730- ابویعفور عبدی بیان کرتے ہیں: میں سیدنا عبداللہ بن ابواوفیٰ رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا میں نے ان سے ٹڈی دل کھانے کے بارے میں دریافت کیا: انہوں نے بتایا: میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چھ (راوی کو شک ہے شاید یہ الفاظ ہیں) سات غزوات میں حصہ لیا ہے۔ ہم ٹڈی دل کھا لیا کرتے تھے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 5495، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1952، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 5257، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 4367، 4368، وأبو داود فى «سننه» برقم: 3812، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1821، 1822، والدارمي فى «مسنده» برقم: 2053، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 19059، 19060، 19061، وأحمد فى «مسنده» ، برقم: 19418 برقم: 19457»
731- ابواسحاق شیبانی بیان کرتے ہیں: میں نے سیدنا عبداللہ بن ابواوفیٰ رضی اللہ عنہ کو یہ بیان کرتے ہوئے سنا: میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر کر رہا تھا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص سے فرمایا: ”تم اترواور ہمارے لیے پانی میں ستو گھول دو“ اس نے عرض کی: یارسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم )! ابھی دھوپ ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم اترو اور ہمارے لیے ستوگھول دو“ پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نیچے اترے انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے پانی میں ستوگھول دئیے، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں پی لیا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مشرق کی سمت اپنے دست مبارک کے ذریعے اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: ”جب تم رات کو اس طرف سے آتے ہوئے دیکھو تو روزہ دار شخص افطاری کرلے۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 1941، 1955، 1956، 1958، 5297، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1101، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 3511، 3512، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 3297، وأبو داود فى «سننه» برقم: 2352، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 8102، وأحمد فى «مسنده» ، برقم: 19705 برقم: 19709 برقم: 19723»
732- ابواسحاق شیبانی بیان کرتے ہیں: میں نے سیدنا عبداللہ بن ابواوفیٰ رضی اللہ عنہ کو یہ بیان کرتے ہوئے سنا: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سبز اور سفید مٹکے میں پینے سے منع کیا ہے۔ سفیان کہتے ہیں: تیسری چیز کو میں بھول گیا ہوں۔
733- ابواسحاق شیبانی بیان کرتے ہیں: میں نے سیدنا عبداللہ بن ابواوفیٰ رضی اللہ عنہ کو یہ بیان کرتے ہوئے سنا: غزوہ خبیر کے موقع پر ہمیں بستی سے باہر کچھ گدھے ملے، تو ہم نے انہیں ذبح کر لیا ہنڈیاؤں میں ان کا گوشت پک رہا تھا۔ اسی دوران نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے اعلان کرنے والے نے یہ اعلان کیا: ”تم لوگ اپنی ہنڈیاؤں کو ان میں موجود چیز سمیت الٹا دو!“ تو ہم نے انہیں الٹا دیا حالانکہ وہ ابل رہی تھیں۔ (یعنی کھانا پک کے تیار ہو چکا تھا) ابواسحاق نامی راوی کہتے ہیں: میری ملاقات سعید بن جبیر سے ہوئی میں نے ان کے سامنے اس بات کا تذکرہ کیا، تو وہ بولے: یہ وہ گدھے تھے، جو گندگی کھایا کرتے تھے، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے منع کردیا۔
734- سیدنا عبداللہ بن ابواوفیٰ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: ایک صاحب نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کی: یارسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم )! آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے کسی ایسی چیز کی تعلیم دیجئے جسے میں پڑھ لیا کروں، تو میرے لیے قرآن کی تلاوت کی جگہ کافی ہو جائے، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: تم یہ پڑھو۔ «سبحان الله والحمدلله ولا اله الاالله والله اكبر» ۔ سفیان کہتے ہیں: مجھے علم نہیں ہے، تاہم انہوں نے یہ الفاظ بھی کہے ہوں گے «ولا حول ولاقوة الا بالله»
تخریج الحدیث: «إسناده حسن وأخرجه ابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 544، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 1808، 1809، 1810، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 887، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 923، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 998، وأبو داود فى «سننه» برقم: 832، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 4046، 4047، 4048، والدارقطني فى «سننه» برقم: 1195، برقم: 1196، 1197، وأحمد فى «مسنده» ، برقم: 19416 برقم: 19445 برقم: 19719»
735- ابراہیم بن مسلم ہدی بیان کرتے ہیں: انہوں نے سیدنا عبداللہ بن اوفیٰ رضی اللہ عنہ کو اپنی صاحبزادی کے جنازے میں شریک دیکھا وہ ایک خچر پر سوار تھے، جسے ہانک کرلے جایا جارہا تھا، تو انہوں نے خچر کو لے جانے والے سے کہا: میں جنازے سے کہاں ہوں جب انہیں کہا گیا: آپ ان سے آگے ہیں۔ تو انہوں نے فرمایا: تم اس کو روک دو۔ راوی کہتے ہیں: میں نے انہیں دیکھا کہ انہوں نے اس خاتون کی نماز جنازہ میں چار تکبیریں کہیں پھر وہ تھوڑی دیر کے لیے کھڑے رہے، تو حاضر ین نے سبحان اللہ کہنا شروع کر دیا۔ (یعنی انہیں متوجہ کرنا چاہا) تو انہوں نے سلام پھر دیا وہ بولے: کیا تم لوگ یہ سوچ رہے تھے کہ میں چاروں تکبیروں سے زیادہ تکبیریں کہہ دوں گا، جبکہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو چار تکبیریں کہتے ہوئے دیکھا ہے۔ پھر انہوں نے کچھ خواتین کو مرثیہ پڑھتے ہوئے سنا: تو انہیں اس سے منع کیا اور بولے: میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو مرثیہ پڑھنے سے منع کرتے ہوئے سنا ہے۔
736- سیدنا عبداللہ بن ابواوفیٰ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: غزوۂ احزاب کے دن میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم پڑھ رہے تھے۔ ”اے اللہ! اے کتاب کو نازل کرنے والے! اے جلدی حساب لینے والے! اے بادلوں کو چلانے والے! تو (دشمن کے) لشکروں کو پسپا کردے۔ اے اللہ! انہیں پسپا کردے اور انہیں لڑکھڑادے۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 1600، 1791 م1، 2933، 3819، 4115، 4188، 4255، 4314، 6392، 7489، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1742، 2433، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 2775، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 3843، 3844، 7004، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 6494، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 4205، 10363، وأبو داود فى «سننه» برقم: 1902، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1678، والدارمي فى «مسنده» برقم: 1963، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 2796، 2990، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 9486، 9487، وأحمد فى «مسنده» ، برقم: 19413 برقم: 19414»
737- ابن ابوخالد بیان کرتے ہیں: میں نے سیدنا عبداللہ بن ابواوفیٰ رضی اللہ عنہ سے کہ دریافت کیا: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کو جنت میں کھوکھلے موتی سے بنے ہوئے گھر کی بشارت دی تھی؟ جس میں کوئی شوراور کوئی مشقت نہ ہو، تو انہوں نے جواب دیا: ”جی ہاں۔“
738- اسماعیل بن ابوخالد بیان کرتے ہیں: میں نے سیدنا عبداللہ بن ابواوفیٰ رضی اللہ عنہ کو یہ بیان کرتے ہوئے سنا: ہم نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ وعمرہ کیا، تو ہم طواف کے دوران نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اہل مکہ کے بچوں سے بچانے کی کوشش کررہے تھے کہ کہیں وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوکوئی تکلیف نہ پہنچا دیں۔ سفیان کہتے ہیں: میرا خیال ہے یہ عمرہ قضا کا موقع تھا۔ اسماعیل نامی راوی بیان کرتے ہیں: سیدنا عبداللہ بن ابواوفیٰ رضی اللہ عنہ نے ہمیں وہ ضرب دکھائی جوانہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ غزوۂ حنین میں شرکت کے دوران لگی تھی۔
739- طلحہ بن مصرف بیان کرتے ہیں: میں نے سیدنا عبداللہ بن ابواوفیٰ رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا: کیا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی وصیت کی تھی انہوں نے جواب دیا: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسی کوئی چیز چھوڑی ہی نہیں تھی جس کے بارے میں آپ وصیت کرتے۔ میں نے دریافت کیا: پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کے بارے میں وصیت کرنے کے بارے میں کیوں حکم دیا؟ جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود وصیت نہیں کی، تو انہوں نے فرمایا: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کی کتاب کے مطابق وصیت کی تھی۔ طلحہ نامی راوی کہتے ہیں: ہزیل بن شرحبیل فرماتے ہیں: کیا سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کسی ایسے شخص سے آگے نکل سکتے تھے، جس کے بارے میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے وصیت کی ہو؟ حالانکہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ اس بات کے خواہشمند ہوتے تھے کہ انہیں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی حکم کا پتہ چلے اور وہ اسے مکمل طور پر تسلیم کر لیں۔ [مسند الحميدي/أَحَادِيثُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي أَوْفَى رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ/حدیث: 739]
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 2740، 4460، 5022، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1634، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 6023، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 3622، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 6414، والترمذي فى «جامعه» برقم: 2119، والدارمي فى «مسنده» برقم: 3224، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 2696، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 12676، وأحمد فى «مسنده» ، برقم: 19430 برقم: 19443 برقم: 19718»