851- سیدنا عمران بن حصین رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: بنو عقیل زمانہ جاہلیت میں ثقیف قبیلے کے حلیف تھے۔ ثقیف قبیلے کے لوگوں نے دو مسلمانوں کو قیدی بنالیا پھر اس کے بعد مسلمانوں نے عقیل کے خاندان سے تعلق رکھنے والے ایک شخص کو پکڑلیا جس کے ساتھ اس کی اونٹنی بھی تھی اس شخص کی اونٹنی زمانہ جاہلیت میں حاجیوں سے آگے نکل جایا کرتی تھی اور وہ کئی مرتبہ یہ عمل کرچکی تھی۔ زمانہ جاہلیت کا یہ رواج تھا کہ جب کوئی اونٹنی حاجیوں سے آگے نکل جاتی تھی، تو پھر اسے کسی بھی جگہ پر چرنے سے نہیں روکا جاتا تھا۔ کسی بھی حوض پر آکر پانی پینے سے نہیں روکا جاتا تھا۔ (راوی بیان کرتے ہیں) اس شخص کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لایا گیا وہ بولا: اے سیدنا محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم )!! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اور حاجیوں سے آگے نکل جانے والی (اونٹنی) کو کس وجہ سے پکڑا ہے؟ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمہارے حلیف ثقیف قبیلے کی زیادتی کی وجہ سے۔“ راوی بیان کرتے ہیں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب اس کے پاس سے گزرے، تو وہ بندھا ہوا تھا۔ ایک مرتبہ اس کے بعد نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس کے پاس سے گزرے تو وہ بولا: اے سیدنا محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم )! میں بھوکا ہوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے کچھ کھانے کے لیے دیجئے۔ میں پیاسا ہوں کچھ پینے کے لیے دیجئے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ لو! تمہاری ضرورت کا سامان (یعنی اسے کھانے پینے کی چیز یں فراہم کردیں)“ پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بات مناسب لگی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے ذریعے ان دو آدمیوں کا فدیہ دیا جنہیں ثقیف قبیلے کے لوگوں نے قیدی بنالیا تھا اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس اونٹنی کو اپنے لیے روک لیا۔ پھرا یک مرتبہ دشمن نے مدینہ منورہ پر رات کے وقت حملہ کیا وہ لوگ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے جانوروں کے باڑے میں گئے اور انہوں نے وہاں سے اس اونٹنی کو چرالیا۔ راوی بیان کرتے ہیں: ان جانوروں کے پاس ایک خاتون بھی تھی، انہوں نے اسے بھی قیدی بنالیا۔ وہ لوگ شام کے وقت اپنے جانوروں کو چرنے کے لیے چھوڑتے تھے۔ ایک رات وہ خاتون اونٹوں کے پاس آئی وہ جس بھی اونٹ کے پاس آتی تھی وہ اونٹ آواز نکالنے لگتا تھا۔ لیکن جب وہ خاتون اس اونٹنی کے پاس آئی تو اس نے آواز نہیں نکالی وہ خاتون اس پر سوار ہوئی اور اسے وہاں سے نجات مل گئی۔ وہ عورت مدینہ منورہ آئی تو لوگ بولے: یہ تو عضباء، یہ عضباء ہے (یعنی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی کی آواز لگتی ہے) راوی کہتے ہیں: وہ عورت بولی: میں نے یہ نذرمانی تھی کہ اگر اللہ تعالیٰ نے مجھے اس اونٹنی پر نجات عطا کی، تو میں اسے ذبح کردوں گی۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”تم نے اسے بہت برا بدلہ دیا ہے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی سے متعلق نذر کو پورا نہیں کیا جاتا۔ اور آدمی جس چیز کا مالک نہ ہو اس کے بارے میں نذر کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، وعم أبى قلابة هو أبو المهلب الجرمي۔ وأخرجه مسلم فى «صحيحه» برقم: 1641، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 4391، 4392، 4859، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 7935، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 3821، 3849، وأبو داود فى «سننه» برقم: 3316، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1568، والدارمي فى «مسنده» برقم: 2382، 2509، 2547، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 2124، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 12965، 18111، 18112، وأحمد فى «مسنده» ، برقم: 20141 برقم: 20172»
852- سیدنا عمران بن حصین رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: ایک شخص نے مرنے کے قریب اپنے چھ غلاموں کو آزاد کر دیا۔ اس شخص کے پاس ان غلاموں کے علاوہ اور کوئی مال نہیں تھا، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان غلاموں کے درمیان قرعہ اندازی کی اور دو کو آزاد قرار دیا اور چار کو غلام رہنے دیا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”اگر میں اس تک پہنچ گیا تو میں اس کی نماز جنازہ ادا نہیں کروں گا۔“
تخریج الحدیث: «في إسناده علتان: الأولى: ضعف على بن زيد بن جدعان، والعلة الثانية القطاعه فالحسن البصري لم يثبت له سماع من عمران والله أعلم. غير أن الحديث صحيح فقد أخرجه مسلم فى الأيمان 1668، وقد استوفينا تخرجه فى صحيح ابن حبان برقم 4320 4542 5075، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 1957، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 2096، 4955، 4956، 4957، 4958، وأبو داود فى «سننه» برقم: 3958، 3961، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1364، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 2345، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 12673، 12674، 12675، وأحمد فى «مسنده» ، برقم: 20140 برقم: 20160»
853- سیدنا عمران بن حصین رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: ہم ایک سفر میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ آیت نازل ہوئی: «يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمْ إِنَّ زَلْزَلَةَ السَّاعَةِ شَيْءٌ عَظِيمٌ»(22-الحج:1)”اے لوگو! تم اپنے پروردگار سے ڈرو! بے شک قیامت کازلزلہ عظیم چیز ہے۔“ تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”کیا تم لوگ یہ جانتے ہو یہ کون سادن ہے؟“ لوگوں نے عرض کی: اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم زیادہ بہتر جانتے ہیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ وہ دن ہے، جس میں اللہ تعالیٰ سیدنا آدم علیہ السلام سے فرمائے گا اے آدم! اٹھو اور اہل جہنم کو (ان کے مخصوص ٹھکانے کی طرف) بھیج دو تو وہ عرض کریں گے: اے میرے پروردگار! اہل جہنم کتنے لوگ ہیں؟ تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا: ہر ایک ہزار میں سے نو سو نناوے جہنم میں جائیں گے اور ایک جنت میں جائے گا۔“ راوی کہتے ہیں: تو حاضر ین نے رونا شروع کر دیا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جب بھی اسلام آیا اس سے پہلے جاہلیت موجود تھی، تو اس تعداد کو زمانہ جاہلیت کے لوگوں سے پورا کیا جائے گا۔ اگر وہ اس سے بھی پورے نہ ہوئے، تو منافقین کے ذریعے اس تعداد کو مکمل کیا جائے گا۔ تمہاری مثال دیگر امتوں کے درمیان اسی طرح ہے، جس طرح کسی جانوروں کی کلائی (یعنی اگلی ٹانگ) پر نشان ہوتا ہے۔ یا اونٹ کے پہلوں میں شامہ (معمولی سا کالانشان) ہوتا ہے۔“ پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ا رشاد فرمایا: ”مجھے یہ امید ہے، تم لوگ اہل جنت کا ایک چوتھائی حصہ ہوگے“، تو لوگوں نے تکبیر کہی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجھے یہ امید ہے، تم لوگ اہل جنت کا ایک تہائی ہوگے“، تو لوگوں نے تکبیر کہی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”تم لوگ اہل جنت کا نصف ہوگے“، تو لوگوں نے تکبیر کہی۔ سفیان نامی راوی کہتے ہیں: میری یاداشت کے مطابق صرف نصف تک کا تذکرہ ہے ویسے میرے علم کے مطابق نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا تھا: ”مجھے یہ امید ہے، تم اہل جنت کا دو تہائی حصہ ہوگے“(یا پھر یہ ہے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ کسی دوسرے نے یہ کہا ہے)
854- سیدنا عمران بن حصین رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے: ”جہاں تک میرا تعلق ہے، تو میں ٹیک لگا کر نہیں کھاتا جہاں تک اس کا تعلق ہے، تو وہ کھانا کھائے گا اور بازاروں میں چلے پھر ے گا۔“ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد ”دجال“ تھا۔
تخریج الحدیث: «حديثان باسناد ضعيف فيه علتان الإنقطاع وضعف على بن زيد بن جدعان وأخرجه أحمد فى «مسنده» ، برقم: 20312، وأورده ابن حجر فى "المطالب العالية" برقم: 2397، وأخرجه البزار فى «مسنده» برقم: 3574، وأخرجه الطبراني فى "الكبير" برقم: 339»
855- سیدنا عمران بن حصین رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو قسم دی کہ کس نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو سنا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دادا کے بارے میں کوئی فیصلہ دیا ہو؟ تو ایک صاحب کھڑ ے ہوئے اور بولے: میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ایک تہائی حصہ دیا تھا۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے دریافت کیا: کس کے ساتھ؟ وہ بولے: مجھے نہیں معلوم، تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ بولے: پھر تمہیں پتہ نہیں ہے۔
856- سیدنا عمران بن حصین رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: ایک ا ور صاحب کھڑ ے ہوئے اور بولے: میں یہ گواہی دیتا ہوں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دادا کو چھٹا حصہ دیا تھا۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے دریافت کیا: کس کے ساتھ؟ انہوں نے جواب دیا: مجھے نہیں معلوم، تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ بولے: تمہیں بھی پتہ نہیں ہے۔
857- سیدنا عمران بن حصین رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر کی نماز ادا کی جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھ کر فارغ ہوئے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیا: ”تم میں سے کسی نے سورہ الاعلیٰ کی تلاوت ہے“، تو ایک صاحب نے عرض کی: جی ہاں! میں نے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجھے یہ انداز ہ ہوگیا تھا کہ تم میں سے کوئی ایک شخص میر امقابلہ کررہا ہے۔“
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف لضعف اسماعيل بن مسلم المكي، غير أنه متابعه عليه، والحديث صحيح وأخرجه مسلم فى «صحيحه» برقم: 398، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 1845، 1846، 1847، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 916، 917، 1743، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 991، 992، وأبو داود فى "سننه برقم: 828، 829، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 2951، 2952، 2953، والدارقطني فى «سننه» برقم: 1240، 1509، 1510، وأحمد فى «مسنده» ، برقم: 20129 برقم: 20130»
858- سیدنا عمران بن حصین رضی اللہ عنہ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کایہ فرمان نقل کرتے ہیں: ”دم صرف نظر لگنے کا ہوتا ہے یا بچھو کے کاٹنے کا ہوتا ہے۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 5705، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 220، 2196، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 6104، 6430، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 8365، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 7499، وأبو داود فى «سننه» برقم: 3884، 3889، والترمذي فى «جامعه» 2056، 2057، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 3513، 3516، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 19602، 19611، 19648، 19649، 19650، وأحمد فى «مسنده» ، برقم: 2487 برقم: 12356»