الحمدللہ! صحيح ابن خزيمه پیش کر دی گئی ہے۔    


صحيح مسلم کل احادیث (7563)
حدیث نمبر سے تلاش:

صحيح مسلم
كِتَاب الرِّضَاعِ
رضاعت کے احکام و مسائل
13. باب الْقَسْمِ بَيْنَ الزَّوْجَاتِ وَبَيَانِ أَنَّ السُّنَّةَ أَنْ تَكُونَ لِكُلِّ وَاحِدَةٍ لَيْلَةٌ مَعَ يَوْمِهَا:
13. باب: بیبیوں کی باری کا بیان۔
حدیث نمبر: 3628
حدثنا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ حدثنا شَبَابَةُ بْنُ سَوَّارٍ ، حدثنا سُلَيْمَانُ بْنُ الْمُغِيرَةِ ، عَنْ ثَابِتٍ ، عَنْ أَنَسٍ ، قَالَ: " كَانَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تِسْعُ نِسْوَةٍ، فَكَانَ إِذَا قَسَمَ بَيْنَهُنَّ لَا يَنْتَهِي إِلَى الْمَرْأَةِ الْأُولَى، إِلَّا فِي تِسْعٍ، فَكُنَّ يَجْتَمِعْنَ كُلَّ لَيْلَةٍ فِي بَيْتِ الَّتِي يَأْتِيهَا "، فَكَانَ فِي بَيْتِ عَائِشَةَ، فَجَاءَتْ زَيْنَبُ، فَمَدَّ يَدَهُ إِلَيْهَا، فقَالَت: هَذِهِ زَيْنَبُ، فَكَفَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدَهُ فَتَقَاوَلَتَا، حَتَّى اسْتَخَبَتَا وَأُقِيمَتِ الصَّلَاةُ، فَمَرَّ أَبُو بَكْرٍ عَلَى ذَلِكَ فَسَمِعَ أَصْوَاتَهُمَا، فقَالَ: اخْرُجْ يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِلَى الصَّلَاةِ وَاحْثُ فِي أَفْوَاهِهِنَّ التُّرَابَ، فَخَرَجَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فقَالَت عَائِشَةُ: الْآنَ يَقْضِي النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَاتَهُ فَيَجِيءُ أَبُو بَكْرٍ، فَيَفْعَلُ بِي وَيَفْعَلُ، فَلَمَّا قَضَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، صَلَاتَهُ أَتَاهَا أَبُو بَكْرٍ، فقَالَ لَهَا قَوْلًا شَدِيدًا، وَقَالَ: أَتَصْنَعِينَ هَذَا.
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نو بیویاں تھیں، جب آپ ان میں باری تقسیم فرماتے تو پہلی باری والی بیوی کے پاس نویں رات ہی پہنچتے۔ وہ سب ہر رات اس (بیوی کے) گھر میں جمع ہو جاتی تھیں جہاں نبی صلی اللہ علیہ وسلم تشریف فرما ہوتے، حضرت زینب رضی اللہ عنہا آئیں تو آپ نے اپنا ہاتھ ان کی طرف پھیلایا۔ انہوں (عائشہ رضی اللہ عنہا) نے کہا: یہ زینب ہیں آپ نے اپنا ہاتھ روک لیا، اس پر ان دونوں میں تکرار ہو گئی حتی کہ ان کی آوازیں بلند ہو گئیں، اور (اسی دوران میں) نماز کی اامت ہو گئی، حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا وہاں سے گزر ہوا، انہوں نے ان کی آوازیں سنیں تو کہا: اے اللہ کے رسول! آپ نماز کے لیے تشریف لائیے اور ان کے منہ میں مٹی ڈالیے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لائے تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: ابھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی نماز پوری کریں گے تو ابوبکر رضی اللہ عنہ آئیں گے وہ مجھے ایسے ایسے (ڈانٹ ڈپٹ) کریں گے۔ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز مکمل کی، ابوبکر رضی اللہ عنہ ان (حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا) کے پاس آئے اور انہیں سخت سرزنش کی۔ اور کہا: کیا تم ایسا کرتی ہو؟
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی (وفات کے وقت) نو بیویاں تھیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب ان میں باری تقسیم کرتے تو پہلی باری والی بیوی کے پاس نوویں رات پہنچتے۔ اور وہ سب ہر رات اس بیوی کے ہاں اکٹھی ہو جاتیں، جس کی باری ہوتی تھی، ایک دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے گھر میں تھے (ان کی باری تھی)، تو حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا آ گئیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی طرف ہاتھ بڑھایا، تو عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے کہا، یہ زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ روک لیا۔ تو دونوں میں تکرار ہو گئی، حتی کہ شور پیدا ہو گیا، اور نماز کی اقامت ہو گئی۔ اس پر حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ وہاں سے گزرے اور انہوں نے دونوں کی آوازیں سن لیں تو عرض کی۔ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! نماز کے لیے تشریف لائیے، اور ان کے منہ میں مٹی ڈال دیجیے۔ اس پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے لیے تشریف لے گئے۔ تو حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کہنے لگیں (دل میں) ابھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نماز ادا کریں گے تو ابوبکر ان کے ساتھ آ جائیں گے اور مجھے ہی سرزنش و توبیخ کریں گے، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز ادا کر لی تو عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ آئے اور انہیں سخت سرزنش کی اور کہا: کیا تم یہ حرکت کرتی ہو؟
14. باب جَوَازِ هِبَتِهَا نَوْبَتَهَا لِضَرَّتِهَا:
14. باب: اپنی باری سوکن کو ہبہ کرنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 3629
حدثنا زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، حدثنا جَرِيرٌ ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَت: مَا رَأَيْتُ امْرَأَةً أَحَبَّ إِلَيَّ أَنْ أَكُونَ فِي مِسْلَاخِهَا مِنْ سَوْدَةَ بِنْتِ زَمْعَةَ مِنَ امْرَأَةٍ فِيهَا حِدَّةٌ، قَالَت: " فَلَمَّا كَبِرَتْ جَعَلَتْ يَوْمَهَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِعَائِشَةَ، قَالَت: يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَدْ جَعَلْتُ يَوْمِي مِنْكَ لِعَائِشَةَ، فَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقْسِمُ لِعَائِشَةَ يَوْمَيْنِ، يَوْمَهَا وَيَوْمَ سَوْدَةَ "،
جریر نے ہمیں ہشام بن عروہ سے حدیث بیان کی، انہوں نے اپنے والد (عروہ بن زبیر) سے، انہوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی، انہوں نے کہا: میں نے کوئی عورت نہیں دیکھی جو مجھے سودہ بنت زمعہ رضی اللہ عنہا کی نسبت زیادہ پسندیدہ ہو کہ میں اس کے پیکر میں ہوں (اس جیسی بن جاؤں) ایک ایسی خاتون کی نسبت جن میں کچھ گرم مزاجی (بھی) تھی، کہا: جب وہ بوڑھی ہو گئیں تو انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اپنی باری کا دن حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو دے دیا۔ انہوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! میں نے آپ کے ساتھ اپنی باری کا دن حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو دے دیا ہے۔ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عائشہ رضی اللہ عنہا کو دو دن دیتے، ایک ان کا دن اور ایک حضرت سودہ رضی اللہ عنہا کا دن
حضرت عائشہ رضی اللہتعالی عنہا بیان کرتی ہیں، میں نے کسی عورت کو نہیں دیکھا، جس جیسا میں ہونا پسند کرتی، سوائے حضرت سودہ بنت زمعہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے۔ وہ ایک ایسی عورت تھی جس میں تیزی (حدت) تھی یعنی وہ گرم مزاج تھیں۔ جب وہ بوڑھی ہو گئیں تو اس نے اپنی باری جو انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے حاصل تھی، مجھے دے دی۔ اس نے عرض کیا، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنی باری عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو دے دی، اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو دو دن دیتے تھے۔ اس کا اپنا اور سودہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا۔
حدیث نمبر: 3630
حدثنا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حدثنا عُقْبَةُ بْنُ خَالِدٍ . ح وحدثنا عَمْرٌو النَّاقِدُ ، حدثنا الْأَسْوَدُ بْنُ عَامِرٍ ، حدثنا زُهَيْرٌ . ح وحدثنا مُجَاهِدُ بْنُ مُوسَى ، حدثنا يُونُسُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، حدثنا شَرِيكٌ كُلُّهُمْ، عَنْ هِشَامٍ ، بِهَذَا الْإِسْنَادِ: أَنَّ سَوْدَةَ لَمَّا كَبِرَتْ بِمَعْنَى حَدِيثِ جَرِيرٍ، وَزَادَ فِي حَدِيثِ شَرِيكٍ، قَالَت: وَكَانَتْ أَوَّلَ امْرَأَةٍ تَزَوَّجَهَا بَعْدِي.
عقبہ بن خالد، زہیر اور شریک، ان سب نے ہشام سے اسی سند کے ساتھ روایت کی کہ حضرت سودہ رضی اللہ عنہا جب بوڑھی ہو گئیں۔۔۔ آگے جریر کی حدیث کے ہم معنی ہے اور شریک کی حدیث میں یہ اضافہ ہے: وہ پہلی خاتون تھیں جن سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے بعد نکاح کیا
امام صاحب اپنے تین اساتذہ کی سند سے ہشام ہی کے واسطہ سے بیان کرتے ہیں کہ جب حضرت سودہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بوڑھی ہو گئیں، آ گے مذکورہ بالا روایت ہے اور شریک کی روایت میں یہ اضافہ ہے وہ پہلی عورت تھیں جس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے بعد شادی کی۔
حدیث نمبر: 3631
حدثنا أَبُو كُرَيْبٍ مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ ، حدثنا أَبُو أُسَامَةَ ، عَنْ هِشَامٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَت: " كُنْتُ أَغَارُ عَلَى اللَّاتِي وَهَبْنَ أَنْفُسَهُنَّ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَقُولُ وَتَهَبُ الْمَرْأَةُ نَفْسَهَا فَلَمَّا أَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: تُرْجِي مَنْ تَشَاءُ مِنْهُنَّ وَتُؤْوِي إِلَيْكَ مَنْ تَشَاءُ وَمَنِ ابْتَغَيْتَ مِمَّنْ عَزَلْتَ سورة الأحزاب آية 51، قَالَت: قُلْتُ: وَاللَّهِ مَا أَرَى رَبَّكَ إِلَّا يُسَارِعُ لَكَ فِي هَوَاكَ ".
ابواسامہ نے ہمیں ہشام سے حدیث بیان کی، انہوں نے اپنے والد (عروہ) سے، انہوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی، انہوں نے کہا: میں ان عورتوں پر غیرت کرتی تھی جو اپنے آپ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بطور ہبہ پیش کرتی تھیں، میں کہتی: کیا کوئی عورت بھی خود کو ہبہ کر سکتی ہے؟ جب اللہ تعالیٰ نے نازل فرمایا: "آپ ان عورتوں میں سے جسے چاہیں پیچھے کر دیں اور جسے چاہیں اپنے پاس جگہ دیں اور جسے آپ نے الگ کر دیا تھا ان میں سے بھی جسے آپ کا دل چاہے لائیں۔" کہا: تو میں نے کہا: اللہ کی قسم! میں آپ کے رب کو نہیں دیکھتی مگر وہ آپ کے لیے آپ کی خواہش (کو پورا کرنے) میں جلدی کرتا ہے
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں، مجھے ان عورتوں پر غصہ آتا تھا جو اپنے آپ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ہبہ کر دیتی تھیں، اور میں کہتی، کیا کوئی عورت اپنے آپ کو ہبہ کرنا گوارا کر سکتی ہے؟ تو جب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتار دی: (آپ اپنی ازواج میں سے جسے چاہیں پیچھے ہٹا دیں اور جسے چاہیں اپنے پاس جگہ دیں، اور جسے اپنے سے علیحدہ کر دیا اگر اس کو بلانا چاہیں (تو آپ کو کوئی حرج نہیں) (احزاب: 51)
حدیث نمبر: 3632
وحدثناه أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حدثنا عَبْدَةُ بْنُ سُلَيْمَانَ ، عَنْ هِشَامٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَائِشَةَ ، أَنَّهَا كَانَتْ تَقُولُ: " أَمَا تَسْتَحْيِي امْرَأَةٌ تَهَبُ نَفْسَهَا لِرَجُلٍ حَتَّى أَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: تُرْجِي مَنْ تَشَاءُ مِنْهُنَّ وَتُؤْوِي إِلَيْكَ مَنْ تَشَاءُ سورة الأحزاب آية 51، فَقُلْتُ: إِنَّ رَبَّكَ لَيُسَارِعُ لَكَ فِي هَوَاكَ ".
عبدہ بن سلیمان نے ہشام سے حدیث بیان کی، انہوں نے اپنے والد (عروہ) سے، انہوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سےروایت کی، وہ کہاکرتی تھیں: کیا اس عورت کو حیا محسوس نہیں ہوتی جو خود کو کسی مرد کے لیے ہبہ کرتی ہے۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے یہ نازل فرمایا: "آپ ان عورتوں میں سے جسے چاہیں پیچھے کریں اور جسے چاہیں اپنے پاس جگہ دیں۔" تو میں نے کہا: بلاشبہ آپ کا رب آپ کی خواہش (کو پورا کرنے) میں جلدی کرتا ہے
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں میں کہا کرتی تھی کیا وہ عورت جو اپنا نفس کسی کو ہبہ کرتی ہے اسے شرم نہیں آتی؟ حتی کہ اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری: (آپ بیویوں میں سے جسے چاہیں دور کریں اور جسے چاہیں اپنے پاس جگہ دیں۔ تو میں نے کہا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا رب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خواہش پوری کرنے میں جلدی کرتا ہے۔
حدیث نمبر: 3633
حدثنا إِسْحَاقَ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ حَاتِمٍ، قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ حَاتِمٍ ، حدثنا مُحَمَّدُ بْنُ بَكْرٍ ، أَخْبَرَنا ابْنُ جُرَيْجٍ ، أَخْبَرَنِي عَطَاءٌ ، قَالَ: حَضَرْنَا مَعَ ابْنِ عَبَّاسٍ جَنَازَةَ مَيْمُونَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِسَرِفَ، فقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ : " هَذِهِ زَوْجُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَإِذَا رَفَعْتُمْ نَعْشَهَا، فَلَا تُزَعْزِعُوا وَلَا تُزَلْزِلُوا وَارْفُقُوا، فَإِنَّهُ كَانَ عَنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، تِسْعٌ فَكَانَ يَقْسِمُ لِثَمَانٍ وَلَا يَقْسِمُ لِوَاحِدَةٍ "، قَالَ عَطَاءٌ: الَّتِي لَا يَقْسِمُ لَهَا صَفِيَّةُ بِنْتُ حُيَيِّ بْنِ أَخْطَبَ،
محمد بن بکر نے ہمیں حدیث بیان کی، کہا: ہمیں ابن جریج نے خبر دی، کہا: مجھے عطاء نے خبر دی، کہا: سرف کے مقام پر ہم حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کے ساتھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اہلیہ حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا کے جنازے میں حاضر ہوئے تو ابن عباس رضی اللہ عنہ نے کہا: یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اہلیہ ہیں۔ جب تم ان کی چارپائی اٹھاؤ تو اس کو ادھر اُدھر حرکت دینا نہ ہلانا، نرمی (اور احترام) سے کام لینا، امر واقع یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نو بیویاں تھیں، آپ آٹھ کے لیے باری تقسیم کرتے اور ایک کے لیے تقسیم نہ کرتے تھے۔ عطاء نے کہا: جن کو آپ باری نہیں دیتے تھے وہ حضرت صفیہ بنت حیی بن اخطب رضی اللہ عنہا تھیں
عطاء بیان کرتے ہیں کہ ہم حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے ساتھ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی حضرت میمونہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے جنازے میں مقام سَرف میں حاضر تھے۔ تو حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما نے فرمایا: یہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ ہیں، تو جب تم ان کی چارپائی کو اٹھاؤ تو اسے جھٹکے نہ دینا اور نہ ہی زیادہ حرکت دینا، اور آرام و سکون کے ساتھ چلنا، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نو بیویاں تھیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم آٹھ کو باری دیتے تھے اور ایک کو باری نہیں دیتے تھے۔ عطاء کہتے ہیں، جس کو باری نہیں دیتے تھے وہ صفیہ بنت حیی بن اخطب رضی اللہ تعالیٰ عنہا تھیں۔
حدیث نمبر: 3634
حدثنا مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ ، وَعَبْدُ بْنُ حميد ، جميعا عَنْ عَبْدِ الرَّزَّاقِ ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ ، بِهَذَا الْإِسْنَادِ، وَزَادَ قَالَ عَطَاءٌ: كَانَتْ آخِرَهُنَّ مَوْتًا مَاتَتْ بِالْمَدِينَةِ.
عبدالرزاق نے ابن جریج سے اسی سند کے ساتھ روایت کی اور یہ اضافہ کیا کہ عطاء نے کہا: وہ ان سب میں سے، آخر میں فوت ہونے والی (میمونہ رضی اللہ عنہا) تھیں، وہ مدینہ میں فوت ہوئیں
امام صاحب اپنے ایک اور استاد سے مذکورہ بالا روایت بیان کرتے ہیں جس میں یہ اضافہ ہے عطاء نے کہا۔ وہ سب سے آخر میں فوت ہوئی تھیں اور انہوں نے مدینہ میں وفات پائی تھی۔
15. باب اسْتِحْبَابِ نِكَاحِ ذَاتِ الدِّينِ:
15. باب: دیندار سے نکاح کرنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 3635
حدثنا زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، وَعُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ ، قَالُوا: حدثنا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ ، أَخْبَرَنِي سَعِيدُ بْنُ أَبِي سَعِيدٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم قَالَ: " تُنْكَحُ الْمَرْأَةُ لِأَرْبَعٍ: لِمَالِهَا، وَلِحَسَبِهَا، وَلِجَمَالِهَا، وَلِدِينِهَا، فَاظْفَرْ بِذَاتِ الدِّينِ تَرِبَتْ يَدَاكَ ".
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی، آپ نے فرمایا: "عورت کے ساتھ چار باتوں کی بنا پر شادی کی جاتی ہے: اس کے مال کی وجہ سے، اس کے حسب (ونسب) کی وجہ سے، اس کی خوبصورتی کی وجہ سے اور اس کے دین کی وجہ سے۔ تم دین والی کے ساتھ (شادی کر کے) ظفر مند بنو (کامیابی حاصل کرو) تمہارے ہاتھ خاک آلود ہوں۔" (یہ اس بات سے کنایہ ہے کہ تم ہمیشہ کام کرتے رہو
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: چار بنیادوں یا اسباب کی بنا پر عورت سے نکاح کیا جاتا ہے، اس کے مال کی بنا پر، اس کے حسب و خاندان کی بنا پر، اس کے حسن و جمال کی خاطر اور اس کی دین داری کے سبب۔ تم دین دار عورت سے شادی کر کے کامیابی حاصل کرو۔ تمہارے ہاتھ خاک آ لود ہوں۔
حدیث نمبر: 3636
وحدثنا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ ، حدثنا أَبِي ، حدثنا عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ أَبِي سُلَيْمَانَ ، عَنْ عَطَاءٍ ، أَخْبَرَنِي جَابِرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: تَزَوَّجْتُ امْرَأَةً فِي عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَقِيتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فقَالَ: " يَا جَابِرُ، تَزَوَّجْتَ "، قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ: " بِكْرٌ أَمْ ثَيِّبٌ "، قُلْتُ: ثَيِّبٌ، قَالَ: " فَهَلَّا بِكْرًا تُلَاعِبُهَا "، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ لِي أَخَوَاتٍ، فَخَشِيتُ أَنْ تَدْخُلَ بَيْنِي وَبَيْنَهُنَّ، قَالَ: " فَذَاكَ إِذَنْ إِنَّ الْمَرْأَةَ تُنْكَحُ عَلَى: دِينِهَا، وَمَالِهَا، وَجَمَالِهَا، فَعَلَيْكَ بِذَاتِ الدِّينِ تَرِبَتْ يَدَاكَ ".
عطاء سے روایت ہے، کہا: مجھے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ نے خبر دی، انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ایک عورت سے شادی کی، میری ملاقات نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ہوئی تو آپ نے پوچھا: "جابر! تم نے نکاح کر لیا ہے؟" میں نے عرض کی: جی ہاں۔ آپ نے فرمایا: "کنواری ہے یا دوہاجو (شوہر دیدہ)؟" میں نے عرض کی: دوہاجو۔ آپ نے فرمایا: "باکرہ سے کیوں نہ کی، تم اس سے دل لگی کرتے؟" میں نے عرض کی: اے اللہ کے رسول! میری بہنیں ہیں تو میں ڈرا کہ وہ میرے اور ان کے درمیان حائل ہو جائے گی، آپ نے فرمایا: "پھر ٹھیک ہے، بلاشبہ کسی عورت سے شادی (میں رغبت) اس کے دین، مال اور خوبصورتی کی وجہ سے کی جاتی ہے، تم دین والی کو چنو تمہارے ہاتھ خاک آلود ہوں
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ایک عورت سے شادی کی، پھر میری ملاقات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: اے جابر! شادی کر لی ہے؟ میں نے عرض کیا، جی ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: کنواری ہے یا بیوہ؟ میں نے کہا، شوہر دیدہ ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کنواری سے نکاح کیوں نہیں کیا، اس سے اٹھکیلیاں کرتے؟ میں نے عرض کیا، میری بہت سی ہمشیرگان ہیں، مجھے اندیشہ پیدا ہوا کہیں وہ میرے اور ان کے درمیان حائل ہی نہ ہو جائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تب ٹھیک ہے۔ کیونکہ عورت سے شادی اس کے دین، اس کے مال، اور اس کے حسن و جمال کی خاطر کی جاتی ہے۔ تم دیندار کو لازم پکڑو، تمہارے ہاتھ خاک آلود ہوں۔
16. باب اسْتِحْبَابِ نِكَاحِ الْبِكْرِ:
16. باب: باکرہ سے نکاح مستحب ہونے کابیان۔
حدیث نمبر: 3637
حدثنا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُعَاذٍ ، حدثنا أَبِي ، حدثنا شُعْبَةُ ، عَنْ مُحَارِبٍ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: تَزَوَّجْتُ امْرَأَةً، فقَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " هَلْ تَزَوَّجْتَ؟ "، قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ: " أَبِكْرًا أَمْ ثَيِّبًا "، قُلْتُ: ثَيِّبًا، قَالَ: " فَأَيْنَ أَنْتَ مِنَ الْعَذَارَى وَلِعَابِهَا؟ "، قَالَ شُعْبَةُ: فَذَكَرْتُهُ لِعَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، فقَالَ: قَدْ سَمِعْتَهُ مِنْ جَابِرٍ، وَإِنَّمَا قَالَ: فَهَلَّا جَارِيَةً تُلَاعِبُهَا، وَتُلَاعِبُكَ.
شعبہ نے ہمیں محارب سے حدیث بیان کی، انہوں نے حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انہوں نے کہا: میں نے ایک عورت سے شادی کی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے پوچھا: "کیا تم نے نکاح کیا ہے؟" میں نے عرض کی: جی ہاں۔ آپ نے پوچھا: "کنواری سے یا دوہاجو (ثیبہ) سے؟" میں نے عرض کی: دوہاجو سے۔ آپ نے فرمایا: "تم کنواریوں اور ان کی ملاعبت (باہم کھیل کود) سے (دور) کہاں رہ گئے؟" شعبہ نے کہا: میں نے یہ حدیث عمرو بن دینار کے سامنے بیان کی تو انہوں نے کہا: میں نے یہ حدیث حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے سنی تھی اور انہوں نے کہا تھا: "تم نے کنواری سے (شادی) کیوں نہ کی؟ تم اس کے ساتھ کھیلتے وہ تمہارے ساتھ کھیلتی
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما بیان کرتے ہیں، میں نے ایک عورت سے شادی کی، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے پوچھا: کیا تو نے شادی کر لی ہے؟ میں نے کہا، جی ہاں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: کنواری لڑکیوں اور ان کی ملاعبت (ہنسی مذاق) سے کیوں غافل رہے؟ شعبہ کہتے ہیں، میں نے یہ حدیث عمرو بن دینار کو سنائی تو اس نے کہا میں نے جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سنی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو فرمایا تھا: دوشیزہ سے شادی کیوں نہ کی تم اس سے کھیلتے وہ تم سے کھیلتی۔

Previous    3    4    5    6    7    8    9    Next