495- سيدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پردہ ہٹایا، لوگ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پیچھے صفیں بنا کر کھڑے ہوئے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”اب نبوت کے مبشرات میں سے صرف سچے خواب رہ گئے ہیں، جنہیں کوئی مسلمان دیکھتا ہے (راوی کو شک ہے شاید یہ الفاظ ہیں) جو اسے دکھائے جاتے ہیں۔ خبردار! مجھے اس بات سے منع کردیا گیا ہے کہ میں رکوع یا سجدے کے دوران قرأت کروں۔ جہاں تک رکوع کا تعلق ہے، تو اس میں تم اپنے پروردگار کی عظمت کرو اور جہاں تک سجدے کا تعلق ہے، تو تم اس میں اہتمام کے ساتھ دعا مانگو وہ اس لائق ہوگی کہ اسے قبول کرلیا جائے۔“ [مسند الحميدي/أَحَادِيثُ ابْنُ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَيْضًا/حدیث: 495]
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح وأخرجه مسلم فى «صحيحه» برقم: 479 وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 548، 599، 602، 680، 674، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 1896، 1900، 6045، 6046، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 1044، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 637، 711، 7576، وأبو داود فى «سننه» برقم: 876، والدارمي فى «مسنده» برقم: 1364، 1365، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 3899، وأبو يعلى في «مسنده» برقم: 417، 2387»
496- سفیان کہتے ہیں: یہ روایت زیاد بن سعد نے بھی مجھے سنائی تھی، یہ اس سے پہلے کی بات ہے کہ جب میں نے یہ روایت سلیمان سے سنی۔ میں نے ان سے دریافت کیا: میں سلیمان بن صحیم کو آپ کی طرف سے سلام کہہ دوں، وہ بولے: جی ہاں۔ جب میں مدینہ منورہ آیا، تو میں نے سلیمان کو زیاد کی طرف سے سلام پیش کیا اور ان سے اس روایت کے بارے میں دریافت کیا۔ (تو انہوں نے مجھے یہ حدیث سنائی)۔ [مسند الحميدي/أَحَادِيثُ ابْنُ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَيْضًا/حدیث: 496]
تخریج الحدیث: «وهذا إسناد موصول بالإسناد السابق وهو من المزيد فى متصل الأسانيد. وانظر التعليق السابق»
497- عطاء بن ابی رباح سيدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما کے حوالے سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان نقل کرتے ہیں: ”جب کوئی شخص کچھ کھائے تو اپنا ہاتھ (کپڑے یا کسی اور چیز کے ساتھ) اس وقت تک نہ پونچھے جب تک وہ اسے چاٹ نہ لے یا کسی دوسرے سے چٹوا نہ لے۔“ سفیان کہتے ہیں: عمرو نے ان سے کہا: اے ابومحمد! یہ روایت عطاء نے سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کے حوالے سے بیان کی ہے، تو عمرو بولے: اللہ کی قسم! میں نے تو یہ روایت عطاء کی زبانی سنی ہے، جسے انہوں نے سيدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما کے حوالے سے نقل کیا تھا، اور یہ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کے ہمارے ہاں مکہ آنے سے پہلے کی بات ہے۔ سفیان کہتے ہیں: عمرو بن قیس اور عطاء کی ملاقات سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے اس سال ہوئی تھی، جس سال سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے مکہ میں رہائش اختیار کی تھی (یا وہاں اعتکاف کیا تھا)۔ [مسند الحميدي/أَحَادِيثُ ابْنُ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَيْضًا/حدیث: 497]
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 5456، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 2031، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 6744، 6745، وأبو داود فى «سننه» برقم: 3847، والدارمي فى «مسنده» برقم: 2069، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 3269، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 14730، 14731، وأحمد فى «مسنده» برقم: 1949، برقم: 2716، برقم: 3296، برقم: 3568، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 2503»
498- سيدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر سیدہ میمونہ رضی اللہ عنہا کی کنیز کی مردہ بکری کے پاس سے ہوا جو اس کنیز کو صدقے کے طور پر دی گئی تھی، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”اس کے مالک کو کوئی نقصان نہیں ہوگا اگر وہ اس کی کھال حاصل کرکے اس کی دباغت کرکے اس سے نفع حاصل کریں۔“ لوگوں نے عرض کی: یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم )! یہ مردار ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسے کھانے کو حرام قرار دیا گیا ہے۔ سفیان نامی راوی نے بعض اوقات اس میں سیدہ میمونہ رضی اللہ عنہا کا تذکرہ کیا ہے اور بعض اوقات ان کا تذکرہ نہیں کیا، تو ہم اس طرح اور اس طرح (دونوں طرح) سے ذکر کررہے ہیں۔ [مسند الحميدي/أَحَادِيثُ ابْنُ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَيْضًا/حدیث: 498]
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 1492، 2221، 5531، 5532 ومسلم فى «صحيحه» برقم: 363، 365 ومالك فى «الموطأ» برقم: 1829 وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 1280، 1282، 1284 والنسائي فى «المجتبيٰ» برقم: 4246، 4247 2449، 4250، 4272 والنسائي فى «الكبريٰ» برقم: 4547، 4548، 4550، 4551، 4573 وأبو داود فى «سننه» برقم: 4120، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1727، والحميدي فى «مسنده» برقم: 317، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 2419»
499- سيدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتےہیں: ایک مرتبہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عشاء کی نماز ادا کرنے میں تاخیر کردی، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ آئے اور انہوں نے عرض کی: یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم )! نماز (کا وقت گزر رہا ہے)۔ خواتین اور بچے سوچکے ہیں: یہاں عمرو نامی راوی نے یہ الفاظ نقل کیے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم لائے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سر مبارک سے پانی کے قطرے ٹپک رہے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ارشاد فرمایا: ”یہی تو وقت ہے! اگر مجھے اہل ایمان کے مشقت میں مبتلا ہونے کا اندیشہ نہ ہوتا، تو میں اس نماز کو اسی وقت میں ادا کرتا۔“ ابن جریج نامی راوی نے یہ الفاظ نقل کیے ہیں: ایک مرتبہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے رات کے وقت عشاء کی نماز مؤخر کردی۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب تشریف لائے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اپنے ایک پہلو کی طرف سے پانی پونچھ رہے تھے اور یہ ارشاد فرما رہے تھے، ”یہی تو وقت ہے! اگر مجھے اپنی امت کے مشقت میں مبتلا ہونے کا اندیشہ نہ ہوتا۔“ سفیان نامی راوی نے بعض اوقات اس حدیث کو نقل کرتے ہوئے اس میں یہ ادراج کیا ہے کہ یہ روایت سيدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما کے حوالے سے منقول ہے۔ [مسند الحميدي/أَحَادِيثُ ابْنُ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَيْضًا/حدیث: 499]
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 571، 7239، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 642، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 342، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 1098، 1532، 1533، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 530، 531، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 1525، وأحمد فى «مسنده» برقم: 1951، برقم: 3535، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 2398»
500- سيدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ حکم دیا گیا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سات اعضاء پر سجدہ کریں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بات سے منع کیا گیا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم (نماز کے دوران) اپنے بالوں، یا کپڑوں کو سمیٹیں۔ [مسند الحميدي/أَحَادِيثُ ابْنُ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَيْضًا/حدیث: 500]
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 809، 810، 812، 815، 816، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 490، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 1923، 1924، 1925، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 1097، وأبو داود فى «سننه» برقم: 889، 890، والترمذي فى «جامعه» برقم: 273، والدارمي فى «مسنده» برقم: 1357، 1358، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 883، 884، 1040»
501- سيدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بات کا حکم دیا گیا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سات اعضاء پر سجدہ کریں، دونوں ہاتھ، دونوں گھٹنے، انگلیوں کے کنارے اور پیشانی اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بات سے منع کیا گیا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم (نماز کے دوران) بال یا کپڑے سمیٹیں۔ سفیان کہتے ہیں: طاؤس کے صاحبزادے نے ہمیں یہ کرکے دکھایا، انہوں نے اپنا ہاتھ پیشانی پر رکھا پھر اسے ناک کے کنارے تک لائے اور بولے: میرے والد اسے ایک عضو شمار کرتے تھے۔ [مسند الحميدي/أَحَادِيثُ ابْنُ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَيْضًا/حدیث: 501]
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 809، 810، 812، 815، 816، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 490، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 1923، 1924، 1925، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 1098، وأبو داود فى «سننه» برقم: 889، 890، والترمذي فى «جامعه» برقم: 273، والدارمي فى «مسنده» برقم: 1357، 1358، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 883، 884، 1040»
502- سيدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بات کا حکم دیا گیا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سات ہڈیوں پر سجدہ کریں اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ حکم دیا گیا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم (نماز کے دوران) بال یا کپڑے سمیٹیں۔ [مسند الحميدي/أَحَادِيثُ ابْنُ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَيْضًا/حدیث: 502]
تخریج الحدیث: «أبو امية عبد الكريم ضعيف، لكنه متابع عليه، والحديث صحيح، وانظر الحديث السابق»
503- سيدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب رات کے وقت نماز تہجد ادا کرنے کے لئے اٹھتے تھے، تو یہ دعا مانگا کرتے تھے: ”اے اللہ! حمد تیرے لئے مخصوص ہے، تو آسمانوں اور زمین میں موجود سب چیزوں کو روشن کرنے والا ہے، حمد تیرے لئے مخصوص ہے، تو آسمانوں، زمین اور ان میں موجود سب چیزوں کو قائم رکھنے ولا ہے، حمد تیرے لئے مخصوص ہے، تو آسمانوں، زمین اور ان میں موجود سب چیزوں کا بادشاہ ہے، حمد تیرے لئے مخصوص ہے، تو حق ہے، تیرا وعدہ حق ہے، تیری بارگاہ میں حاضری حق ہے، جہنم حق ہے، قیامت حق ہے، (سیدنا) محمد(صلی اللہ علیہ وسلم ) حق ہیں، تمام انبیاء حق ہیں۔ اے اللہ! میں نے تیرے لئے اسلام قبول کیا، تجھ پر ایمان لایا، میں نے تجھ پر توکل کیا، تیری طرف رجوع کیا، میری تیری مدد سے مقابلہ کرتا ہوں، میں تجھے ہی ثالث تسلیم کرتا ہوں، تو میرے گزشتہ اور آئندہ ضفیہ اور اعلانیہ (ذنب) کی مغفرت کردے، تو آگے کرنے ولا ہے، تو پیچھے کرنے والا ہے، تیرے علاوہ اور کوئی معبود نہیں ہے (یہاں کچھ الفاظ میں راوی کو شک ہے)۔“ سفیان کہتے ہیں: عبدالکریم نامی راوی نے اس میں یہ الفاظ مزید نقل کیے ہیں: ”تیری مدد کے بغیر کچھ نہیں ہوسکتا۔“ یہ الفاظ سلیمان نامی راوی نے نقل نہیں کیے ہیں۔ [مسند الحميدي/أَحَادِيثُ ابْنُ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَيْضًا/حدیث: 503]
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 1120، 6317، 7385، 7442، 7499، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 769، ومالك فى «الموطأ» برقم:، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 1151، 1152، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 2597، 2598، 2599، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 1618، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 1321، 7656، 7657، 7658، 10638، 11300، وأبو داود فى «سننه» برقم: 771، والترمذي فى «جامعه» برقم: 3418، والدارمي فى «مسنده» برقم: 1527، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 1355، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 2404، وأحمد فى «مسنده» برقم: 2754»
504- سيدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتےہیں: ایک مرتبہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم صبح کی نماز ادا کرنے کے بعد سیدہ جویریہ رضی اللہ عنہا کے ہاں سے بار تشریف لائے۔ ان کا نام ”برہ“ تھا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا نام جویریہ رکھا تھا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بات پسند نہیں تھی کہ یہ کہا جائے کہ آپ برہ (بھلائی یا نیکی) کے پاس سے تشریف لے گئے ہیں۔ سيدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتےہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم صبح کی نماز ادا کرلینے کے بعد اس خاتون کے ہاں سے نکلے تھے، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس واپس تشریف لائے، تو دن اچھی طرح چڑھ چکا تھا۔ وہ خاتون اپنی جائے نماز پر بیٹھی ہوئی تھیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے دریافت کیا: ”کیا تم اس وقت سے یہیں بیٹھی ہوئی ہو؟“ انہوں نے عرض کی: جی ہاں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں نے تمہارے پاس سے جانے کے بعد چار کلمات تین مرتبہ پڑھے، تم نے جو کچھ پڑھا ہے اگر ان کلمات کو ان کے وزن میں رکھا جائے، تو یہ کلمات وزنی ہوں گے (وہ کلمات یہ ہیں)”اللہ تعالیٰ کی ذات پاک ہے، اس کے لئے حمد مخصوص ہے، جو اس مخلوق کی تعداد کے برابر ہو۔ اس کی ذات کی رضامندی کے برابر ہو، اس کے عرش کے وزن کے برابر ہو اور اس کے کلمات کی سیاہی کے برابر ہو۔“ [مسند الحميدي/أَحَادِيثُ ابْنُ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَيْضًا/حدیث: 504]
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح وأخرجه مسلم فى «صحيحه» برقم: 2140، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 832، 5829، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 9916، 9917، 9918، وأبو داود فى «سننه» برقم: 1503، وأحمد فى «مسنده» برقم: 2370»