا فضل بن عباس رضی اللہ عنہما رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سوار تھے، اتنے میں ایک عورت آئی خثعم سے (خثعم ایک قبیلہ کا نام ہے)، مسئلہ پوچھنے لگی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے، تو سیدنا فضل رضی اللہ عنہ اس عورت کی طرف دیکھنے لگے اور وہ عورت سیدنا فضل رضی اللہ عنہ کی طرف دیکھنے لگی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سیدنا فضل رضی اللہ عنہ کا منہ اور طرف پھیرنے لگے، اس عورت نے کہا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! حج اللہ کا فرض ہوا میرے باپ پر ایسے وقت میں کہ میرا باپ بڈھا ہے، اونٹ پر بیٹھ نہیں سکتا۔ کیا میں اس کی طرف سے حج کر لوں؟ فرمایا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے: ”ہاں۔“ اور یہ قصہ حجۃ الوداع میں ہوا۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الْحَجِّ/حدیث: 796]
تخریج الحدیث: «مرفوع صحيح، وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 1513، 1852، 1853، 1855، 4399، 6228، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1334، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 3031، 3032، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 3989، 3990، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 2642، 2636، وأبو داود فى «سننه» برقم: 1809، والدارمي فى «مسنده» برقم: 1875، 1876، 1877، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 2904، 2907، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 8717، وأحمد فى «مسنده» برقم: 1837، والحميدي فى «مسنده» برقم: 517، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 2351، فواد عبدالباقي نمبر: 20 - كِتَابُ الْحَجِّ-ح: 97»
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا: جس شخص کو احصار ہوا دشمن کے باعث سے، اور وہ اس کی وجہ سے بیت اللہ تک نہ جا سکا، تو وہ احرام کھول ڈالے، اور اپنی ہدی کو نحر کرے، اور سر منڈوائے جہاں پر اس کو احصار ہوا ہے، اور قضاء اس پر نہیں ہے۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الْحَجِّ/حدیث: Q797]
امام مالک رحمہ اللہ کو پہنچا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب رضی اللہ عنہم نے (جب روکا ان کو کفار نے) تو احرام کھول ڈالا حدیبیہ میں، اور نحر کیا ہدی کا، اور سر منڈوائے اور حلال ہو گئے ہر شے سے قبل طوافِ خانۂ کعبہ، اور قبل پہنچ جانے ہدی کے بیت اللہ کو، پھر ہم نہیں جانتے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم کیا ہو کسی کو اپنے اصحاب اور ساتھیوں میں سے دوبارہ قضاء یا اعادہ کرنے کا۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الْحَجِّ/حدیث: 797]
تخریج الحدیث: «مرفوع صحيح لغيره، وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 1639، 1640، 1693، 1708، 1806، 1807، 1812، 1813، 4183، 4184، 4185، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1230، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 2745، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 3998، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 2747، 2861، 2935، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 3712، 3828، والدارمي فى «مسنده» برقم: 1935، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 8838، 8872، وأحمد فى «مسنده» برقم: 4566، 4685، والحميدي فى «مسنده» برقم: 695، والطبراني فى «الصغير» برقم: 361، فواد عبدالباقي نمبر: 20 - كِتَابُ الْحَجِّ-ح: 98ق»
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما جب نکلے مکہ کی طرف عمرہ کی نیت سے جس سال فساد درپیش تھا (یعنی حجاج بن یوسف لڑنے کو آیا تھا سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ سے جو حاکم تھے مکہ کے) تو کہا: اگر مجھے روکا جائے بیت اللہ جانے سے تو کروں گا جیسا کیا تھا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ (جب روکا تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کفار نے)، تو سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے احرام باندھا تھا عمرہ کا اس خیال سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی حدیبیہ کے سال میں احرام باندھا تھا عمرہ کا۔ پھر سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے سوچا تو یہ کہا کہ عمرہ اور حج دونوں کا حکم احصار کی حالت میں یکساں ہے۔ پھر متوجہ ہوئے اپنے ساتھیوں کی طرف اور کہا کہ حج اور عمرہ کا حال یکساں ہے۔ میں نے تم کو گواہ کیا کہ میں نے اپنے اوپر حج بھی واجب کر لیا عمرہ کے ساتھ۔ پھر چلے گئے سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ یہاں تک کہ آئے بیت اللہ میں اور ایک طواف کیا اور اس کو کافی سمجھا اور نحر کیا ہدی کو۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الْحَجِّ/حدیث: 798]
تخریج الحدیث: «مرفوع صحيح، وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 1639، 1640، 1693، 1708، 1806، 1807، 1812، 1813، 4183، 4184، 4185، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1230، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 2745، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 3998، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 2747، 2861، 2935، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 3712، 3828، والدارمي فى «مسنده» برقم: 1935، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 8838، 8872، وأحمد فى «مسنده» برقم: 4566، 4685، والحميدي فى «مسنده» برقم: 695، والطبراني فى «الصغير» برقم: 361، فواد عبدالباقي نمبر: 20 - كِتَابُ الْحَجِّ-ح: 99»
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا: ہمارے نزدیک جس کو دشمن کی وجہ سے احصار ہو اس کا یہی حکم ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے اصحاب نے کیا۔ کہا امام مالک رحمہ اللہ نے: جو سوائے دشمن کے اور کسی وجہ سے رُک جائے وہ حلال نہ ہوگا، بدون بیت اللہ جاتے ہوئے۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الْحَجِّ/حدیث: 798B1]
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا: جو شخص بیماری کی وجہ سے رُک جائے تو وہ حلال نہ ہو گا یہاں تک کہ طواف کرے خانۂ کعبہ کا اور سعی کرے صفا اور مروہ کے بیچ میں۔ اگر ضرورت ہو کسی کپڑے کے پہننے کی یا دواء کی (جو احرام کی حالت میں منع ہے) تو اس کا استعمال کرے اور جزاء دے۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الْحَجِّ/حدیث: 799]
تخریج الحدیث: «موقوف صحيح، وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 1810، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 2770، 2771، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 3735، 3736، والترمذي فى «جامعه» برقم: 942، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 10204، 10205، 10235، 10236، 10237، 10238، والدارقطني فى «سننه» برقم: 2490، 2491، وأحمد فى «مسنده» برقم: 4975، والطحاوي فى «شرح معاني الآثار» برقم: 4138، 4140، والطحاوي فى «شرح مشكل الآثار» برقم: 5915، 5916، والطبراني فى «الأوسط» برقم: 2357، فواد عبدالباقي نمبر: 20 - كِتَابُ الْحَجِّ-ح: 100»
اُم المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ محرم حلال نہیں ہوتا بغیر خانۂ کعبہ پہنچے ہوئے۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الْحَجِّ/حدیث: 800]
تخریج الحدیث: «موقوف صحيح، وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 1696، 1698، 1699، 1700، 1701، 1702، 1703، 1704، 1705، 2317، 5566، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1321، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 2573، 2574، 2608، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 4003، 4009، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 2773، 2777، 2797، وأبو داود فى «سننه» برقم: 1755، 1757، 1758، 1759، والترمذي فى «جامعه» برقم: 908، 909، والدارمي فى «مسنده» برقم: 1952، 1978، 1979، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 3094، 3095، 3096، 3098، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 10209، وأحمد فى «مسنده» برقم: 3038، 24654، والحميدي فى «مسنده» برقم: 210، 211، 219، 220، فواد عبدالباقي نمبر: 20 - كِتَابُ الْحَجِّ-ح: 101»
حضرت ایوب بن ابی تمیمہ سے روایت ہے انہوں نے سنا ایک شخص سے جو بصرہ کا رہنے والا پرانا آدمی تھا (نام اس کا ابوقلابہ بن زید ہے)۔ اس نے کہا: میں چلا مکہ کو، راستے میں میرا کولہا ٹوٹ گیا تو میں نے مکہ میں کسی کو بھیجا، وہاں سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما اور سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما اور اور لوگ بھی تھے، ان میں سے کسی نے مجھ کو اجازت نہ دی احرام کھول ڈالنے کی، یہاں تک کہ میں وہیں پڑا رہا سات مہینے تک، جب اچھا ہوا تو عمرہ کر کے احرام کھولا۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الْحَجِّ/حدیث: 801]
تخریج الحدیث: «موقوف صحيح، وأخرجه البيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 10206، 10207، والبيهقي فى «معرفة السنن والآثار» برقم: 3255، والشافعي فى «الاُم» برقم: 164/2، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 13242، فواد عبدالباقي نمبر: 20 - كِتَابُ الْحَجِّ-ح: 102»
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا: جو شخص خانۂ کعبہ نہ جا سکے بیماری کی وجہ سے، تو اس کا احرام نہ کھلے گا یہاں تک کہ طواف کرے بیت اللہ کا اور سعی کرے صفا اور مروہ کے بیچ میں۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الْحَجِّ/حدیث: 802]
تخریج الحدیث: «موقوف صحيح، وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 1810، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 2770، 2771، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 3735، 3736، والترمذي فى «جامعه» برقم: 942، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 10204، 10205، والبيهقي فى «سننه الصغير» برقم: 1765، والبيهقي فى «معرفة السنن والآثار» برقم: 3252، والطحاوي فى «شرح معاني الآثار» برقم: 4138، 4140، والطحاوي فى «شرح مشكل الآثار» برقم: 5915، 5916، والطبراني فى «الأوسط» برقم: 2357، فواد عبدالباقي نمبر: 20 - كِتَابُ الْحَجِّ-ح: 103»
سلیمان بن یسار سے روایت ہے کہ سعید بن حزابہ مخزومی گر پڑے مکہ کو آتے ہوئے راہ میں، اور وہ احرام باندھے ہوئے تھے، تو جہاں پانی دیکھ کر ٹھہرے تھے وہاں پوچھا، تو سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما اور سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ اور حضرت مروان بن حکم ملے ان سے۔ بیان کیا اس عارضے کو ان سب نے کہا: جیسے ضرورت ہو ویسے دوا کرے اور فدیہ دے، جب اچھا ہو تو عمرہ کر کے احرام کھولے، پھر سال آئندہ حج کرے اور موافق طاقت کے ہدی دے۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الْحَجِّ/حدیث: 803]
تخریج الحدیث: «موقوف صحيح، وأخرجه البيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 10096، والبيهقي فى «معرفة السنن والآثار» برقم: 3254، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 13240، فواد عبدالباقي نمبر: 20 - كِتَابُ الْحَجِّ-ح: 104ق»