امام مالکؒ نے عبداللہ بن ابی بکر سے روایت کی، انھوں نے عباد بن تمیم سے سنا، وہ کہہ رہے تھے: میں نے حضرت عبداللہ بن زید مازنی رضی اللہ عنہ سے سنا، وہ کہہ رہے تھے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (مدینہ سے) باہر نکل کرعیدگاہ گئے، بارش مانگی اور جب آپ قبلہ رخ ہوئے تواپنی چادر کو پلٹا۔
حضرت عبداللہ بن زید مازنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عید گاہ گئے اور بارش کی دعا کی اور قبلہ رخ ہو کر اپنی چادر کو پلٹا۔
سفیان بن عینیہ نے عبداللہ بن ابی بکر سے، انھوں نے عباد بن تمیم سے اور انھوں نے اپنے چچا (عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ) سے روایت کی، انھوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (مدینہ سے) نکل کر عیدگاہ تشریف لے گئے اور بارش کی دعاکی، آپ نے قبلے کی طرف رخ کیا، اپنی چادرپلٹی اوردو رکعت نماز پڑھی۔
عباد بن تمیم اپنے چچا سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عید گاہ گئے اور بارش کی دعا کی، اور قبلہ رخ ہو کر اپنی چادر پلٹی اور دو رکعت نماز پڑھی۔
ابو بکربن محمد بن عمرو نے بتایا کہ ان کو عبادبن تمیم نے خبر دی، ان کوحضرت عبداللہ بن زیدانصاری رضی اللہ عنہ نے بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بارش کی دعاکرنے کےلئے عید گاہ گئے اور جب آپ نے دعا کرنے کا ارادہ فرمایا تو قبلہ کی طرف رخ کرلیا اور اپنی چادر کو پلٹ دیا۔
حضرت عبداللہ بن زید انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بارش کی دعا کرنے کے لیے عید گاہ گئے اور جبصلی اللہ علیہ وسلم آپ نے دعا کرنے کا ارادہ فرمایا، قبلہ کی طرف رخ کر لیا اور اپنی چادر پلٹی۔
ابن شہاب نے کہا: مجھےعباد بن تمیم مازنی نے خبر دی، انھوں نے اپنے چچاسے سنا اور وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھیوں میں سے تھے وہ کہہ رہے تھے: ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بارش کی دعا مانگنےکے لئے نکلے، اللہ سے دعاکرتے ہوئے اپنی پشت لوگوں کی طرف کی، منہ قبلہ کی طرف کیا اوراپنی چادر پلٹی، پھر دو رکعت نمازادا کی۔
عباد بن تمیم نے اپنے چچا سے سنا اور وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھیوں میں سے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن بارش کی دعا مانگنے کے لیے نکلے۔ اپنی پشت لوگوں کی طرف کرکے اللہ سے دعا مانگتے رہے اور رخ قبلہ کی طرف تھا اور اپنی چادر پلٹی، پھر دورکعت نماز ادا کی۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
1. باب رَفْعِ الْيَدَيْنِ بِالدُّعَاءِ فِي الاِسْتِسْقَاءِ:
1. باب: نماز استسقاء کے موقع پر دونوں ہاتھ اٹھا کر دعا کرنا۔
شعبہ نے ثابت سے اورانھوں نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا، آپ دعا کے لئے دونوں ہاتھ اٹھاتے حتیٰ کہ آپ کی بغلوں کی سفیدی نظر آتی تھی۔
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دعا کے لیے ہاتھ اُٹھائے ہوئے دیکھا حتی کہ آپصلی اللہ علیہ وسلم کی بغلوں کی سفیدی نظر آتی تھی۔
حمادبن سلمہ نے ثابت سے اور انھوں نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے ر وایت کی کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بارش مانگنے کے لیے دعا فرمائی تو اپنے ہاتھوں کی پشت کے ساتھ آسمان کی طرف اشارہ کیا۔
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نمازِاستسقاء کے سوا کسی اور موقع پر دعا میں اس قدر ہاتھ بلند نہیں کرتے تھے کہ جس سے آپصلی اللہ علیہ وسلم کی بغلوں کی سفیدی دکھائی دے۔ عبدالاعلیٰ کی روایت میں ہے ”يُرٰي بَيَاضَ إِبْطِهِ“ آپ کی بغل کی سفیدی یا ”بَيَاضَ إِبْطَيْهِ“ دونوں بغلوں کی سفیدی دکھائی دیتی۔
ابن ابی عدی اور عبدالاعلیٰ نے سعید (بن ابی عروبہ) سے، انھوں نے قتادہ سے اور انھوں نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم استسقاء کے سوا کسی اور دعا کے لئے اپنے ہاتھ (اتنے زیادہ) بلند نہیں کرتےتھے۔یہاں تک کہ اس سے آپ کی بغلوں کی سفیدی دیکھائی دینے لگتی، البتہ عبدالاعلیٰ نے (شک کے ساتھ) کہا" یری بیاض ابطہ اوبیاض ابطیہ " (آپ کی بغل کی سفیدی یا دونوں بغلوں کی سفیدی دیکھائی دینے لگتی۔)
مصنف ایک اور سند سے اسی طرح کی روایت بیان کرتے ہیں۔
یحییٰ بن سعید نے (سعید) بن ابی عروبہ سے اور انھوں نے قتادہ سے روایت کی کہ ان کو حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی (سابقہ حدیث) کے ہم معنی حدیث بیان کی۔
یحییٰ بن سعید نے (سعید) بن ابی عروبہ سے اور انھوں نے قتادہ سے روایت کی کہ ان کو حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی (سابقہ حدیث) کے ہم معنی حدیث بیان کی۔
شریک بن ابی نمر نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ جمعے کے روز ایک آدمی اس دروازے سے مسجد میں داخل ہوا جو دارالقضاء کی طرف تھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے خطبہ ارشاد فرمارہے تھے، اس نے کھڑے کھڑے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف رخ کیا، پھر کہا: اےاللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !مال مویشی ہلاک ہوگئے اور راستے منقطع ہوچکے، اللہ تعالیٰ سے دعا فرمائیں کہ وہ ہمیں بارش عطا کرے۔اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دونوں ہاتھ اٹھا دیئے، پھر کہا: "اے اللہ!ہمیں بارش عنایت فرما، اے اللہ!ہمیں بارش عنایت فرما، اے اللہ!ہمیں بارش سے نوازدے۔"حضرت انس رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کی قسم!ہم آسمان میں نہ کوئی گھٹا دیکھ رہے تھے اور نہ بادل کا کوئی ٹکڑا۔ہمارے اور سلع پہاڑ کے درمیان کوئی گھر تھا نہ محلہ۔پھر اس کے پیچھے سے ڈھال جیسی چھوٹی سی بدلی اٹھی، جب وہ آسمان کے وسط میں پہنچی تو پھیل گئی، پھر وہ برسی، اللہ کی قسم!ہم نے ہفتہ بھر سورج نہ دیکھا۔پھر اگلے جمعے اسی دروازے سے ایک آدمی داخل ہوا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے خطبہ ارشاد فرمارہے تھے، اس نے کھڑے کھڑے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف رخ کرکے کہا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! (بارش کی کثرت سے) مال مویشی ہلاک ہوگئے اور راستے بند ہوگئے، اس لئے اللہ تعالیٰ سے دعا فرمائیں کہ وہ ہم سے بارش روک لے۔اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں ہاتھ اٹھادیے، پھر فرمایا: "اے اللہ!ہمارے ارد گرد (بارش برسا) ہم پر نہیں، اے اللہ!پہاڑیوں پر، ٹیلوں پر، وادیوں کے اندر (ندیوں میں) اور درخت اگنے کے مقامات پر (برسا۔) "کہا: " (فوراً) بادل چھٹ گئے اور ہم (مسجد سے) نکلے تو دھوپ میں چل رہے تھے۔ شریک نے کہا: میں نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے پوچھا: کیا وہ پہلے آدمی تھا؟انھوں نے جواب دیا: میں نہیں جانتا۔
حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں،کہ جمعے کے روز ایک آدمی اس دروازے سے مسجد میں داخل ہوا جو دارالقضاء کی طرف تھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے خطبہ ارشاد فرمارہے تھے،اس نے کھڑے کھڑے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف رخ کیا، پھر کہا: اےاللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !مال مویشی ہلاک ہو گئے اور راستے منقطع ہو چکے، اللہ تعالیٰ سے دعا فرمائیں کہ وہ ہمیں بارش عطا کرے۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دونوں ہاتھ اٹھا دیئے، پھر کہا: ”اے اللہ! ہمیں بارش عنایت فرما، اے اللہ! ہمیں بارش عنایت فرما،اے اللہ!ہمیں بارش سے نواز۔“ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا: اللہ کی قسم! ہم آسمان میں نہ کوئی گھٹا دیکھتے تھے اور نہ بدلی یا بادل کا کوئی ٹکڑا۔ہمارے اور سلع پہاڑ کے درمیان کوئی گھر یا محلہ نہ تھا۔ پھر اس کے پیچھے سے ڈھال جیسی چھوٹی سی بدلی اٹھی، جب وہ آسمان کے وسط (درمیان) میں پہنچی تو پھیل گئی، پھر اس نے بلرش برسائی، حضرت انس کہتے ہیں اللہ کی قسم! ہم نے ہفتہ بھر سورج نہ دیکھا۔ پھر اگلے جمعے اسی دروازے سے ایک آدمی داخل ہوا، جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے خطبہ دے رہے تھے، اس نے کھڑے ہو کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف رخ کیا اور کہا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! مویشی ہلاک ہو گئے راستے بند ہو گئے، اس لئے اللہ تعالیٰ سے دعا فرمائیں کہ وہ ہم سے بارش روک لے۔اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہاتھ اٹھا دیئے، پھر کہا: ”اے اللہ! بارش ہمارے ارد گرد برسا، ہم پر نہ برسا، اے اللہ! پہاڑیوں پر، ٹیلوں پر، وادیوں کے اندر (ندیوں میں)اور جنگلات پربرسا۔“ بادل چھٹ گیا اور ہم دھوپ میں چلتے مسجد سے نکلے۔ شریک کہتے ہیں میں نے حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا: کیا وہ پہلا آدمی ہی تھا؟ انھوں نے کہا مجھے معلوم نہیں۔
اسحاق بن عبداللہ بن ابی طلحہ نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انھوں نےکہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں لوگوں کوخشک سالی نے آلیا۔اسی اثنا میں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جمعے کے دن منبر پر لوگوں کے سامنے خطبہ دے رہے تھے کہ اچانک ایک بدوی کھڑا ہوا اور کہا: اے اللہ کے رسول: مال مویشی ہلاک ہوگئے، بال بچے بھوکے مرنے لگے۔۔۔ (آگے) اسی (سابقہ حدیث) کے ہم معنی حدیث بیان کی۔اور اس میں ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ا ے اللہ!ہمارے ارد گرد (برسا) ہمارے اوپر نہیں۔"کہا: اور آپ اپنے ہاتھ سے جس طرف بھی اشارہ کرتے تھے اسی طرف سے بادل چھٹ جاتے تھےحتیٰ کہ میں نے مدینہ منورہ کو (زمین کے) خالی ٹکڑے کے مانند دیکھا اور وادی قناۃ ایک ماہ تک بہتی رہی اور کسی طرف سے بھی کوئی شخص نہیں آیا مگر اس نے موسلادھار بارش کی خبر دی۔
حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں: کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں لوگ کو خشک سالی کا شکار ہو گئے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جمعے کے دن منبر پر لوگوں کوخطاب فرما رہے تھے توایک بدوی کھڑا ہوا اور اس نے کہا:اے اللہ کے رسولصلی اللہ علیہ وسلم : مویشی ہلاک ہوگئے، بال بچے بھوکے مرنے لگے۔۔۔ آگے مذکورہ بالا حدیث ہے اور اس میں ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ا ے اللہ! ہمارے ارد گرد ہمارے اوپر نہیں۔“ اور آپ جس طرف اشارہ کرتے بادل چھٹ جاتے حتیٰ کہ میں نے مدینہ منورہ کو گڑھا کی طرح دیکھا اور وادی قناۃ ایک ماہ تک بہتی رہی اور جدھر سے بھی کوئی شخص آیا اس نے موسلادھار بارش کی اطلاع دی۔