669- سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے: ”جب دوخرید وفروخت کرنے والے کو ئی سودا کرلیں، تو ان دونوں میں سے ہر ایک کو (سودا ختم کرنے کا) اختیار ہوگا، جب تک وہ ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوجاتے یا ان دونوں نے اختیار کی شرط پر سودا کیا ہو۔“ راوی بیان کرتے ہیں: سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما جب کوئی چیز خریدتے تھے اور وہ یہ چاہتے کہ یہ سودا طے ہوجائے، تو وہ تھوڑی دور چل کر چلے جاتے تھے، پھر واپس آتے تھے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 2107، 2109، 2111، 2112، 2113، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1531، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 4912، 4913، 4915، 4916، 4917، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 4477، 4478، وأبو داود فى «سننه» برقم: 3454، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1245، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 2181، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 10541، 10542، وأحمد فى «مسنده» ، برقم: 400»
670- سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے: ”خرید وفروخت کرنے والوں کو سودا ختم کرنے کا اختیار ہوتا ہے، جب تک وہ ایک دوسرے سے جدانہ ہوں، یا ان دونوں نے سوداہی اختیار کی شرط پر کیا ہو۔ اگر وہ اختیار کی شرط پر سودااختیار کیا گیا ہوگا، تو طے ہوجائے گا۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 2107، 2109، 2111، 2112، 2113، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1531، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 4912، 4913، 4915، 4916، 4917، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 4477، 4478، وأبو داود فى «سننه» برقم: 3454، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1245، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 2181، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 10541، 10542، وأحمد فى «مسنده» ، برقم: 400»
671- سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات ارشاد فرمائی ہے: ”جب کوئی یہودی تمہیں سلام کرتے ہوئے ”السام علیک“(تمہیں موت آئے) کہے، تو تم کہو ”علیک“(یعنی تمہیں بھی آئے)“۔ عبداللہ بن دینار کہتے ہیں: ایک شخص پہلے یہودی تھا پھر اس نے اسلام قبول کرلیا وہ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کو سلام کرتا تھا، تو سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما اسے جب بھی سلا م کا جواب دیتے تھے تو ہمیشہ ”علیک“ ہی کہا: کرتے تھے۔ اس نے عرض کی: اے ابوعبدالرحٰمن! میں مسلمان ہوچکا ہوں، تو سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما پھر بھی ”علیک“ ہی کہا کرتے تھے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 6257، 6928، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 2164، ومالك فى «الموطأ» برقم: 3528، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 502، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 10138، 10139، 10140، وأبو داود فى «سننه» برقم: 5206، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1603، والدارمي فى «مسنده» برقم: 2677، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 18789، 18790، وأحمد فى «مسنده» ، برقم: 4652 برقم: 4789 برقم: 4790 برقم: 5317 برقم: 6046، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» ، برقم: 26276»
672- سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں: سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا: کیا کوئی شخص جنابت کی حالت میں سوسکتا ہے؟نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جی ہاں۔ جب وضو کرلے، تو وہ سوسکتا ہے اور اگر وہ چاہے، تو کچھ کھا بھی سکتا ہے۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 287، 289، 290، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 306، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 1212، 1213، 1214، 1215، 1216، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 259، 260،وأبو داود فى «سننه» برقم: 221، والترمذي فى «جامعه» برقم: 120، والدارمي فى «مسنده» برقم: 783، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 585، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 980، 981،وأحمد فى «مسنده» ، برقم: 95 برقم: 106»
673- سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں: میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پیدل چل کر یا سوار ہوکر ہر ہفتے قبا تشریف لے جایا کرتے تھے۔ راوی کہتے ہیں: میں نے سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کو دیکھا ہے کہ وہ ہر ہفتے سوارہو کر یا پیدل چل کر قبا تشریف لے جایا کرتے تھے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 1191، 1193، 1194، 7326، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1399، ومالك فى «الموطأ» برقم: 578، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 1618، 1628، 1629، 1630، 1632، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 1799، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 697، وأبو داود فى «سننه» برقم: 2040، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 10400، 10401، 10402، 10403، وأحمد فى «مسنده» ، برقم: 4571»
674- سالم بن عبداللہ کہتے ہیں: میں نے سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے: یہ ”بیداء“ وہ جگہ ہے، جس کے بارے میں تم لوگ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے غلط بات بیان کرتے ہو۔ اللہ کی قسم! نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ذوالحلیفہ میں موجود مسجد کے پاس سے تلبیہ پڑھنا شروع کیا۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 1514، 1541، 1552، 2865، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1184، 1186، 1187، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 3762، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 2756، 2757، 2758، وأبو داود فى «سننه» برقم: 1771، والترمذي فى «جامعه» برقم: 818، والدارمي فى «مسنده» برقم: 1970، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 2916، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 9073، 9074، 9075، 9076، 9077، 9078، 9118، وأحمد فى «مسنده» ، برقم: 4659»
675- سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں: میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کویہ پڑھتے ہوئے سناہے: ”میں حاضر ہوں اے اللہ! میں حاضر ہوں تیرا کو ئی شریک نہیں ہے۔ میں حاضر ہوں، بے شک حمد اور نعمت تیرے لیے مخصوص ہے اور بادشاہی بھی، تیرا کوئی شریک نہیں ہے۔“ راوی بیان کرتے ہیں: سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما اس میں ان الفاظ کا اضافہ کرتے تھے۔ ”میں حاضر ہوں، میں حاضر ہوں، میں حاضر ہوں، سعادت تیری طرف سے ہی نصیب ہوسکتی ہے۔ میں حاضر ہوں۔ بھلائی تیرے دست قدرت میں ہے۔ میں حاضر ہوں“۔ (راوی کو شک ہے شاید یہ الفاظ ہیں)”تیرے دونوں ہاتھوں میں ہے“۔ سفیان بھی اسی طرح کہاکرتے تھے۔ ”میں حاضر ہوں رغب تیری طرف کی جاسکتی ہے اور عمل تیری توفیق سے کیا جاسکتا ہے یا تیری ہی طرف لوٹتا ہے“۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 1540، 1549، 1554، 5914، 5915، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1184، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 3799، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 1657، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 2682، 2746، وأبو داود فى «سننه» برقم: 1747، 1748، 1812، والترمذي فى «جامعه» برقم: 825، 826، والدارمي فى «مسنده» برقم: 1849، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 2918، 3047، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 9067، 9068، وأحمد فى «مسنده» ، برقم: 4543 برقم: 4914، وأبو يعلى فى «مسنده» ، برقم: 5692»
676- سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے: ”اکیلے رہنے کے بارے میں جو کچھ مجھے پتہ ہے اگر لوگوں کو پتہ چل جائے، تو کوئی بھی شخص اکیلا رات کے وقت (سفر نہ کرے)“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 2998، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 2569، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 2704، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 2507، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1673، والدارمي فى «مسنده» برقم: 2721، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 3768، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 10457، وأحمد فى «مسنده» ، برقم: 4839»
677- سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں: سیدنا منقذ رضی اللہ عنہ (یہ ایک انصاری صحابی ہیں) کو زمانہ جاہلیت میں سر میں چوٹ لگی تھی جس کے نیچے میں ان کی زبان میں لکنت آگئی تھی جب وہ کوئی سودا کرتے تھے، تو سودا کرنے کے دوران ان کے ساتھ دھوکہ ہوجاتا تھا، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم سودا کرتے ہوئے یہ کہو کہ دھو کہ نہیں ہوگا۔ پھر تمہیں تین دن تک اختیار ہوگا (اگر تم چاہو تو سودے کو کالعدم قراردو)“ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: میں نے انہیں سودا کرتے ہوئے سنا: وہ یہ کہہ رہے تھے «لا خذابة»(یعنی لکنت کی وجہ سے وہ لام کو ذال پڑھ رہے تھے)
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح فقد صرح ابن إسحاق بالتحديث عند البخاري وغيره وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 2117، 2407، 2414، 6964، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1533، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 5051، 5052، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 4496، وأبو داود فى «سننه» برقم: 3500، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 10568، 10569، 10570، 10571، وأحمد فى «مسنده» ، برقم: 5131 برقم: 5367»
678- سالم اپنے والد کے حوالے سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کایہ فرمان نقل کرتے ہیں: ”تم لوگوں کو ایسے سو اونٹوں کی مانند پاؤ گے جن میں سے کوئی ایک بھی سواری کے قابل نہیں ہوگا“۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 6498، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 2547، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 5797، 6172، والترمذي فى «جامعه» برقم: 2872، 2873، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 3990، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 17863، 20518، وأحمد فى «مسنده» ، برقم: 4604»