499- سيدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتےہیں: ایک مرتبہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عشاء کی نماز ادا کرنے میں تاخیر کردی، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ آئے اور انہوں نے عرض کی: یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم )! نماز (کا وقت گزر رہا ہے)۔ خواتین اور بچے سوچکے ہیں: یہاں عمرو نامی راوی نے یہ الفاظ نقل کیے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم لائے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سر مبارک سے پانی کے قطرے ٹپک رہے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ارشاد فرمایا: ”یہی تو وقت ہے! اگر مجھے اہل ایمان کے مشقت میں مبتلا ہونے کا اندیشہ نہ ہوتا، تو میں اس نماز کو اسی وقت میں ادا کرتا۔“ ابن جریج نامی راوی نے یہ الفاظ نقل کیے ہیں: ایک مرتبہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے رات کے وقت عشاء کی نماز مؤخر کردی۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب تشریف لائے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اپنے ایک پہلو کی طرف سے پانی پونچھ رہے تھے اور یہ ارشاد فرما رہے تھے، ”یہی تو وقت ہے! اگر مجھے اپنی امت کے مشقت میں مبتلا ہونے کا اندیشہ نہ ہوتا۔“ سفیان نامی راوی نے بعض اوقات اس حدیث کو نقل کرتے ہوئے اس میں یہ ادراج کیا ہے کہ یہ روایت سيدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما کے حوالے سے منقول ہے۔ [مسند الحميدي/أَحَادِيثُ ابْنُ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَيْضًا/حدیث: 499]
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 571، 7239، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 642، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 342، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 1098، 1532، 1533، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 530، 531، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 1525، وأحمد فى «مسنده» برقم: 1951، برقم: 3535، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 2398»
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:499
فائدہ: اس حدیث سے ثابت ہوا کہ عشاء کی نماز جتنی تاخیر سے پڑھی جائے، اس کا اتنا ہی زیادہ ثواب ہے لیکن یہ اس وقت ہے جب مسجد کے تمام لوگ اس پر متفق ہوں، ورنہ عام اول وقت میں ہی پڑھ لینی چاہیے، جس طرح عام معمول کے مطابق پڑھی جا رہی ہے۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 499