954- سیدنا سہیل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے: ”مجھے اور قیامت کو اس طرح معبوث کیا گیا ہے جیسے یہ اور یہ ہیں۔“ سفیان نے شہادت کی انگلی اور درمیانی انگلی کے ذریعے اشارہ کرکے یہ بات بیان کی۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 4936، 5301، 6503، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 2950، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 6642، وأحمد فى «مسنده» برقم: 23259، 23298، 23326، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 7523، والطبراني فى "الكبير" برقم: 5912، 5953، 5988، والطبراني فى "الأوسط" برقم: 5801»
955-ابوحازم بیان کرتے ہیں: لوگوں نے سیدنا سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کامنبر کس چیز سے بنایا گیا تھا، تو انہوں نے فرمایا: اب لوگوں میں ایسا کوئی شخص باقی نہیں رہا جو اس کے بارے میں مجھ سے زیادہ جانتا ہو، یہ نواحی جنگلات کی لکڑی سے بنایا گیا تھا، جسے فلاں شخص نے بنایا تھا، جو فلاں خاتون کا غلام تھا۔ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر چڑھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبلہ کی طرف رخ کیا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تکبیر کہی پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تلاوت کی پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رکوع کیا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم الٹے قدموں نیچے اترے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سجدہ کیا پھر منبر پر چڑھ گئے، پھر تلاوت کی پھر رکوع کیا پھر الٹے قدموں نیچے اترے پھر سجدہ کیا۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 377، 448، 917، 2094، 2569، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 544، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 2142، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 738، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 820، وأبو داود فى «سننه» برقم: 1080، والدارمي فى «مسنده» برقم: 41، 1293، 1606، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 1416، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 5310، 5311، 5312، 5779، وأحمد فى «مسنده» برقم: 23263، 23318، 23335»
956- سیدنا سہل بن سعد رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: ایک مرتبہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بنو عمرو بن عوف کے درمیان صلح کروانے کے لیے تشریف لے گئے کیونکہ ان کے درمیان جھگڑا ہوا تھا، یہاں تک کہ انہوں نے ایک دوسرے کو پتھر بھی مارے تھے۔ اس دوران نماز کا وقت ہوگیا، سیدنا بلال رضی اللہ عنہ نے اذان دی۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم وہیں رکے رہے۔ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ لوگوں کو نماز پڑھانے کے لیے آگے بڑھ گئے پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم صفوں کے درمیان میں سے گزرتے ہوئے تشریف لائے، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پیچھے والی صف تک پہنچے، تو لوگوں نے تالیاں بجانی شروع کیں۔ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ ایک ایسے فرد تھے، جو نماز کے دوران ادھر ادھر توجہ نہیں کرتے تھے، جب انہوں نے تالیوں کی آواز سنی اور توجہ کی، تو انہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نظر آئے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اشارہ کیا کہ تم اپنی جگہ پر رہو۔ تو سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اپنا سر آسمان کی طرف اٹھا کر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا اور الٹے قدموں پیچھے ہٹ گئے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم آگے بڑھے جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز مکمل کر لی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے ابوبکر! جب میں نے تمہیں اشارہ کیا پھر تم کو کس بات نے روکا“؟ (کہ تم میرے حکم پر عمل کرو) تو سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عرض کی: اللہ تعالیٰ، ابوقحافہ کے بیٹے کو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے آگے نہیں دیکھے گا۔ پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”اے لوگو! کیا وجہ ہے کہ جب نماز کے دوران تمہیں ضرورت پیش آئی تو تم نے تالیاں بجانا شروع کردیں؟ تالیا ں بجانے کاحکم خواتین کے لیے ہے، مردوں کے لیے سبحان اللہ کہنے کاحکم ہے۔ جس شخص کو نماز کے دوران (امام کو متوجہ کرنے کے لیے) کوئی ضرورت پیش آجائے، تو وہ سبحان اللہ کہے“۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 684، 1201، 1204، 1218، 1234، 2690، 2693، 7190، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 421، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 2260، 2261، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 4485، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 783، 792، 1182، وأبو داود فى «سننه» برقم: 940، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 1035، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 3380، وأحمد فى «مسنده» برقم: 23264، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 7513، 7517، 7524، 7545»
957- سیدنا سہیل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس موجود افراد میں شامل تھا۔ ایک خاتون آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اس نے عرض کی: یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میں خود کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہبہ کرتی ہوں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم میرے بارے میں اپنی رائے کا جائزہ لے لیں۔ ایک صاحب کھڑے ہوئے، انہوں نے عرض کی: یا رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم )! اس کے ساتھ میری شادی کردیں، اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی ضرورت نہیں ہے۔ راوی کہتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے وہ عورت پھر کھڑی ہوئی اس نے پھر یہی گزارش کی۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان صاحب سے فرمایا: کیا تمہارے پاس کوئی چیز ہے، جسے تم (مہر کے طور پر) اسے دے سکو؟ انہوں نے عرض کی: جی نہیں! نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جاؤ اور جاکر کچھ تلاش کرو“! وہ صاحب گئے پھر واپس تشریف لائے، انہوں نے عرض کی: یارسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم )! مجھے کوئی چیز نہیں ملی۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جاؤ اور تلاش کرو، اگر چہ لوہے کی ایک انگوٹھی ہی ہو“۔ وہ صاحب گئے پھر آئے اور عرض کی: یا رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم )! مجھے کوئی چیز نہیں ملی، لوہے کی کوئی انگوٹھی بھی نہیں ملی۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تمہیں قرآن آتا ہے“؟ انہوں نے عرض کی: جی ہاں فلاں، فلاں سورۃ آتی ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جاؤ! تمہیں جو قرآن آتا ہے اس کی وجہ سے میں نے تمہاری شادی اس کے ساتھ کردی“۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح وأخرجه البخاري 5149، 2310 وأخرجه مسلم 1425، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 4093، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 3200، 3280، 3339، 3359، وأبو داود فى «سننه» برقم: 2111، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1114، والدارمي فى «مسنده» برقم: 2247، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 1889، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 7521، 7522، 7539»
958- ابوحازم بیا ن کرتے ہیں: لوگوں کے درمیان اس بارے میں اختلاف ہوگیا کہ غزوۂ احد کے دن جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم زخمی ہوئے تھے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا علاج کس طرح کیا گیا تھا؟ لوگوں نے اس بارے میں سیدنا سہیل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا۔ وہ مدینہ منورہ میں باقی رہ جانے والے آخری صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم تھے۔ تو سیدنا سہیل رضی اللہ عنہ نے بتایا: اب کوئی ایسا شخص باقی نہیں رہا جو اس بارے میں مجھ سے زیادہ علم رکھتا ہو۔ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرۂ مبارک سے خون دھویا تھا۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ اپنی ڈھال میں پانی لے کرآئے تھے، پھر چٹائی لے کر اسے جلایا گیا اور اسے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زخم پر لگا دیا گیا۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 243، 2903، 2911، 3037، 4075، 5248، 5722، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1790، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 973، 6578، 6579، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 6504، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 9191، والترمذي فى «جامعه» برقم: 2085، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 3464، 3465، وسعيد بن منصور فى «سننه» برقم: 2847، 2848، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 4152، 17929، وأحمد فى «مسنده» برقم: 23262، 23293»
959- سیدنا سہیل بن سعد رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے: ”جنت میں ایک کوڑا رکھنے کی جگہ دنیا اور ا س کی ساری چیزوں سے بہتر ہے۔“
960- وہب بن عبداللہ اپنے والد کے حوالے سے اپنے دادا کایہ بیان نقل کرتے ہیں: حجۃ الوداع کے موقع پر میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کویہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا: ”اللہ تعالیٰ سر منڈوانے والوں پر رحم کرے۔“ پھر امام حمیدی نے اپنے ہاتھ کے ذریعے اس طرح اشارہ کیا انہوں نے اپنے دائیں ہاتھ کوپھیلایا۔ لوگوں نے عرض کی: یارسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم )! بال چھوٹے کروانے والوں کے لیے بھی (دعا کر دیجئے)۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ سر منڈوانے والوں پررحم کرے“۔ لوگوں نے عرض کی: یارسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم )! بال چھوٹے کروانے والوں کے لیے بھی (دعا کر دیجئے)، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ سر منڈوانے والوں پررحم کرے“۔ لوگوں نے عرض کی: یارسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم )! بال چھوٹے کروانے والوں کے لیے بھی (دعا کر دیجئے) تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”(اللہ تعالیٰ) بال چھوٹے کروانے والوں (پربھی رحم کرے)“ اس مرتبہ حمیدی نے اپنے ہاتھ کے ذریعے اشارہ کیا لیکن انہوں نے پہلی مرتبہ کی مانند اسے نہیں پھیلایا۔ سفیان کہتے ہیں: میں نے اپنی تحریر میں راوی کا نام ”مارب“ دیکھا ہے اور میری یاداشت کے مطابق ان کا نام ”قارب“ ہے۔ لوگ بھی انہیں ”قارب“ ہی بیان کرتے ہیں: جس طرح مجھے یاد ہے۔ تاہم میں یہ کہتا ہوں کہ اس کا نام یا ”قارب“ ہے یا ”مارب“ ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده جيد، وأخرجه أحمد فى «مسنده» برقم: 27846، مجمع الزوائد ومنبع الفوائد: برقم: 5671، وله شواهد من حديث ابن عمر وأخرجه ابن حبان فى «صحيحه» برقم: 3880، والترمذي فى «جامعه» برقم: 913، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 3044، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 1263، 2718، 2476»