1286- سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: غزوہ احد کے دن ایک شخص نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حا ضر ہوا اس نے عرض کی: یارسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم )! آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کیا رائے ہے؟ اگر میں اللہ کی راہ میں قتل کرتے ہوئے مارا جاتا ہوں، تو میں کہاں جاؤں گا؟ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جنت میں۔“ راوی کہتے ہیں: اس شخص نے اپنے ہاتھ میں موجود کھجوریں ایک طرف رکھیں اور پھر جنگ میں حصہ لیا یہاں تک کہ شہید ہوگیا۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 4046، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1899، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 4653، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 3154، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 4347، وسعيد بن منصور فى «سننه» برقم: 2552، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 17990، 18266، وأحمد فى «مسنده» برقم: 14535، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 1972»
1287- سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے: ”کون شخص کعب بن الاشرف سے میری جان چھرائے گا؟ وہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اذیت دیتا ہے“۔ تو سیدنا محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے عرض کی: یارسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم )! کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ پسند کریں گے کہ میں اسے قتل کردوں؟ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جی ہاں“۔ انہوں نے عرض کی: پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے اجازت دیجئے، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اجازت دے دی۔ سیدنا محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ، کعب بن الاشرف کے پاس آئے اور بولے: یہ صاحب (یعنی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ) ہم سے صدقہ بھی طلب کررہے ہیں، انہوں نے تو ہمیں مشقت کا شکار کردیا ہے، میں تمہارے پاس اس لیے آیا ہوں، تا کہ تم سے کچھ قرضہ حاصل کروں، توکعب بولا: اللہ کی قسم! تم ضرور ان سے اکتا جاؤ گے، تو سیدنا محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ بولے: ہم ان کی پیروی کرچکے ہیں اور ہمیں یہ اچھا نہیں لگتا کہ ہم انہیں چھوڑ دیں ابھی ہم اس بات کا جائزہ لیتے ہیں، آگے چل کر ان کی کیا صورتحال ہوتی ہے۔ کعب نے کہا: تم میرے پاس کوئی چیز رہن کے طور پر رکھواؤ! سیدنا محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے دریافت کیا: میں کون سی چیز تمہارے پاس رہن کے طور پررکھواؤں۔ کعب نے کہا: تم اپنے بیٹوں کو میرے پاس رہن رکھوادو! تو سیدنا محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے اس سے کہا: کوئی شخص ہم میں سے کسی کے بچے کو گالی دیتے ہوئے کہے گاکھجور کے دو وسق کے عوض میں اسے رہن رکھوا دیا گیا تھا۔ کعب نے کہا: پھر اپنی عورتوں کو (رہن رکھوا دو) تو محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے کہا: تم عرب کے خوبصورت ترین آدمی ہو، تو کیا ہم اپنی عورتیں تمہارے پاس رہن رکھوا دیں؟ البتہ ہم اپنا اسلحہ (زرہیں) تمہارے پاس رہن رکھوا دیتے ہیں۔ کعب بولا: ٹھیک ہے۔ سیدنا محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے اس کے ساتھ وعدہ کیا کہ وہ اس کے پا س آئیں۔ راوی بیان کرتے ہیں: وہ چار افراد تھے جن میں سے دو کے نام عمرو نے بیان کیے ہیں ایک سیدنا محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ تھے اور دوسرے سیدنا ابونائلہ رضی اللہ عنہ تھے۔ یہ چار حضرات کعب بن اشرف کے پاس آئے وہ اس و قت چادر اوڑھے ہوئے تھا، جس میں سے پاکیزہ خوشبو پھوٹ رہی تھی ان حضرات نے کہا: ہم نے آج جیسی پاکیزہ خوشبو کبھی نہیں سونگھی۔ وہ بولا: میری بیوی فلاں عورت ہے، جو عرب کی سب سے معطرعورت ہے، تو سیدنا محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے کہا: تم مجھے اجازت دو کہ میں اس خوشبو سونگھ لوں، تو اس نے کہا: تم سونگھ لو! پھر سیدنا محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے کہا: تم مجھے دوبارہ اجازت دو کہ میں دوبارہ اسے سونگھوں۔ راوی کہتے ہیں: جب سیدنا محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ دوبارہ اس کے قریب ہوئے، تو انہوں نے اس کا سر پکڑلیا اور بولے: اس کو ماردو! ان حضرات نے اسے مارا یہاں تک کہ اسے قتل کردیا۔
1288-عکرمی نامی روای نے روایت میں یہ الفاظ نقل کیے ہیں: کعب بن اشرف کی بیوی نے اسے کہا: میں نے ایک ایسی آواز سنی ہے، جس میں سے مجھے خون کی بومحسوس ہو رہی ہے، تو کعب بن اشراف بولا: یہ تو ابونائلہ ہے، جو میرا بھائی ہے اگر وہ مجھے سویا ہوا پاتا تو مجھے بیدار نہ کرتا اور معزز آدمی کو زخمی کرنے کے لیے بھی بلایا جائے، تو وہ ضرور جاتا ہے۔ راوی نے ان حضرات کے نام بیان کیے ہیں جو یہ ہیں۔ سیدنا محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ، سیدنا ابونائلہ رضی اللہ عنہ، سیدنا عباد بن بشر رضی اللہ عنہ، سیدنا ابوعبس بن جبر رضی اللہ عنہ، اور سیدنا حارث بن معاذ رضی اللہ عنہ۔
1289-سفیان کہتے ہیں: میں نے عمروبن دینار سے دریافت کیا: کیا آپ نے سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کو یہ بیان کرتے ہوئے سنا ہے؟ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص سے یہ فرمایا تھا: جو مسجد میں اپنے تیرلے کر گزر رہا تھا کہ تم اسے دھار کی طرف سے پکڑکر رکھو، تو انہوں نے جواب دیا: جی ہاں۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 451، 7073، 7074، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 2614، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 1316، 1317، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 1647، 1648، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 717، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 799، وأبو داود فى «سننه» برقم: 2586، والدارمي فى «مسنده» برقم: 657، 1442، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 3777، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 15977، 15978، وأحمد فى «مسنده» برقم: 14531، 15009، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 1833، 1971، 1994، 1995»
1290- سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: یہ آیت ہمارے بارے میں یعنی بنو حارثہ اور بنو سلمہ کے بارے میں نازل ہوئی تھی۔ «إِذْ هَمَّتْ طَائِفَتَانِ مِنْكُمْ أَنْ تَفْشَلا»(3-آل عمران:122)”جب تم میں سے دوگروہوں نے یہ ارادہ کیا کہ وہ بزدلی دکھائیں۔“ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: مجھے یہ بات پسند نہیں ہے، یہ آیت نازل نہ ہوئی ہوتی کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے: «وَاللهُ وَلِيُّهُمَا»(3-آل عمران:122)”اللہ تعالیٰ ان دونوں گرو ہوں کا ولی (حامی ومدد گار) ہے۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 4051، 4558، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 2505، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 7288، وسعيد بن منصور فى «سننه» برقم: 523، 2870»
1291- سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں گھوڑوں کا گوشت کھلایا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں گدھوں کے گوشت سے منع کیا ہے۔
1292- سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ”مخابرہ“ سے منع کیا ہے۔ سفیان کہتے ہیں: میں نے عمرو بن دینار کے حوالے سے جو بھی روایت سنی اس میں انہوں نے یہی کہا: میں نے سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کو یہ بیان کرتے ہوئے سنا ہے، البتہ ان دو روایات کاحکم مختلف ہے۔ یعنی گھوڑوں کے گوشت والی روایت اور مخابرہ والی روایت، مجھے نہیں معلوم کہ آیا ان دونوں روایات میں عمر وبن دینار اور سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کے درمیان کوئی اور راوی ہے یا نہیں؟ جہاں تک تیروں والی روایت کاتعلق ہے، تو میں نے ان سے کہا: کیا آپ نے سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کو یہ بیان کرتے ہوئے سنا ہے؟ انہوں نے جواب دیا: اسی طرح جس طرح میں تمہیں یہ حدیث سنارہا ہوں۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، وأخرجه مسلم فى «صحيحه» برقم: 1536، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 11809، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 1834، 2064، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 21664، والطحاوي فى «شرح مشكل الآثار» برقم: 3056، 3057»
1293-سیلمان بن سیار بیان کرتے ہیں: طارق نامی صاحب مدینہ منورہ کے گورنر تھے۔ انہوں نے سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کی نقل کردہ حدیث کی بنیاد ہ پر ”عمریٰ“ کے بارے میں یہ فیصلہ دیا کہ وہ وارث کو ملے گی۔
1294- سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: ہم لوگ عزل کرلیا کرتے تھے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے درمیان موجود تھے اور قرآن نازل ہوتا رہا (لیکن ہمیں اس عمل سے منع نہیں کیا گیا)۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 5207، 5208، 5209، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1440، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 4195، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 9044، 9045، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1137، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 1927، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 14416، 14417، وأحمد فى «مسنده» برقم: 14540، 15188، 15263، 15304، والطيالسي فى «مسنده» برقم: 1803، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 2193، 2255، وعبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 12566»
1295- سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: ایک شخص نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اس نے عرض کی: یارسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم )! میری ایک کنیز ہے میں اس سے عزل کرلیتا ہوں؟ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”یہ عمل اس چیز کو واپس نہیں کر سکتا جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فیصلہ دے دیا ہو“۔ سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: وہ شخص چلا گیا کچھ عرصے کے بعد وہ دوبارہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اس نے عرض کی: یارسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم )! مجھے یہ پتہ چلا ہے، وہ کنیز حاملہ ہوگئی ہے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ہوں“۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، وأخرجه مسلم فى «صحيحه» برقم: 1439، 1439، 1439، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 4194، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 9030، 9048، وأبو داود فى «سننه» برقم: 2173، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1136، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 89، وسعيد بن منصور فى «سننه» برقم: 2243، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 14418، 14419، وأحمد فى «مسنده» برقم: 14569، 14586، 15372، 15406، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 1910، 2076»