بشر بن مفضل نے کہا: ہمیں عمارہ بن غزیہ نے یحییٰ بن عمارہ سے حدیث بیان کی، انھوں نے کہا: میں نے حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے سنا، کہہ رہے تھے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اپنے مرنے والے لوگوں کو لاالٰہ الا اللہ کی تلقین کرو۔"
حضرت ابوسعیدخدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اپنے مرنے والوں کو لاالٰه الا اللہ کہنے کی تلقین کیا کرو۔“
اسماعیل بن جعفر نےکہا: مجھے سعد بن سعید نے عمر بن کثیر بن افلح سے خبر دی، انھوں نے (عمر) ابن سفینہ سے اور انھوں نے حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی، انھوں نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: "کوئی مسلمان نہیں جسے مصیبت پہنچے اور وہ (وہی کچھ) کہے جس کا اللہ نے اسے حکم دیا ہے: "یقینا ہم اللہ کے ہیں اور اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں، اے اللہ!مجھے میری مصیبت پر اجر دے اور مجھے (اس کا) اس سے بہتر بدل عطا فرما"مگر اللہ تعالیٰ اسے اس (ضائع شدہ چیز) کا بہتر بدل عطا فرمادیتا ہے۔" (ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے) کہا: جب (میرے خاوند) ابو سلمہ رضی اللہ عنہ فوت ہوگئے تو میں نے (دل میں) کہا: کون سا مسلمان ابو سلمہ رضی اللہ عنہ سے بہتر (ہوسکتا) ہے!وہ پہلا گھرانہ ہے جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ہجرت کی۔پھر میں نے وہ (کلمات) کہےتو اللہ تعالیٰ نے مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صورت میں اس کا بدل عطا فرمادیا، کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے لئے نکاح کا پیغام دیتے ہوئے حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ عنہ کو میرے پا س بھیجا تو میں نے کہا: میری ایک بیٹی ہے اور میں بہت غیرت کرنے والی ہوں۔اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اس کی بیٹی کے بارے میں ہم اللہ سے دعا کرتے ہیں کہ وہ اس کو اس (ام سلمہ رضی اللہ عنہا) سے بے نیاز کردے اور میں اللہ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ (بے جا) غیرت کو (اس سے) ہٹا دے۔"
حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے، کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”جس مسلمان کو مصیبت پہنچے اور وہ (وہ کلمات کہے جن کے کہنے کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے یعنی وہ کہے، ہم اللہ کے ہی ہیں اور اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں۔ اے اللہ! مجھے میری مصیبت میں اجرعطا فرما اور اس کی جگہ اس سے بہتر عطا فرما، تو اللہ تعالیٰ اسے اس کا بہتر بدل عطا فرما دیتا ہے۔“ ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا کہتی ہیں: جب (میرے خاوند) ابو سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فوت ہو گئے تو میں نے اپنے جی میں کہا ابو سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کون سا مسلمان بہتر ہو سکتا ہے وہ پہلا کنبہ ہے جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ہجرت کی۔ پھر میں نے یہ کلمات کہے تو اللہ تعالیٰ نے مجھے ان کی جگہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عنائت فرمائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی طرف سے پیغام دینے کے لیے حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو میرے پاس بھیجا تو میں نے کہا: میری ایک بیٹی ہے اور میں بہت غیرت مند ہوں۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس کی بیٹی کے بارے میں ہم اللہ سے دعا کریں گے، کہ وہ اس کو اس سے بے نیاز کر دے، اور میں اللہ سے دعا کروں گا کہ وہ اس کی (بیجا) غیرت ختم کر دے۔“
ابو اسامہ نے سعد بن سعید سے روایت کی، انھوں نے کہا: مجھے عمر بن کثیر بن افلح نے خبر دی، انھوں نے کہا: میں نے ابن سفینہ سے سنا، وہ بیان کررہے تھے کہ انھوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اہلیہ کو یہ کہتے ہوئے سناکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: "کوئی بندہ نہیں جسے مصیبت پہنچے اور وہ کہے: بےشک ہم اللہ کے ہیں اور اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں۔اے اللہ!مجھے میری مصیبت کا اجردے اور مجھے اس کا بہتر بدل عطا فرما، مگر اللہ تعالیٰ اسے اس کی مصیبت کا اجر دیتاہے اور اسے اس کا بہتر بدل عطا فرماتاہے۔" (حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے) کہا: تو جب ابو سلمہ رضی اللہ عنہ فوت ہوگئے، میں نے اس طرح کہا جس طرح نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے حکم دیا تھا تو اللہ تعالیٰ نے مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صورت میں ان سے بہتر بدل عطا فرمادیا۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں: کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”کوئی بندہ جسے کوئی مصیبت پہنچے اور وہ کہے: بےشک ہم اللہ ہی کے ہیں اور اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں۔ اے اللہ! میری مصیبت میں مجھے صلہ دے اور (مجھ سے چھن جانے والی چیز سے) اس کا بہتر بدل عطا دے، تو اللہ تعالیٰ اسے اس کی مصیبت کا اجر دیتا ہے اور اسے اس سے بہتر جانشین عطا فرماتا ہے۔“ ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بتاتی ہیں: کہ جب (میرے خاوند) ابو سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ وفات پا گئے تو میں نے اسی طرح کہا جس طرح مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا تھا تو اللہ تعالیٰ نے مجھے ان سے بہتر جانشین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عنایت فرمائے۔
عبداللہ بن نمیر نے کہا: ہمیں سعد بن سعید نے حدیث سنائی، انھوں نے کہا: مجھے عمر بن کثیر نے حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے آزاد کردہ غلام ابن سفینہ سے خبر دی اور انھوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اہلیہ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی، انھوں نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا۔۔۔ (آگے) ابو اسامہ کی حدیث کے مانند (حدیث بیان کی) اور یہ اضافہ کیا: حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا نےکہا: جب ابو سلمہ رضی اللہ عنہ فوت ہوگئے تو میں نے (دل میں) کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی ابو سلمہ رضی اللہ عنہ سے بہتر کون ہوسکتاہے؟پھر اللہ تعالیٰ نے میرے ارادے کو پختہ کردیا تو میں نےوہی (کلمات) کہے۔اس کے بعد میری رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے شادی ہوگئی۔
حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے، جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اہلیہ ہیں وہ بیان کرتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا جیسا کہ ابو اسامہ کی مذکورہ بالا حدیث ہے اور اس میں اضافہ ہے کہ جب ابو سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فوت ہو گئے تو میں نے دل میں سوچا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی ابو سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بہتر کون ہو سکتا ہے؟ پھر اللہ تعالیٰ نے میرے دل میں عزم پیدا کر لیا تو میں نے اس دعا کو پڑھا اور میں نے رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم سے شادی کر لی۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
3. باب مَا يُقَالُ عِنْدَ الْمَرِيضِ وَالْمَيِّتِ:
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، انھوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جب تم مریض یا مرنے والے کے پاس جاؤ تو بھلائی کی بات کہو کیونکہ جو تم کہتے ہو فرشتے اس پر آمین کہتے ہیں۔"کہا: جب ابو سلمہ رضی اللہ عنہ فوت ہوگئے تو میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کی: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !ابو سلمہ وفات پاگئے ہیں۔آپ نے فرمایا: "تم (یہ کلمات) کہو: اےاللہ! مجھے اور اس کو معاف فرما اور اس کے بعد مجھے اس کا بہترین بدل عطا فرما۔"کہا: میں نے (یہ کلمات) کہے تو اللہ تعالیٰ نے مجھے ان کےبعد وہ دے دیے جو میرے لئے ان سے بہتر ہیں، یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم ۔
حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم بیمار یا مرنے والے کے پاس حاضر ہو تو اچھی اور بہتر بات کہو کیونکہ جو تم کہتے ہو فرشتے اس پر آمین کہتے ہیں۔“ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ جب (میرے خاوند) ابو سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فوت ہو گئے تو میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! ابو سلمہ وفات پا گئے ہیں۔ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم یوں کہو، اےاللہ! مجھے اور اسے معاف فرما دے اور مجھے ا سکے عوض اس سے بہتر عطا فرما“ تو میں نے یہ دعائیہ کلمات کہے تو اللہ تعالیٰ نے مجھے ان کےبدل ایسی شخصیت عطا فرمائی، جومیرے لیے ان سے بہتر ہے، یعنی محمدصلی اللہ علیہ وسلم ۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
4. باب فِي إِغْمَاضِ الْمَيِّتِ وَالدُّعَاءِ لَهُ إِذَا حُضِرَ:
4. باب: میت کی آنکھوں کو بند کرنا اور اس کے لئے دعا کرنے کا بیان۔
ابو اسحاق فزاری نے خالد حذا سے، انھوں نے ابو قلابہ سے، انھوں نے قبیصہ بن ذویب سے اور انھوں نے حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی، انھوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ابو سلمہ رضی اللہ عنہ کے پاس تشریف لائے، اس وقت ان کی آنکھیں کھلی ہوئیں تھیں تو آپ نے انھیں بند کردیا، پھر فرمایا: "جب روح قبض کی جاتی ہے تو نظر اس کا پیچھاکرتی ہے۔"اس پر انکے گھر کے کچھ لوگ چلا کر ر ونے لگے تو آ پ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا؛"تم اپنے لئے بھلائی کے علاوہ اور کوئی دعا نہ کرو کیونکہ تم جو کہتے ہو فرشتے اس پر آمین کہتے ہیں۔"پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اے اللہ!ابو سلمہ رضی اللہ عنہ کی مغفرت فرما، ہدایت یافتہ لوگوں میں اس کے درجات بلند فرما اور اس کے پیچھے رہ جانے والوں میں تو اس کا جانشین بن اور اے جہانوں کے پالنے والے!ہمیں اور اس کو بخش دے، اس کے لئے اس کی قبر میں کشادگی عطا فرما اور اس کے لئے اس (قبر) میں روشنی کردے۔"
حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے، کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ابو سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس تشریف لائے، جبکہ (موت کے بعد) ان کی آنکھیں اوپر کو کھلی ہوئی تھیں تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں بند کر دیا، پھر فرمایا: ”جب روح قبض کی جاتی ہے (روح جسم سے نکال لی جاتی ہے) تو نظر اس کا پیچھا کرتی ہے۔“(اس لیے آنکھیں کھلی رہ جاتی ہیں)(آپصلی اللہ علیہ وسلم کی یہ بات سن کر) ان کے گھر کے کچھ لوگ چلا چلا کر رونے لگے (رنج اور صدمہ کی حالت میں ان کی زبان سے ایسی باتیں نکلنے لگیں جو ان کے حق میں بد دعا تھیں) تو آ پ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم اپنے نفسوں کے حق میں خیر اور بھلائی کی دعا کرو کیونکہ تم جو کچھ کہہ رہے ہو فرشتے اس پر آمین کہتے ہیں“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حود اس طرح دعا فرمائی: ”اے اللہ! ابو سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مغفرت فرما، اور اپنے ہدایت یافتہ بندوں میں اس کا درجہ بلند فرما اور اس کا جانشین بن جا (اس کے بجائے تو ہی سر پرستی اور نگرانی فرما) اس کے پس ماندگان کی اور اے کائنات کے مالک! بخشش دے ہمیں اور اس کو اور اس کی قبر کو اس کے لیے وسیع اور روشن فرما۔“
عبیداللہ بن حسن نے کہا: ہمیں خالد حذاء نے اسی (مذکورہ بالا) سند کے ساتھ اس (سابقہ حدیث) کے ہم معنی حدیث بیان کی، اس کے سوا کہ انھوں نے (واخلفہ فی عقبہ کے بجائے) واخلفہ فی ترکتہ (جو کچھ اس نے چھوڑا ہے، یعنی اہل ومال، اس میں اس کا جانشین بن) کہا، اور انھوں نےاللہم!اوسع لہ فی قبرہ (اے اللہ!اس کے لئے اس کی قبر میں وسعت پیدا فرما) کہا اورافسح لہ (اوراس کے لئے کشادگی پیدا فرما) نہیں کہا اور (عبیداللہ نے) یہ زائد بیان کیا کہ خالد حذاء نے کہا: ایک اور ساتویں دعا کی جسے میں بھول گیا۔
امام صاحب خالد حذاء کی سند سے ہی یہ روایت اپنے دوسرے استاد سے روایت کرتے ہیں۔ اس میں یہ الفاظ ہیں (وَاخْلُفْهُ فِى تَرِكَتِهِ) اس کے پس ماندگان کے لیے تو نگہبان اور محافظ بن کر اس کی جانشینی فرما اور (أفْسَحْ لَهُ) کی جگہ (أوسع له) اس کے لیے وسیع فرما اور خالد حذاء کہتے ہیں، ایک ساتویں دعا بھی کی جو میں بھول گیا ہوں۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
5. باب فِي شُخُوصِ بَصَرِ الْمَيِّتِ يَتْبَعُ نَفْسَهُ:
5. باب: میت کی آنکھیں روح کے پیچھے پیچھے دیکھتی ہیں۔
ابن جریج نے علاء بن یعقوب سے روایت کی، انھوں نے کہا: مجھے میرے والد نے خبر دی کہ انھوں نے حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ کو کہتے ہوئے سنا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کیاتم انسان کو دیکھتے نہیں کہ جب وہ فوت ہوجاتاہے تو اس کی نظر اٹھ جاتی ہے؟"لوگوں نے کہا: کیوں نہیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "یہ اس وقت ہوتا ہے جب اس کی نظر اس کی روح کا پیچھا کرتی ہے۔"
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تمہیں معلوم نہیں، تم دیکھ نہیں رہے کہ جب انسان مرجاتا ہے،تو اس کی آنکھیں (نظر) اوپر کو اٹھ جاتی ہیں؟“ ساتھیوں نے کہا، کیوں نہیں، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ اس وقت کی بات ہے، جب اس کی بینائی، اس کی روح کا تعاقب کرتی ہے۔“